بات کا آغاز قوم کے حقیقی اکابرین کے ذکر سے کرتے ہیں۔ 1929ء میں ایک روشن خیال قانون دان محمد علی جناح نے ہندوستان کی مجلسِ قانون ساز سے ایک بل بعنوان ’قانون امتناع ازدواج بچگان‘ منظور کرایا جس کی رو سے کمسن بچوں کی شادی کو غیرقانونی قرار دیا گیا تھا تاہم اس وقت کے چند مذہبی رہنمائوں کا ایک گروہ خم ٹھونک کے میدان میں اگیا اور اس قانون کی مخالفت کرتے ہوئے سیکڑوں کمسن بچوں کے زبردستی نکاح پڑھوائے گئے۔ مسلمانوں کی اجتماعی پسماندگی کو یقینی بنانے کی اس مہم میں بہت سے ایسے مذہبی رہنما پیش پیش تھے جنہیں کئی لوگ غلط طور پر تحریک پاکستان کے اکابر بھی کہہ دیتے ہیں ۔ شاید اسی روایت کو قائم رکھتے ہوئے گزشتہ ہفتے کم سنی کی شادی کو جائز قرار دیا گیا۔ ڈاکٹر خلیفہ عبدالحکیم گزشتہ صدی کے سربرآوردہ مسلم مفکر تھے۔ انہیں علامہ اقبال کی رفاقت کا شرف بھی حاصل تھا۔ انہوں نے 1950کی دہائی کے اوائل میں ایک کتابچہ تحریر کیا تھا، ’’اقبال اور ملا‘‘۔ کچھ سطور ملاحظہ کیجئے۔ ’’میں سمجھتا ہوں کہ خدا کا اقبال پر یہ بڑا فضل تھا کہ وہ پاکستان کے قیام سے پہلے ہی عالم بقا کو سدھارے۔ اگر وہ زندہ رہتے تو دستور مملکت اور تشکیل فقہ جدید میں ان کو قائدانہ حصہ لینا پڑتا۔ اس وقت وہ دیکھتے کہ ملائیت ان کو ایک قدم اٹھانے نہ دیتی۔ مجھے مرکزی اسمبلی کی قائم کردہ زکوٰۃ کمیٹی میں اس کا تجربہ ہوا۔ ایک قابل صدر کے یک بیک انتقال کرجانے کی وجہ سے ’قرعہ صدارت بنام من دیوانہ زدند‘... ایک بڑے علامہ نے جو کسی وجہ سے اس کی رکنیت سے باہر رہ گئے تھے، مجھ سے نہایت تلخ لہجے میں کہا کہ ہماری مخصوص چیزوں میں بھی اگر آپ جیسے لوگ گھس گئے تو پھر ہمارا کہاں ٹھکانہ ہے... بعض اراکین فروع میں جدید حالات کے ماتحت تبدیلی چاہتے تھے تاکہ زکوٰۃ کی اصل غرض بوجہ احسن پوری ہو لیکن لکیر کا فقیر ملا ایک قدم ادھر سے ادھر نہیں ہوتا تھا۔ کہتے تھے کہ سونے اور چاندی کا بھائو دنیا میں کچھ بھی ہوجائے ان کی قوت خرید سو گنا ہو جائے یا کچھ بھی نہ رہے تو پھر بھی مقررہ نصاب میں کوئی تبدیلی نہیں ہو سکتی... وہ اس پر مصر بھی تھے کہ سونے اور چاندی اور اونٹ، بھیڑ، بکری پر زکوٰۃ ہے لیکن کروڑوں روپوں کے جواہرات کے ڈھیر پر زکوٰۃ نہیں۔ اقبال اس فقہ سے نہایت بے زار تھے۔ اگر وہ بقید حیات ہوتے اور اس ناچیز شاگرد کی جگہ اس کی صدارت فرماتے تو بری طرح ملائیت کی ان سے ٹکر ہو جاتی‘‘۔
فیلڈ مارشل ایوب خان نے 1962ء میں اسلامی نظریاتی کونسل کے نام سے ایک ادارہ تشکیل دیا ۔ اس ادارے کا مقصد یہ بیان کیا گیا کہ قانون سازی کو قرآن و سنت سے ہم آہنگ کرنے کے بارے میں مسلم علماسے مشاورت کی جائے گی۔ تاریخی تناظر یہ تھا کہ ایوب خان نے 1961ء میں مسلم عائلی قوانین نافذ کیے تھے اور ان پر مذہبی حلقوں کی طرف سے سخت تنقید ہو رہی تھی۔ آمریت میں دعویٰ کیا جاتا ہے کہ قومی ترقی کے لئے عوامی تائید کے جھمیلوں سے آزاد رہنا بہتر ہے۔ آمریت اس بصیرت سے خالی ہوتی ہے کہ سیاسی قیادت عوامی تائید کے بل ہی پر سخت فیصلے کرنے کی اہلیت رکھتی ہے۔ مخالف ہوا کا پہلا جھونکا محسوس ہوتے ہی غیر جمہوری حکومتیں خشک پتے کی طرح لرزنے لگتی ہیں۔ ایوب خان اپنی افتاد طبع اور تربیت کے اعتبار سے نیم انگریز تھے اور ہمارے تاریخی تناظر ، تمدنی حساسیت اور مقامی روایات سے زیادہ آشنا نہیں تھے۔ مولوی حضرات نے عائلی قوانین کے ضمن میں بال کی کھال اتارنا شروع کی ،کبھی یتیم پوتے کی وراثت کا سوال اٹھایا گیا تو کبھی پدر سری معاشرے میں مردوں کو عقد ثانی کی ترغیب دی گئی۔ ایوب خان نے نظریاتی کونسل کے نام پر مشاورتی ادارہ تشکیل دے کر سوچا کہ اب مذہبی پاپائیت سے جان چھوٹ جائے گی۔ یہ ایک جال تھا جس میں ایوب خان الجھ گیا۔ سیاسی تربیت سے بہرہ ور ہوتا تو جان لیتا کہ یہ تو محض نقطہ آغاز تھا۔ اس کے بعد مخالفین کو پیش قدمی کرنا تھی اور ریاست کے حق میں پسپائی لکھی تھی۔ ایوب خان نے ڈاکٹر فضل الرحمن کو نظریاتی کونسل کا پہلا سربراہ مقرر کیا ۔ روشن خیال فضل الرحمن اپنے تعلیمی پس منظر اور اصلاحی رجحان کے باعث کیسے قابل قبول ہو سکتے تھے۔ ان کی مخالفت میں طوفان کھڑا کیا گیا تو وہ مستعفی ہوگئے اور کینیڈا جا کر اپنے علمی مشاغل میں منہمک ہو گئے۔ خیال رہے کہ ڈاکٹر حمید اللہ زندگی بھر فرانس میں رہے اور جاوید غامدی آج بھی پاکستان سے باہر ہیں۔ 1970 ء کے انتخابات میں جنرل شیر علی خان کے پروردہ عناصر نے نظریہ پاکستان کے نام پر اس قدر گرد اڑائی کہ انتخابات میں کامیابی کے باوجود بھٹو صاحب مذہب پسند حلقوں کو خوش کرنے کی فکر میں رہے۔ انہوں نے اسلامی نظریاتی کونسل کو باقاعدہ آئین کا حصہ بنا دیا۔ یہ ایک مشاورتی ادارہ ہے اور اس کے ارکان عوام کے منتخب نمائندے نہیں ہوتے۔ پارلیمنٹ اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات تسلیم کرنے کی پابند نہیں ہے لیکن پاکستان کے سماجی اور سیاسی تناظر میں ارکان پارلیمنٹ دائیں بازو کے دبائو کی تاب نہیں لا سکتے۔ دوسری طرف اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات کا بنیادی اثر یہ ہے کہ ہمارا سیاسی بیانیہ اور تمدنی مکالمہ رجعت پسندی کا شکار ہو گیا ہے۔ اسلامی نظریاتی کونسل کی کچھ سفارشات ملاحظہ فرمائیں۔
کرنسی نوٹوں پر انسانی تصویر نہیں ہونی چاہئے۔ یہ کیوں نہیں کہتے کہ قائداعظم کی بے ریش شبیہ کچھ حلقوں کو ناگوار گزرتی ہے ۔ 2006ء میں قانون برائے تحفظ خواتین پارلیمنٹ میں پیش ہوا تو ایم ایم اے نے اس کی ڈٹ کر مخالفت کی۔ نظریاتی کونسل نے سفارش کی کہ عورتیں ولی کی اجازت کے بغیر شادی نہیں کر سکتیں نیز یہ کہ اشتہارا ت اور گانوں میں عورتوں کی شرکت کو ممنوع قرار دیا جائے۔ پھر ارشاد ہوا کہ ڈی این اے ٹیسٹ کو زنا بالجبر میں بنیادی شہادت کے طور پر قبول نہیں کیا جا سکتا۔ پھر فرمان آیا کہ آپریشن کے ذریعے جنس کی تبدیلی غیر اسلامی ہے۔ اتنا نہیں جانتے کہ طبی طور پر عورت کو مرد اور مرد کو عورت نہیں بنایا جا سکتا۔ یہ تکمیلی سرجری تو صرف غیر واضح جنس کو متعین کرنے کے کام آتی ہے ۔ مشکل یہ ہے کہ بعض علما حضرات نے قوم کی رہنمائی کا خبط پال رکھا ہے۔ عصری علوم سے آشنا نہیں۔ کسی ہنر سے بہرہ مند نہیں۔ اخلاقی کردار موہوم ہے۔ انسانی ہمدردی سے خالی ہیں۔ بزرگان مذہب کی بصیرت اور استقامت کا شائبہ نہیں۔ اس پہ لغت ہائے حجازی کے یہ قارون چاہتے ہیں کہ قوم بلکہ دنیا بھر کی رہنمائی انہیں سونپ دی جائے۔ کس برتے پر تتّا پانی۔اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات میں ایک رجحان واضح ہے کہ یہ سفارشات معاشرتی اور معاشی طور پر طاقتور کے حق میں اور کمزور کے خلاف ہوتی ہیں۔ ریپ کا نشانہ بننے والی خاتون کے لیے زمین تنگ کی جاتی ہے جبکہ توہین مذہب کا جھوٹا الزام لگانے والے کو چھوٹ دی جاتی ہے۔ یتیم پوتے کو محرومی کی دلدل میں دھکیلا جاتا ہے۔ ایک سے زیادہ شادیوں کی فکر ہے ، بڑھتی ہوئی آبادی کے عواقب پر کبھی توجہ نہیں دی۔ سب سے اہم یہ کہ اسلامی نظریاتی کونسل مذہب کی بہترین روایات اور اقدار کو آگے بڑھانے کی بجائے لفظی تشریح اور قدامت پرستی میں یقین رکھتی ہے۔ اس نے معاشرے میں رواداری ،آسودگی اور سماجی ترقی کے حق میں کبھی آواز نہیں اٹھائی۔ یہ ادارہ ملائیت کے لیے راستہ ہموار کرنے کا آلہ کار بن چکا ہے۔ مولانا شیرانی سے عناد نہیں۔ بھلے آدمی ہیں۔ انہوں نے دہشت گردی کی تب مخالفت کی جب علماء میں سے کسی کو اس جرأت کا یارا نہیں تھا۔ اس کی پاداش میں ان پر قاتلانہ حملے بھی کیے گئے۔ مولانا قلعہ سیف اللہ سے قومی اسمبلی کے رکن ہیں ۔ انہیں پارلیمنٹ کے اندر قانون سازی میں اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ فروعی معاملات پر بے مقصد رائے زنی سے قوم کا راستہ کھوٹا کرنا انہیں زیب نہیں دیتا۔
نوٹ:۔وجاہت مسعود صاحب نے یہ مضمون مولانا شیرانی کے نقطہ نظر سے اختلاف کرتے ہوئے لکھا ہے۔ کئی لوگ مولانا شیرانی کے موقف کے حامی بھی ہیں۔ فاضل کالم نگار سے اگر کوئی اختلاف کرنا چاہے تو جنگ کے صفحات حاضر ہیں (ادارہ)