• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
دھکا لگانے کو تو والدین بھی لگا دیتے ہیں۔ اور اکثر و بیشتر بچوں کی صلاحیت اور رجحان طبع کا لحاظ کئے بغیر انہیں ڈاکٹر ،انجینئر ،بزنس منیجر، سول سرونٹ اور نہ جانے کیا کیا کچھ بنانے کے درپے رہتے ہیں۔ اور اپنی مرضی ان بے چاروں پر بڑی بے رحمی کے ساتھ تھوپ دیتے ہیں۔اس قسم کے اقدامات کا نتیجہ جو بھی نکلے وہ بعدکی بات ہے۔ مگر وقتی طورپر وہ ان نادر فیصلوں‘‘سےاپنی ناآسودہ خواہشات کی تسکین کا اہتمام کر لیتے ہیں۔ تاہم یہ ایک طے شدہ حقیقت ہے کہ بچے کی شخصیت کو بنانے، رجحان طبع کو جانچنے اورمختلف مضامین کا شوق پیدا کرنے میں اچھے اساتذہ کا کردار والدین سے کہیں زیادہ ہوتا ہے۔ کیونکہ استاد کا ذاتی رجحان یا مفاد نہیں ہوتا۔ وہ معاملہ کو ایک ماہر کی طرح لیاقت کی بنیادپر جانچتا ہے۔ ایسے میں استاد جو رہنمائی کرے گا وہ بڑی حد تک صحیح اورمناسب ہو گی۔راقم کو بھی والدین ڈاکٹر بنانا چاہتے تھے۔ ایف ۔ایس ۔سی میں پری میڈیکل کے مضامین بھی لئے مگر فیصلہ تو پہلے ہی ہو چکا تھا۔ گورنمنٹ ہائی اسکول ظفروال میں تاریخ کے ایک استاد نے کچھ ایسا جادو چلایا کہ میں اس مضمون کے سحر میں جکڑا گیا۔ ساٹھ کی دہائی تھی اور اس وقت تک میٹرک کی سطح پر معاشرتی علوم کا چورن تخلیق نہیں ہوا تھا جو کہ آج کل نصاب کا حصہ ہے۔ اور طلباء کی تربیت کم اور الجھن میں زیادہ مبتلا ہے ۔ اس زمانے میں ثانوی سطح پر تاریخ و جغرافیہ کے وسیع وعریض مضامین ہوا کرتے تھے سو نمبر کا ایک پرچہ تاریخ کا ہوتا تھا۔ جس میں پتھر کے عہد سے لیکر زمانہ حال تک کی تاریخ ہندو پاک کے علاوہ مکمل تاریخ برطانیہ بھی ہوا کرتی تھی اور دوسرا پرچہ طبعی ،پاکستان اور عالمی جغرافیہ پر مشتمل ہوتا تھا۔ تاریخ جغرافیہ کا آخری پیریڈ ہوا کرتا تھا۔استاد محترم جمیل حسین شاہ ایک سبق یاد کرنے کیلئے دے دیتے، کہ جو سنا دے گھر چلا جائے اور جو نہ سنائے، غروب آفتاب تک بیٹھا رہے، جب اسے چار بید کی سزا کے ساتھ رخصت کیا جاتا تھا۔یوں میٹرک میں ہی ہم تاریخ وجغرافیہ میں اس قدر طاق ہو گئے کہ ایم اے بس’’اینویں‘‘ ہی لگا۔ فارسی کا شوق والد مرحوم نے پیدا کیا تھاکیونکہ ان کے زمانے میں سعدی کی گلستان اور بوستان پرائمری ہی میں ازبر کرا دی جاتی تھی ۔تاہم فارسی کو آگے لیکر چلنے میں بھی ہائی اسکول کے استاد محترم محمد احمد خان کا ہاتھ تھا۔نوکری میں آئے تو بین الاقوامی تعلقات سے پالا پڑا۔ جسے ہم نے کبھی بھی سرکاری ضرورت سے زیادہ لفٹ نہیں کرائی۔ البتہ تاریخ اور فارسی سے عشق برقرار رہا۔ گو ہمارے عہد تک پہنچتے پہنچتے فارسی زبان روایتی آب و تاب کھو چکی تھی اور پانچ سو برس تک برصغیر ہی نہیں بلکہ افغانستان، اور وسط ایشیا سمیت آدھی دنیا کی سرکاری اور عملی زبان رہنے کے بعد زوال کی آخری حدوں کو چھو رہی تھی اور ’’پڑھو فارسی بیچو تیل ‘‘ جیسے ہتک آمیز محاورات بھی معرض وجود میں آ چکے تھے۔ کوئی ایک غیر ملکی زبان سیکھنا فارن سروس کے افسران کیلئے ضروری ہوتا ہے۔ مگر مشاہدہ یہی ہے کہ فارسی کی طرف لوگوں کو دھکیلا جاتا ہے۔ برضا و رغبت کوئی نہیں جاتا۔ایک دفعہ ایک میٹنگ میں کسی نے فارسی کی تضحیک کی کوشش کی تو اس وقت کے وزیر خارجہ عبدالستار نے کہا تھا ،مسٹر ! آپ غلط فہمی کا شکار ہیں، آپ نے اس بحر کی غواصی کی ہی نہیں ۔کیا جانتے ہو کہ آپ کی ساری فارن پالیسی حافظ شیرازی کے ایک شعر میں سمٹ جاتی ہے۔ ماڈرن ڈپلومیٹس نے بے یقینی اور تعجب کا اظہار کیا تو وطن عزیز کے اس مایہ ناز سفارت کار نے کہا، لو سنو اور اگر غلط ہو تو تصحیح کر دینا ،دانائے شیراز فرماتے ہیں۔
آسائش دو گیتی تفسیر ایں دو حرف است
بادو ستاں تلطف بادشمناں مدارا
یعنی دونوں جہانوں کی آسائش محض ان دو حرفوں کی تفسیر ہے کہ دوستوں کے ساتھ محبت اور دشمنوں کے ساتھ رواداری کے ساتھ رہو۔ جس کسی نے بھی سنا کہا بخدا یہ شعر پاکستان ہی نہیں کسی بھی ملک کی فارن پالیسی کیلئے آئیڈیل بنیاد مہیا کرتا ہے۔ریٹائر ہوئے تو ہر جانب نجی یونیورسٹیوں کی گویا فصل تیار ہو رہی تھی۔ جس میں سے حصہ بٹانے کیلئے بعض دور اندیش قسم کے احباب نے باقاعدہ منصوبہ بندی کی۔ باہر کی کسی فلنگ اسٹیشن ’’یونیورسٹی ‘‘ سے پی ایچ ڈی پکڑی ۔ یا یہاں کی کسی نجی جامعہ کو اعزاز بخش دیا۔ہمارے ایک دوست بھی دوران ملازمت ہی وارث شاہ اور غالب کا مقابلہ کروا کے ایک دوست کی یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کر چکے تھے۔ احباب مقالہ کے موضوع کا مذاق اڑاتے اور واقعی ان کا قول برحق نکلا۔ ریٹائرمنٹ کو چند ہفتے ہی ہوئے تھے کہ پرائیویٹ گھر کی بیسمنٹ میں کھلی ایک یونیورسٹی میں سوشل سائنسز کے فل پروفیسر ہی نہیں ڈین بھی ہو گئے۔ انہی کی نہیں۔ ہر پی ایچ ڈی کی گویا لاٹری نکل آئی تھی۔ کیونکہ کسی بھی فیکلٹی کا پی ایچ ڈی ’’اسکالرز‘‘ پر مشتمل ہونا ایکریڈیشن کیلئے ہائر ایجوکیشن کمیشن کی ریکوائرمنٹ تھی۔ اسی دوست نے ازراہ شفقت ہمیں بھی لیکچرر شپ کی پیشکش کی تو ہم نے بھی ’’بیکار سے بیگار بھلی‘‘ کے زیر اثر ہاں کر دی۔ البتہ ایک شرط رکھی کہ پڑھائوں گا صرف تاریخ یا پھر فارسی بولے، چھوڑیئے جناب، آجکل یہ دقیانوسی مضامین کون پڑھتا ہے؟ہماری انتظامیہ تو آپکی’’صحافت‘‘ سے استفادہ چاہتی ہے۔ عرض کی صحافت ہمارا مشغلہ ضرور ہےمگر اس میں تو ہم پرائمری پاس بھی نہیں۔ جوابی دلیل آئی ،ڈگری کو چھوڑیں جی، اصل بات تو صلاحیت کی ہوتی ہے۔ ستائش سے نفس موٹا ہو گیا تو ہم نے کھٹ سے ہاں کر دی ۔ نصاب ان کا اپنا بنایا ہوا تھا ہمیں تجزیہ نگاری اور تخلیقی تحریر Creating Writingکا کورس دیا گیا جسے ہم نے اپنی سہولت کے لئے کمبائن کر لیا ۔طریق تدریس یہ تھا کہ ایک دن لیکچر دیتے اور دوسرے دن ٹیسٹ لیتے، تاکہ بچوں کو مصروف رکھا جا سکے۔ اور ہماری صحافت کا بھرم بھی بنا رہے، ’’تجزیہ نگاری ‘‘ کے لیکچر کے اگلے روز ٹیسٹ لینا چاہا، تو کوئی سوال ذہن میں نہیں آ رہا تھا۔ کلاس کا ایک کھڑپینچ قسم کا طالب علم یاسر دکھائی نہ دیا، تو ایسے ہی پوچھ لیا کہ بھئی یاسر کدھر ہے؟ جواب ملا جی وہ بیمار ہے، پیٹ میں درد ہے کھٹ سے مطلوبہ سوال ذہن میں اتر آیا کہ آج کے تجزیہ کا موضوع ہو گا کہ ’’یاسر کے پیٹ میں درد کیوں ہے ؟چوبیس کی کلاس تھی اور سب نے تصورات کے گھوڑے خوب دوڑائے اور دور کی کوڑی لائے ، ’’خشتے از خروارے ‘‘ ایک نے لکھا کل دوستوں کے ساتھ کینٹین میں مفت کے سموسے اڑا رہا تھا، خدا جھوٹ نہ بلوائے۔ دو درجن تو کھا گیا ہو گا۔ پیٹ میں درد تو ہونا ہی تھا ’دوسرے نے لکھا ’’شعبہ نفسیات کی نیشا کے پیچھے لگا ہوا تھا ۔ اسکی شادی امریکہ پلٹ کزن سے ہو رہی ہے اب پیٹ میں مروڑ تو اٹھے گا ہی ‘‘ تیسرے کا تجزیہ یہ تھا کہ بیچارے کو عرصے سے آنتوں کی بیماری ہے، معدے کا کینسر تشخیص ہوا ہے۔ اسکی ماں بھی تو ایسی بیماری سے مری تھی ‘‘
3/3ایک بے بنیاد بات کی ان رنگ برنگی توجیحات سے راقم کو حوصلہ ہوا کہ کچھ اور ہو نہ ہو ،تجزیہ نگاری میں ہم اوج کمال کو ضرور پہنچ چکے ہیں۔ الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا میں بیٹھے ہمارے ماہرین نے اس جنس میں ملک و قوم کو خود کفیل بنا دیا ہے۔ سر شام چینلز پر ماہر تجزیہ کاروں کی نشستیں جمتی ہیں۔ تو ہر کوئی کوشش کر کے ایک دوسرے سے مختلف و متضاد بات کر رہا ہوتا ہے۔ یوں گھنٹوں چلنے والے مباحث بے نتیجہ ہی نہیں رہتے،دیکھنے سننے والوں کے کنفیوژن میں اضافہ بھی کر دیتے ہیں۔ حالانکہ شامل پروگرام لوگ با صلاحیت ہوتے ہیں اور حقیقت حال ان کے سامنے کی چیز ہوتی ہے۔ مگر قربان جایئے اس فن تجزیہ کاری کی کہ وہ اس طرف آتے ہی نہیں اور خلق خدا کی کیفیت کچھ اس طرح کی ہوتی ہے کہ شدید پریشان خواب من از کثرت تعبیر ہا‘‘ ظاہر ہے ایسے میں ہماری پروفیسری زیادہ نہیں چل سکتی تھی، سو ہم بھی پریشان ہو گئے اور یونیورسٹی والوں سے معذرت کر لی۔ تنخواہ بھی نہیں ملی، کیونکہ کام ہی صرف بیس دن کیا تھا۔
تازہ ترین