• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان پشاور کا قصہ خوانی بازار بنتا جارہا ہے، ہر روز ایک نئی کہانی سنائی جاتی ہے نئی افتاد سر اٹھاتی ہے، نیا بکھیڑا جنم لیتا ہے، قوم پرویز مشرف کیس انجوائے کررہی تھی کہ اچانک اسلام آباد کچہری میں تخریب کاری کا سین پیش کرکے حالات کی کہانی کو دردناک کردیا گیا اور انہی بلند ہوتے شعلوں سے پرویز مشرف صاحب کے لئے آسائشیں اور آسانیاں تلاش کرلی گئیں اب عدالت خود کہہ رہی ہے کہ عالی مرتبت کا عدالت آنا فی الحال غیر محفوظ ہے۔ اسلام آباد کچہری کا سانحہ ابھی پوری طرح انتظامیہ کو سمجھ نہیں آیا تھا کہ وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے کہہ دیا کہ ایڈیشنل سیشن جج کو تخریب کاروں یا حملہ آوروں نے نہیں انہی کے گن مین نے گولی ماری تھی حیرت ہے جو موت کا باعث بنی پوسٹ مارٹم رپورٹ میں وہ گولی ہی نہیں جوگن، جج صاحب کے محافظ کے پاس تھی۔ عوام ابھی اس مخمصے میں مبتلا تھے اور ادھر طالبان مذاکرات ختم اور پھر شروع کے مرحلے میں داخل ہوئے ہی تھے کہ صحرائے تھر میں بھوک افلاس اور موت کا واویلا کردیا گیا۔
دبئی سے عالی مرتبت زرداری صاحب نے اپنے صاحبزادے کی سربراہی میں وزیر اعلیٰ سندھ کو صحرا کی خاک چھاننے کیلئے روانہ کیا ملک بھر کی فلاحی تنظیمیں موقع پر پہنچیں لاہور سے ڈاکٹر آصف محمود جاہ بھی پہنچ گئے سارا اندرون سندھ حرکت میں آگیا گندم کی بوریاں وہیں ایک گودام سے دوسرے اور تیسرے سے چوتھے میں رکھتی دکھائیں بوریوں کو ہوا لگوائی تصویر بنوائی اور پھر گودام بند کرکے یہ جا وہ جا! وفاقی اور صوبائی وزراء گئے گیسٹ ہاؤس میں پوری دیانت سے کھانا کھایا صحرا میں پارلیمنٹ لاجز جیسا ماحول بنایا اور پلٹ آئے۔ اگلے روز وزیر اعظم پہنچے کھانا چن دیا گیا تھا مگر انہوں نے یہ کہہ کر کھانے سے انکار کردیا کہ تھر پیاسا ہے بھوکا بھی ہے، میں کیسے کھاؤں پیوں انہوں نے دارصل اخبارات میں وزراء کی تن وتوش کی خبریں دیکھ لی ہوں گی میڈیا بڑا ڈاہڈا ہے سب کچھ ہتھیلی پر رکھ دیتا ہے جسے آسان لفظوں میں طشت ازبام کہاجاتا ہے۔ دھیرے دھیرے سارا کچھ طشت ازبام ہوتا جارہا ہے تھر میں انتظامیہ کی دوڑ دھوپ اپنی جگہ مگر صحرا کے ان ضرورت مندوں کو تو کچھ بھی نہیں ملا وہ سارا کچھ گیسٹ ہاؤس میں کسی نئے ڈرامے کی ریہرسل تھی جسے سادہ مزاج میڈیا سنجیدگی سے لیتا رہا کوئی سیانا بے شک صحرائے سندھ کے جس ضلع میں چاہے چلا جائے اکثریت میں لوگوں کو علم ہی نہیں کہ ان غریبوں کی آڑ میں کیا کھیل کھیلا گیا ہے پرائے پتر انٹرنیشنل اٹامک انرجی کمیشن والے ڈرامے کے آخری سین کی عکس بندی کے لئے پہنچ چکے ہیں فی الحال وہ لوکیشن کاجائزہ لیں گے ، پاک فوج نے اپنا ایک دن کاراشن تھر کے بھوکوں اور قحط زدہ لوگوں کودینے کا اعلان کیا ہے میاں نواز شریف صاحب نے ایک ارب روپیہ دینے کی خوشخبری سنائی لیکن سندھ گورنمنٹ کے رنگ اس وقت پیلے پڑ گئے جب صحرائے تھر کی انتظامیہ کے چیف نے وزیر اعظم کو بریفنگ دیتے ہوئے ساتھ یہ درخواست بھی کردی کہ وفاقی حکومت اپنے ایک ارب روپوں کی تقسیم بھی خود کرے تاکہ شفافیت برقرار رہے۔ گزشتہ دنوں میں نے ایک ٹی وی چینل پر کہا تھا کہ دنیا کی سات ارب آبادی سات ایٹمی ملک سارے کے سارے طالبان کے پیچھے پڑے ہیں امریکہ اور اس کے اتحادی ملکوں نے اربوں کھربوں ڈالر جو طالبان اور القاعدہ کی بربادی پر خرچ کر ڈالے اور حاصل وصول کچھ نہ ہوا وہی روپیہ اگر طالبان اور پسماندہ مسلمانوں کی بہتری پر خرچ کیا ہوتا تو آج صورت حال ہی اطمینان بخش ہوتی، مگر ہمارے ہاں سوچنے سمجھنے کی صلاحیت مفقود ہوتی جارہی ہے یہی ہمارا المیہ ہے اسی کو قحط الرجال کہتے ہیں اگر رہنما ہوتے تو ملکی مفاد کے سارے منصوبے بغیر کسی اختلاف کے تکمیل کو پہنچ جاتے کوئی کسی کے راستے میں آنے کے بجائے کندھے سے کندھا ملائے کھڑا ہوتا آج اگر کالا باغ ڈیم موجود ہوتا تو صحرا ہمیشہ کی طرح پیاسا نہ ہوتا اس کے نصیب میں اپنے حصے کا پانی بھی ہوتا کس قدر ظلم ہے کہ ہمارا کروڑوں اربوں کیوسک پانی سمندر میں گر رہا ہے مگر ہم اسے کہیں روک کر ذخیرہ نہیں کررہے دراصل یہ صحرا کی خشک سالی نہیں ذہنوں کی پسماندگی ہے، قحط یا خشک سالی صرف بارش نہ ہونے کی وجہ سے نہیں ہوتی بلکہ عقل پر پردہ پڑنے سے بھی قحط پڑجاتا ہے۔ سرکاری دفاتر کا یہ عالم ہے کہ ایک وزارت میں ایک قطار میں تین چار بیسویں گریڈ کے لوگ بیٹھے ہوئے ہیں لیکن کام کسی کے پاس بھی نہیں ایک سے میں نے پوچھا کیا کرتے رہتے ہو کہنے لگا کچھ بھی نہیں تنخواہ مل رہی ہے ڈرائیور، کُک اور کار بھی ملی ہوئی ہے کوئی کام لے تو کریں، ضمیر ملامت نہیں کرتا؟ ضمیر ان کو ملامت کرے جوہم سے کام نہیں لیتے وفاقی دارالحکومت میں بہت سے ایسے محکمے ہیں جو اپنے سربراہوں کے بغیر چل رہے ہیں بہت سے کام کے لوگ کھڈے لائن لگے ہوئے ہیں۔
ایسے ویسے کیسے کیسے ہوگئے
کیسے کیسے ایسے ویسے ہوگئے
وزیر اعظم سیکرٹریٹ جانے والے کبھی ان فائلوں پر نگاہ ڈالیں جو پوسٹنگ کے انتظار میں پڑی گل سڑ رہی ہیں، اسی قسم کی ایک درخواست پر میری نظر اس لئے جاکر رک گئی کہ وہ میرے قلم قبیلے کی ہے، چودہ سے زیادہ کتابوں کا مصنف ہے1982ء کے BACHسے اس کا تعلق ہے محکمہ آڈٹ اینڈ اکائؤنٹس میں31سال سےOSDکے طور پر بیکار بیٹھا ہے، جس ملک میں اساتذہ بے توقیر، عدلیہ بے وقت سمجھی جائے اور CSSافسران OSDبنا دیئے جائیں ایسی قوموں کی حالت زار پر رب کائنات کو بھی شاید ترس نہ آئے کیونکہ
خدا نےآج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا
کرامت حسین بخاری قرطاس وقلم اور آڈٹ ایند اکائؤنٹس کا معروف وممتاز نام ہے اس سے جونیئر بائیسویں گریڈ میں پہنچ گئے وہ بیسویں میں ایک مدت سے بیٹھے ہیں ایک سال میں سات مرتبہ پوسٹنگ کے عذاب سے بھی گزرے۔ کرامت بخاری اپنے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں کے خلاف لاہور کے ہائی کورٹ کے ملتان بنچ میں انصاف کے لئے پہنچے، عدالت نے انصاف کیا مگر محکمانہ عمل درآمد نہ ہوا دوبارہ اپنی پروموشن کے سلسلے میں لاہور ہائی کورٹ گئے وہاں بھی عدالت نے ان کی ڈھارس بندھائی انصاف کیا محکمے کو ایک ماہ کے اندر اندر عدالتی حکم پر عمل درآمد کاکہا مگر وہ حکم بھی نظرانداز کردیا گیا حتیٰ کہ تنخواہ تک روک دی گئی عیدقریب آئی تو کرامت بخاری اسلام آباد ہائی کورٹ جا پہنچے تنخواہ توہائی کورٹ نے دلادی مگر پوسٹنگ اور پروموشن پر عمل نہ ہوا وہ کرامت بخاری جو ڈائریکٹر جنرل آڈٹ بھی ہے جس پر یونیورسٹیاں ایم فل اور پی ایچ ڈی کرچکیں وہ حیرت کی تصویر بن کے رہ گیا ہے۔ یورپ امریکہ اور جاپان والے اپنے دانشوروں کو سر آنکھوں پر بیٹھاتے ہیں مگر ہمارے ہاں استحقاق سے بھی محروم کردیا جاتا ہے۔
یہ ذہنوں کی قحط سالی ہے…
تازہ ترین