• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
منگل کے روز وزیر اعظم نواز شریف کی زیر صدارت ایوان وزیر اعظم اسلام آباد میں منعقدہ اعلیٰ سطح کا اجلاس کئی اعتبار سے غیر معمولی اہمیت کا حامل کہا جا سکتا ہے۔ ایک تو یہ کہ اس اجلاس کے ذریعے تمام حلقوںکو یہ پیغام دیا گیا ہے کہ سیاسی وعسکری قیادت دہشت گردی ختم کرنے اور قیام امن کے لئے طالبان سے بات چیت کو پہلا موقع دینے کے موقف پر اکٹھے ہیں۔دوئم یہ کہ اس کے ذریعے ایک بار پھر واضح کیا گیا ہے کہ سیاسی قیادت تمام معاملات کی پوری طرح کمان کر رہی ہے اور فوجی قیادت سول انتظامیہ کے فیصلوں سے قوت و رہنمائی حاصل کرتی ہے۔ اس اجلاس کی تیسری اہمیت یہ ہے کہ اس میں دہشت گردی کے خلاف جنگ اور طالبان سے مذاکرات کے باب میں حکمت عملی کے بنیادی خدو خال طے کئے گئے ہیں۔سیاسی وفوجی قیادتوں کے درمیان رابطوں، مشاورت اور سوچ بچار کے ایک ایسے تسلسل کا بھی اظہار ہوا ہے جس کی موجودگی میں اختلاف کی گنجائش نہیں رہتی۔ پچھلے کئی ہفتوں سے وزیر اعظم اور فوجی قیادت کے درمیان رابطوں نے ایک ایسی حکمت عملی کی صورت اختیار کر لی ہے جس کے باعث ملک میں امن و امان قائم کرنے کی کوششوں میں ہر سطح پر ہم آہنگی نظر آ رہی ہے۔ اس طرح اس معاملے کو منطقی انجام یعنی صلح یا جنگ تک پہنچانا آسان ہو گا۔ مذکورہ اجلاس کے بعد ریاستی اداروں میں فاصلے یا اختلاف رائے کی افواہیں بھی دم توڑ گئی ہیں۔ دوسری جانب سیاسی حلقوں میں جو اتفاق رائے آل پارٹیز کانفرنس کی طرف سے حکومت کو طالبان سے مذاکرات یا کارروائی کا اختیار دینے کے حوالے سے سامنے آیا تھا وہ زیادہ قوی ہوا ہے اور تمام سیاسی پارٹیاں اس نقطہ نظر کا اظہار کرتی نظر آ رہی ہیں کہ طالبان سے افہام و تفہیم کے ذریعے قیام امن کے موقع سے ضرور فائدہ اٹھانا چاہئے مگر سیز فائر کو شدت پسندی کی سرگرمیاں دوبارہ شروع کرنے کی تیاریوں کا ذریعہ نہیں ہونا چاہئے۔ اس حوالے سے دیکھا جائے تو طالبان سے مذاکرات کی حکمت عملی پر اس وقت تمام حلقے زیادہ اعتماد و یقین کے ساتھ ایک صفحے پر نظر آ رہے ہیں۔ ایوان وزیر اعظم کی طرف سے مذکورہ اجلاس کے بارے میں 60الفاظ پر مشتمل پریس ریلیز جاری کیا گیا ہے جس میں سادہ لفظوں میں بتایا گیا ہے کہ اجلاس میں ملک کی مجموعی سیکیورٹی صورتحال پر غوروخوض کیا گیا ہے تاہم باخبر ذرائع کے حوالے سے آنے والی تفصیلات بتاتی ہیں کہ آرمی چیف نے وزیر اعظم کو حالیہ کور کمانڈر زکانفرنس کے فیصلوں پر، ڈائریکٹر جنرل آئی ایس آئی نے ملک کی اندرونی و سرحدی سکیورٹی صورتحال پر اور وزیر داخلہ نے طالبان کمیٹی اور دیگر سیاسی رہنمائوں سے رابطوںکے بارے میں بریف کیا ۔اجلاس میں کراچی کی صورتحال سمیت ملک کی مجموعی داخلی صورتحال پر غور کے بعد اہم فیصلے کئے گئے ۔ ایسے وقت کہ،حکومت اور طالبان کے درمیان براہ راست مذاکرات کا مرحلہ سامنے آ چکا ہے ان مذاکرات میں حصہ لینے والوں کے ناموں سمیت تمام ضروری امور کا زیر غور آنا ایک قدرتی بات ہے۔ وزیر داخلہ اور حکومتی حلقوں کی طرف سے یہ واضح کیا جا چکا ہے کہ مذاکرات میں فوج براہ راست شریک نہیں ہو گی مگر یہ ظاہر ہے کہ اس عمل میں حکومت کو فوج کی بالواسطہ اعانت حاصل رہے گی۔ اگرچہ اس ضمن میں وزیر اعظم کی زیر صدارت ایک اور اعلیٰ سطح کا اجلاس اسی ہفتے بلائے جانے کا امکان ہے مگر یہ بات حوصلہ افزا ہے کہ سیاسی و فوجی قیادت ملک کی مجموعی سیکورٹی کی صورتحال پر نہ صرف مسلسل رابطے میں ہیں بلکہ تمام متعلقہ فیصلے اور اقدامات بھرپور مشاورت سے کئے جا رہے ہیں۔ یہی وہ طریقہ ہے جس سے ملک میں قیام امن کے حصول کے لئے منطقی نتائج کی طرف درست طور پر بڑھا جاسکتا ہے۔ طالبان سے ہونے والے مذاکرات کا نیا دور اس بات کا پیمانہ بھی ہوگا کہ دوسرے فریق نے ایک ماہ تک دہشت گردی کی سرگرمیاں روکنے کا جو وعدہ کیا ہے اسے نباہنے کی کس حد تک صلاحیت رکھتا ہے۔ تاہم یہ بات سب ہی کے مفاد میں ہے کہ امن و امان کی فضا قائم ہو اور قبائلی علاقوں سمیت ملک کے ہر حصے میں ترقی و خوشحالی کے کاموں پر توجہ دی جائے۔

اہم عہدے خالی کیوں؟
کسی بھی حکومت یا ادارے کو چلانے میں بنیادی کردار سربراہی کے منصب اوراہم عہدوں پر مقرر کیے جانے والے افراد کا ہوتا ہے۔ جن اداروں کی قیادت اہل، دیانت دار اور فرض شناس افراد کے ہاتھوں میں ہوتی ہے، وہ مشکلات کا کامیابی سے مقابلہ کرتے اور بحرانوں سے سلامتی کے ساتھ نبرد آزما ہوتے ہیں جبکہ نااہل ،بددیانت اور غیر ذمے دارافراد خوشحال اداروں کو بھی تباہ کردیتے ہیں۔ پاکستان میں متعدداداروں کی تباہی اور مختلف محکموں کی ناکارکردگی میں گزشتہ ادوار میں حکمرانوں کی جانب سے اپنے مفادات کی خاطر نااہل افراد کے اہم مناصب پر فائز کیے جانے کا بڑا حصہ ہے۔ لیکن موجودہ دور میں اس حوالے سے یہ نئی صورت حال رونما ہوئی ہے کہ مختلف اداروں کے سربراہوں سمیت درجنوں اہم سرکاری عہدے اب تک خالی پڑے ہیں حالانکہ حکومت کے پہلے سال کی تکمیل میں اب تھوڑا ہی وقت باقی ہے۔ عدلیہ کی جانب سے کئی بار اس جانب توجہ دلائی جاچکی ہے اور گزشتہ روز ایک بار پھر سپریم کورٹ نے بہت پرزور انداز میں حکومت سے پوچھا ہے کہ سو سے زائد اہم عہدوں کو خالی رکھ کر حکومت کس طرح چلائی جارہی ہے؟عدالت عظمیٰ نے اٹارنی جنرل کو ہدایت کی ہے کہ اس بارے میں حکومت سے معلومات لے کر فوری طور پر عدالت کو آگاہ کیا جائے تاکہ عدالت جائزہ لے سکے کہ اس طرح کہاں کہاں آئین کی خلاف ورزی ہورہی ہے۔ فاضل جج نے اپنے ریمارکس میں ایسا اصول وضع کرنے کی ہدایت کی کہ کوئی ادارہ سربراہ سے محروم نہ رہے۔ ویسے بھی اتنی بڑی تعداد میں اداروں کی سربراہی اور اہم عہدوں کا خالی رہنا حکومت کی کارکردگی اور قوت فیصلہ کے بارے میں کوئی مثبت تاثر قائم نہیں کرتا۔ نگرانی اور رہنمائی کرنے والے کلیدی عہدیداروں سے محروم سرکاری اداروں اور محکموں کی کارکردگی مطلوبہ معیار کے مطابق ہو ہی نہیںسکتی۔ عدلیہ کی جانب سے بار بار توجہ دلائے جانے کے باوجود اتنی بڑی تعداد میں اہم مناصب کا خالی رہنا کسی طرح مناسب نہیں۔ حکومت کو ان عہدوں پر اہل افراد کا تقرر کرکے کسی تاخیر کے بغیر اس کوتاہی کا ازالہ کرنا چاہئے۔

قومی ادارے اور غیر قانونی بھرتیاں
پیمرا میں 119اسامیوں پر 360 افراد کی غیر قانونی بھرتیوں کے الزام میں ادارے کے سابق چیئرمین سمیت چار اعلیٰ افسروں کو گرفتار کر لیا گیا ہے مقدمے میں ایک اور سابق چیئرمین اور تین دوسرے افسروں کے نام بھی شامل ہیں جبکہ بھرتی کے عمل میں شریک کئی ملازمین کو بھی شامل تفتیش کیا جائے گا ایف آئی اے کی تحقیقات کے مطابق 2009 میں 18اسامیوں پر تقرریوں کے لئے اشتہار دیا گیا تھا لیکن چیئرمین نے 119 افراد بھرتی کرنے کی منظوری دے دی جس پر 334 ملیں درخواستیں مقررہ وقت کے بعد بھی وصول کی گئی اس طرح تحریری امتحان میں 674امیدوار شریک ہوئے اضافی اسامیاں سیاسی شخصیات اور بااثر بیورو کریٹس کے سفارشی امیدواروں کو نوازنے کیلئے بورڈ کی منظوری کے بغیر نکالی گئیں دوسری بے قاعدگیوں کے علاوہ یہ بات بھی سامنے آئی کہ ایک شخص کو کامیاب امیدواروں میں شامل کرنے کیلئے تحریری امتحان میں پانچ نمبروں کے سوال پر دس نمبر دے دیئے گئے گرفتار شدہ ملازمین اور ان کے شریک جرم افراد کے بارے میں حتمی فیصلہ تو مجاز عدالت میرٹ پر کرے گی لیکن اس مقدمے سے ظاہر ہوتا ہے کہ قومی اداروں میں من پسند افراد کو نوکریاں دینے کیلئے کیا کیا بے قاعدگیاں اور بدعنوانیاں ہو رہی ہیں کس طرح قانون اور قواعد و ضوابط کی دھجیاں اڑائی جا رہی ہیں اور روزگار کے معاملے میں اہل اور مستحق لوگوں کی کتنی حق تلفی ہو رہی ہے تقریباً تمام سرکاری اور نیم سرکاری اداروں میں اس طرح کی من مانیاں عام ہیں مختلف ادوار میں برسر اقتدار آنیوالی سیاسی حکومتوں نے بھی اپنے نااہل لوگوں کو نوازنے کیلئے غیرقانونی بھرتیاں کرکےمنافع بخش قومی اداروں کو تباہ کرڈالا ہے۔ موجودہ حکومت کو جو ملکی معیشت کی بحالی اور کرپشن کے خاتمے کا ایجنڈا لے کر اقتدار میں آئی ہے ماضی کے اس شرمناک ورثے کی تدفین کیلئے دیانتدارانہ اور غیر جانبدارانہ اقدامات کرنے چاہئیں اور مجرموں کو عبرتناک سزائیں دلوا کر ملک و قوم کا مستقبل ہر طرح کی بدعنوانیوں سے پاک کرنا چاہئے۔
تازہ ترین