• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ہمارا ملک ایسے حکمرانوں کے قبضے میں چلا گیا ہے جو عقلِ سلیم سے محروم اور انسانی جذبوں سے بڑی حد تک عاری ہیں۔ اُنہوں نے دولت، پروپیگنڈے اور ذات برادری کی طاقت سے انتخابات جیت لینے میں کمال مہارت حاصل کر لی ہے اور یوں چوروں کی حکومت چوروں کے ذریعے چوروں کے لئے قائم ہو جاتی ہے۔ عشروں کے تجربات نے ثابت کر دیا ہے کہ ہمارے ہاں اقتدار انسان کو اندھا کر دیتا ہے جسے سامنے کی چیز بھی نظر نہیں آتی۔ صحرائے تھر میں جس المیے نے جنم لیا ہے ، وہ ہمارے حکمرانوں کی بے حسی ، شقاوتِ قلبی اور بدانتظامی کی ایک انتہائی خوفناک تصویر ہے جسے دیکھ کر ہوش اُڑتے اور رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ اٹھارہویں آئینی ترمیم نے ایسے خودمختار صوبوں کو جنم دیا ہے جو ایک دوسرے سے کوئی تعلق رکھتے ہیں نہ مرکز کی بات سنتے ہیں نہ اپنا احوال سناتے ہیں۔ صحرائے تھر میں اِس برس بارشیں کم ہوئیں ،تو سندھ کے وزیراعلیٰ اور اُن کی کابینہ کو حالات سے نبردآزمائی کے لئے کوئی منصوبہ بندی کرنا چاہیے تھی ،مگر وہ تو خوابِ خرگوش کے مزے لیتے اور مال بٹورنے میں مدہوش رہے۔
کسی کو کانوں کان خبر نہ ہونے دی کہ قحط سالی کے آثار پیدا ہو گئے ہیں اور حفظانِ صحت کے ادارے بند پڑے ہیں۔ ٹی وی پر یہ منظر دیکھ کر کلیجہ منہ کو آتا ہے کہ بچوں کو دوا پلانے کے لئے پانی میسر نہیں۔ معصوم بچے غذا کی کمی سے موت کے منہ میں جا رہے ہیں اور ڈاکٹر اور نرسیں ہسپتالوں سے غائب ہیں۔ لوگ بھوک سے مر رہے ہیں جبکہ گودام گندم سے بھرے پڑے ہیں۔ یہ لاکھوں سرکاری افسر جو عوام کی خدمت کے لئے برسرِروزگار ہیں ، اُنہیں انسانوں کے مرنے سے کوئی دکھ نہیں پہنچتا۔ اُن کے نزدیک غریبوں کے بچے مرنے ہی کے لئے پیدا ہوتے ہیں اور قحط سالی ہر سال کا ایک معمول ہے جس میں دس بارہ لاکھ عوام یا ہجرت کر جاتے ہیں یا مردوزن اور مال مویشی بے کسی کی موت کا شکار ہو جاتے ہیں۔ اِس میں پریشانی کی بات ہی کیا ہے ، میڈیا کو شور مچانے کی عادت پڑ گئی ہے اور بین الاقوامی ادارے بلاوجہ ڈراتے رہتے ہیں۔
میڈیا نے بچوں کی ہلاکتوں کے جگر گداز مناظر دکھانا شروع کیے ،تو وزیراعلیٰ سندھ جناب قائم علی شاہ سہانے خوابوں سے ہڑبڑا کر اُٹھے اور اُنہیں تسلیم کرنا پڑا کہ انتظامیہ سے مجرمانہ غفلت ہوئی ہے ، گندم کی فراہمی وقت پر نہیں ہو سکی اور ڈاکٹر اور نرسیں دگنی تنخواہ پر بھی صحرائے تھر کے اسپتالوں میں آنے اور کام کرنے پر تیار نہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا محض اِن ’’اعترافات‘‘ سے جرم کی سنگینی کم ہو جائے گی اور آفت زدہ لوگوں کی دردناک اذیت میں تخفیف واقع ہو گی اور کیا وہ عذاب ٹل جائے گا جس نے بیس ہزار مربع کلومیٹر پر مشتمل علاقہ اپنی گرفت میں لے رکھا ہے جہاں انسانیت کی تذلیل ہو رہی ہے۔ وزیراعظم نوازشریف نے وحشت اثر خبروںسے گہرا اثر لیتے ہوئے مٹھی کا رُخ کیا ، وہاں کے حالات کا تفصیلی جائزہ لیا اور آفت زدگان کی امداد اور بحالی کے لئے ایک ارب روپے کا اعلان کیا اور وزیراعلیٰ سندھ کو اِن افسروں کے خلاف سخت کارروائی کی ہدایت کی جن کی غفلت ،بے پروائی یا کرپشن کے باعث انسان جانوں اور مال مویشیوں کی بڑی تباہی دیکھنے میں آئی ہے ،مگر صاف نظر آتا ہے کہ شاہ صاحب ذمے داروں کو عبرت ناک سزا دے سکیں گے نہ کوئی انقلابی قدم اُٹھائیں گے۔ اُن کا اپنا اقتدار سخت خطرے میں ہے کیونکہ حکومت سندھ کے سیکرٹری صحت اُن کے داماد ہیں اور تھرپارکر کے ڈی سی وہاں کے ایم پی اے کے صاحبزادے تھے۔ اِس اقربا پروری نے پورے جمہوری نظام کو سولی پر چڑھا رکھا ہے اور اختیارات کے کھیل میں ہر اچھی قدر دم توڑتی جا رہی ہے۔ دراصل مفاد پرستوں نے پاکستان کو اپنی چھوٹی چھوٹی سلطنتوں میں تقسیم کر رکھا ہے جن میں کسی کا عمل دخل برداشت نہیںکیا جاتا۔بلاشبہ یہ ایک اچھا شگون تھا کہ وزیراعظم کے استقبال کے لئے وزیراعلیٰ سندھ کے علاوہ بلاول زرداری بھی موجود تھے اور یوں قومی یگانگت کا ایک خوشگوار منظر دیکھنے میں آیا اور نوازشریف عمران خاں ملاقات نے بھی حوصلہ دیا ،مگر بنیادی سوال یہ ہے کہ قوم یہ المیے کب تک برداشت کرتی رہے گی اور بے بصیرت اور خودغرض حکمران کب تک اُس کی تقدیر سے کھیلتے رہیں گے۔ صحرائے تھر کا قحط واقعی ایک بہت بڑا المیہ ہے ،مگر اِس سے بڑا المیہ ہماری اشرافیہ کا ذہنی اور اخلاقی افلاس ہے جو پورے ملک میں بدترین بدامنی اور بدانتظامی پھیلا رہا ہے۔
ہم نے تاریخ میں پڑھا ہے کہ جب انگریز اِس علاقے میں آئے ،تو اُنہوںنے قحط سالی کی روک تھام کے لئے بہت سارے اقدامات کیے جن میں نہر کی تعمیر سب سے بڑا منصوبہ تھا۔ اکیسویں صدی میں علم و تحقیق اور ٹیکنالوجی جس قدر ترقی کر چکی ہے ، کیا ہم اُس کی مدد سے ایک اور نہر نہیں کھود سکتے اور پانی کی تلاش میں تھر کے لوگ سراب میں گم ہو جاتے ہیں ، اُن کو پانی اور صحت کی سہولتیں فراہم نہیں کر سکتے؟ یقینا یہ سب کچھ ہو سکتا ہے ،مگر اِس کے لئے قوتِ ارادی اور عملی فہم و فراست کی ضرورت ہے۔ چولستان کے طبعی حالات بھی اِسی قسم کے ہیں ،مگر اچھی حکمرانی کے ذریعے وہاں کے باشندوں کو زندگی کی بنیادی سہولتیں پہنچانے کا ایک مسلسل عمل جاری ہے۔ صحرائے تھر میں بھی لوگوں کے حالات بدلے جا سکتے ہیں۔ اِس علاقے میں دنیا کا چوتھا بڑا کوئلے کا ذخیرہ دفن ہے ، اِس سے توانائی پیدا کر کے ایک بہت بڑا معاشی انقلاب لایا جا سکتا ہے۔ ہمارے وزیراعظم ،وزیر منصوبہ بندی جناب احسن اقبال اور وزیراعلیٰ پنجاب جناب شہباز شریف اِس منصوبے پر نہایت عرق ریزی سے کام کر رہے ہیں جس سے یہ اُمید بندھی ہے کہ غربت کا خاتمہ ہو گا اور ایک روشن مستقبل اِس زبوں حال خطے پر بھی طلوع ہو گا۔
غربت کے خاتمے اور خوشحالی کا حقیقی رنگ پیدا کرنے کے لئے جس اعلیٰ درجے کا نظم و نسق درکار ہے ،وہ دستیاب نہیں۔ انگریز نے ہمیں ایک نہایت عمدہ انتظامی ڈھانچہ دیا تھا جسے ہم نے سیاسی مصلحتوں کے گرز سے ادھ موا کر ڈالا ہے۔ نااہلی ، بدعنوانی اور اقربا پروری کے باعث بیوروکریسی ریاست کی رِٹ قائم کرنے میں ناکام ہوتی جا رہی ہے اور فیصلہ سازی کا عمل تذبذب اور بے یقینی سے دوچار ہے۔ میرٹ کی مالا جپنے والے اہل اختیار ہی سب سے زیادہ ’’استحقاق‘‘ سے پہلو تہی کر رہے ہیں۔ وفاقی حکومت کی بے عملی اور بے فکری کا عالم یہ ہے کہ ایک سو سے زائد اعلیٰ ترین ادارے اپنے سربراہوں سے محروم چلے آرہے ہیں اور یوں اُن کی کارکردگی بری طرح متاثر ہو رہی ہے۔ہائر ایجوکیشن کمیشن کے سربراہ کا تقرر ایک معمہ بنا ہوا ہے اور یہی معاملہ چیف الیکشن کمشنر کی تعیناتی کا بھی ہے۔پہلے ایگزیکٹو کو یہ گلہ تھا کہ فاضل چیف جسٹس جناب افتخار محمد چوہدری اُسے کام کرنے نہیں دے رہے ، مگر موجودہ چیف جسٹس جناب تصدق حسین جیلانی کا رویہ بڑا متوازن اور معاملات کو سلجھانے میں حددرجہ مددگار ہے ،مگر حکومت میں بروقت فیصلوں کی صلاحیت محدود ہوتی جا رہی ہے اور زیادہ ترزور نمودونمائش پر ہے جبکہ بڑے کام عملی فراست اور مستقل مزاجی سے سرانجام پاتے ہیں اورعصرِ حاضر میں اچھی حکمرانی ہی کامیابی کی واحد کلید ہے۔ اِس بنیادی معاملے پر خاطر خواہ توجہ نہیں دی جا رہی۔ یہی وجہ ہے کہ بلوچستان میں شورش بپا ہے اور کراچی خون سے لت پت ہے جبکہ فاٹا بنیادی اصلاحات کے لئے فریادکناں ہے۔ گورننس کے مسائل حل ہوں گے ،تو داخلی سلامتی کا تحفظ بھی کیا جا سکے گا اور صحرائے تھر میں زندگی اور شادمانی کے گلاب بھی مہک اُٹھیں گے۔
تازہ ترین