• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستانی معیشت کی سنگین ترین خرابیوں میں طویل عرصے سے جی ڈی پی کے تناسب سے ٹیکسوں کی وصولی کی انتہائی پست شرح برقرار رہنا شامل رہی ہے۔ پاکستان نے دسمبر 1995ء سے ستمبر 2013ء تک آئی ایم ایف سے چھ مختلف پروگرام کے تحت قرضے لئے۔ ان قرضوں کی شرائط میں معیشت کے مختلف شعبوں کو موثر طور پر ٹیکس کے دائرے میں لانا اور ٹیکس جی ڈی پی کے تناسب کو بڑھانا شامل رہے ہیں۔ اس مدت میں مختلف شعبوں کو موثر طور پر ٹیکس کے دائرے میں لانا اور ٹیکس جی ڈی پی کے تناسب کو بڑھانا شامل رہے ہیں۔ اس مدت میں مختلف حکومتیں طاقتور طبقوں پر ٹیکس عائد کرنے سے اجتناب اور ٹیکس چوری کی حوصلہ افزائی کرتی رہیں مگر عوام پرنت نئے ٹیکسوں کا بوجھ ڈالا جاتا رہا۔
1995-96 میں جنرل سیلز ٹیکس کی مد میں صرف 50ارب روپے وصول ہوئے لیکن 2012-13 میں عوام کو نچوڑ کر اس مد میں 841 ارب روپے وصول کئے گئے۔ اس کے باوجود ٹیکس اور جی ڈی پی کا تناسب جو 1995-97 میں 14.1 فیصد تھا۔ 2012-13 میں کم ہوکر 9.6 فیصد رہ گیا۔ ٹیکس چوری کے نقصانات پورے کرنے کیلئے جولائی 2001ء سے مارچ 2009ء تک پیٹرولیم مصنوعات پر ایک ہزار ارب سے زائد ٹیکس اور لیوی کی مد میں وصول کئے گئے۔ یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے لیکن بجٹ خسارہ اور ملک پر قرضوں کا بوجھ بڑھتا ہی جارہا ہے۔ یہ بات تشویشناک ہے کہ ملک کے داخلی قرضوں و ذمہ داریوں کا حجم جو 1995-96میں908ارب روپے تھا 2012-13 میں 10948 ارب روپے تک پہنچ گیا جو کہ دس ہزار ارب روپے سے زائد کے اضافے کو ظاہر کرتا ہے یہ اضافہ بنیادی طور پر کرپشن، ٹیکس کی چوری اور طاقتور طبقوں کو ٹیکسوں میں چھوٹ و مراعات دیتے چلے جانے کا منطقی نتیجہ ہے۔ بدقسمتی سے موجودہ پارلیمینٹ اور چاروں صوبائی اسمبلیاں بھی ہر قسم کی آمدنی پر بلا کسی استثنیٰ موثر طور پر ٹیکس عائد کرنے کیلئے تیار نہیں ہیں اور اس سنگین حقیقت سے توجہ ہٹانے کیلئے یہ شوشہ چھوڑا جارہا ہے کہ پارلیمینٹ اور صوبائی اسمبلی کے ممبران ٹیکس چور ہیں۔ دراصل ان میں سے بیشتر کو آڈٹ کے بعد ’’ٹیکس چور‘‘ ثابت ہی نہیں کیاجاسکے گا۔ پارلیمینٹ اور چاروں صوبائی اسمبلیوں نے زرعی، جائیداد اور خدمات سیکٹرز پر ٹیکس موثر طور پر عائد ہی نہیں کیا ہے۔ چنانچہ مختلف ذرائع سے کمائی ہوئی آمدنی کو زرعی آمدنی ظاہر کرکے ٹیکس سے بچا جارہا ہے، یہی نہیں، انکم ٹیکس آرڈیننس 111 (4) کے تحت ٹیکس چوری اور قومی خزانے سے لوٹی ہوئی دولت کو ہنڈی کے ذریعے ترسیلات منگوا کر قانونی تحفظ حاصل ہوجاتا ہے۔ اس طرح گزشتہ 20 برسوں سے تمام حکومتوں بشمول موجودہ حکومت نہ ٹیکس چوری اور لوٹی ہوئی دولت کو قانونی تحفظ فراہم کرنا اپنا فرض منصبی سمجھا ہے چنانچہ ٹیکس چوری کے الزامات چہ معنی دارد۔
مسلم لیگ (ن) کے انتخابی منشور میں ہر قسم کی آمدنی پر موثر طور سے ٹیکس عائد کرنے سمیت ٹیکسوں کے ضمن میں کئی ایسے نکات شامل تھے جن پر عمل درآمد سے پاکستان کی قسمت بدلی جاسکتی تھی۔ بدقسمتی سے ماضی کی طرح نہ صرف ان پر عمل نہیں کیا گیا بلکہ طاقتور طبقوں کے ناجائز مفادات کے تحفظ کے لئے جن میں مرکزی اور صوبائی سطح کے رہنمائوںکے مفادات بھی شامل ہیں ان نکات سے صریحاً انحراف کیا جارہا ہے مثلاً)1کالے دھن کو سفید بنانے کے عمل کو روکنے کے بجائے ٹیکس ایمنسٹی قسم کی اسکیمیں جاری کی گئیں 2) معیشت کو دستاویزی بنانے کیلئے وفاقی بجٹ میں جو نیم دلانہ تجاویز رکھ گئی تھیں، ان کو واپس لے لیا گیا2) تقریباً 35لاکھ مالدار ٹیکس چوروں کی جو تفصیلات حکومت کے پاس تھیں ان پر کارروائی کرنے کے بجائے انہیں عملاً داخل دفتر کردیا گیا 4) جنرل سیلز پیکس کی شرح بڑھا دی گئی۔ اگر مسلم لیگ (ن) کے منشور پر عمل کیا جاتا تو موجودہ مالی سال میں ٹیکسوں کے 2598 ارب روپے کے ہدف کے مقابلے میں 600ارب روپے کی وصولی ہوتی۔ ایک اور تشویشناک بات یہ ہے کہ 2598 ارب روپے کی اس رقم میں صوبوں کا حصہ 1502 ارب روپے ہے چنانچہ وفاقی کے پاس صرف 1096 ارب روپے بچتے ہیں جس سے داخلی قرضوں کا صرف سود بھی ادا نہیں کیا جاسکتا۔
حکومت نے اپنے منشور سے انحراف کے سنگین مضمرات کو محسوس کرتے ہوئے نجکاری کے نام پر قومی اثاثوں کو تیزی سے فروخت کرنے کا ایسا پروگرام بنایا جو خود اس کے منشور سے ہی متصادم ہے۔ دراصل منشور میں پی آئی اے اور منفت بخش اداروں کی نجکاری سرے سے شامل ہی نہیں تھی۔
اس حقیقت کو بھی تسلیم کرنا ہوگا کہ وطن عزیز میں نجکاری کا موجودہ پروگرام دنیا بھر میں نجکاری کے تصور سے مختلف ہے۔ پاکستان میں نجکاری ٹیکس چوری کرنے والوں اور طاقتور طبقوں کو ٹیکسوں کی مد میں چھوٹ و مراعات دیتے چلے جانے نقصانات پورا کرنے کیلئے کی جارہی ہے۔ اس عمل سے قومی مفادات اور سلامتی کے تقاضے بھی متاثر ہوں گے جن کا ذکر ہم 19ستمبر کے کالم میں کر چکے ہیں۔فوجی حکومت کے دور میں جب معیشت کے شعبے میں بہتری کیلئے دعوے کئے جارہے تھے تو ہم نے عرض کیا تھا کہ غیر دانشمندانہ معاشی پالیسیوں بشمول نجکاری کی پالیسی کے نتیجے میں آگے چل کر معیشت بحران کی زد میں آسکتی ہے (جنگ 11جون 2003ء، 8اگست 2006ء اور 3اپریل 2007ء) آخرکار 2008ء میں پاکستان میں معاشی بحران آگیا۔ گزشتہ حکومت کے دور میں ہم نے پھر عرض کیا تھا کہ آگے چل کر ملک ایک اور معاشی بحران کی زد میں آکر پرانے قرضے کی ادائیگی کیلئے آئی ایم ایف سے ایک نیا قرضہ لے گا (جنگ 9دسمبر2008)پرانے قرضے کی ادائیگی 2012-13 سے شروع ہونے والی تھی۔
یہ خدشہ بھی درست ثابت ہوا اور پاکستان نے آئی ایم ایف سے ستمبر 2013ء میں نیا قرضہ لیا۔ اب ہم یہ بات سمجھنے کیلئے اپنے آپ کو مجبور پاتے ہیں کہ اگر ٹیکسوں کے ضمن میں مسلم لیگ کے منشور پر عمل نہ گیا اور بڑھتے ہوئے بجٹ خسارے کو پورا کرنے کیلئے معاشی بحران کچھ عرصے کیلئے تو ضرور ٹل جائے گا مگر آنے والے برسوں میں ایک اور معاشی بحران ہمارا منتظر ہوگا اور ہمارے بہت سے اہم ادارے غیر ملکیوں کی ملکیت میں آچکے ہوں گے۔ ہم گزشتہ کئی برسوں سے پیش کی جانے والی یہ تجویز دہرائیں گے کہ منفعت بخش ادارے فروخت نہ کئے جائیں اور نقصانات دکھانے والے ادارے مثلاً پی آئی اے اور پاکستان اسٹیل کوری اسٹرکچرنگ کے بعد مینجمنٹ کنٹریکٹ پر دے دیا جائے۔
تازہ ترین