• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
آج 13مارچ 2014ء کو میں لندن میں ہوں اور ابھی ابھی THE HONOURABLE SOCIETY OF INNERTERNAL سے بیرسٹر کی ڈگری وصول کرکے آیا ہوں۔ انتہائی عمدہ اور پروقار تقریب تھی جس میں ایک طرف بینچرز اور لارڈز تھے اور دوسری طرف بیرسٹرز۔ ایک ایک کرکے نام پکارا جارہا تھا اور نئے بیرسٹروں کو اسناد تقسیم کی جارہی تھیں۔ دنیا کے تمام ممالک سے بیرسٹرز تھے۔ پاکستان سے صرف میں تھا جبکہ ہندوستان سے کوئی نہیں تھا۔ میرے لئے یہ بہت بڑا اعزاز ہے۔ تقریب کے سربراہ نے ڈگری دیتے وقت اپنی تقریر میں خاص طور پر میرا اور پاکستان کا ذکر کیا۔ یہ بھی بہت بڑا اعزاز تھا اور تمام حاضرین نے تالیاں بجاکر داد دی۔ میں اس تقریب میں بیٹھا یہ سوچ رہا تھا کہ ایک طرف دنیا ترقی کی منزلیں طے کررہی ہے اور لوگ کتنے سکون سے ہیں جبکہ دوسری طرف ہم جب اپنے ملک کا ٹیلیویژن کھولتے ہیں تو سوائے قتل اور دستی بم اور آپریشن میں نئی گرفتاریوں کے علاوہ کچھ بھی تو قابل ذکر نہیں ہوتا۔ میرے ساتھ اس پروقار تقریب میں میری بیگم عمرانہ، بیٹا مصطفی احمد اور بہو ارم خان بھی شریک تھے جبکہ پاکستان کے واحد کوئین کونسل بیرسٹر صبغت اللہ قادری صاحب بینچرز میں تھے ان کے چیمبر کے بیرسٹر رشید اور بیرسٹر شاہین حاجی نے بھی شرکت کی۔ تقریب کے بعد تمام نئے بننے والے بیرسٹر، ان کے فیملی ممبر اور بنچرز آپس میں گھل مل گئے اور پارٹی کا انعقاد ان کی طرف سے کیا گیا جو کہ انتہائی پروقار تھی اور مختلف انواع و اقسام کے کھانے میسر تھے۔ کل بیرسٹر صبغت اللہ قادری صاحب نے اپنے چیمبرز میں میرے اعزاز میں پارٹی دی ہے جس میں تقریباً 50کے قریب مہمان مدعو ہیں۔ پاکستان میں کافی دنوں کے بعد ایک خوشخبری سننے میں آئی ہے اور وہ پاکستانی روپے کا ڈالر کے مقابلے میں مسلسل مضبوط ہوتے جانا۔ اس کا کریڈٹ جناب نواز شریف اور ان کی ٹیم کو ضرور ملنا چاہئے۔ ہم تھوڑی تھوڑی بات پر ان پر تنقید کرتے ہیں تو اگر ایک اچھا کام ہوا ہے تو اس کی تعریف میں بخیلی سے کام نہیں لینا چاہئے اور کھل کر تعریف کرنی چاہئے۔ میڈیا نے اگرچہ شیخ رشید کے سابق بیان کے حوالے سے روپے کی ڈالر کے مقابلے میں مضبوطی کا ذکر کیا مگر دل کھول کر اس اقدام کی ابھی تک تعریف نہیں کی۔ شیخ رشید کا سابقہ بیان تھا کہ اگر ڈالر 98روپے کا ہوجائے تو وہ اسمبلی اور سیاست سے مستعفی ہوجائیں گے۔ اب معلوم نہیں کہ موجودہ حالات میں شیخ رشید صاحب کیا بیان دیتے ہیں کیونکہ ہمارے سیاستدان بیانوں کے معاملے میں قلابازیاں کھانے کے ماہر ہیں اور فوری طور پر اپنے پرانے بیان کی نئی وضاحتیں لے کر سامنے آجاتے ہیں۔ بہرحال مجھے شیخ صاحب کی وضاحت سننے کا بڑا انتظار ہے۔ وہ شاید یہ انتظار کررہے ہوں گے کہ ڈالر کتنے دن کے لئے گرا ہے اور جب دوبارہ بڑھ جائے تو پھر اپنا کوئی بیان دیں۔ مگر ڈالر تو ہر روز گرتا ہی جارہا ہے اور روپیہ مضبوط ہوتا جارہا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ ابھی اور گرے گا کیونکہ بلیک مارکیٹ میں بہت لوگوں نے غیرقانونی طور پر بہت سا ڈالر دے کر رکھا ہوا تھا اور وہ اس کے اتار چڑھائو سے لاکھوں کا گیم کرتے تھے۔ اب وہ تمام لوگ گھبراہٹ میں اپنے ڈالر بیچنے آئے ہیں اور سامنے کوئی بڑا خریدار نہیں کیونکہ خریداروں کو بھی پتہ ہے کہ یہ ابھی اور گرے گا۔ میری تو دعا ہے کہ روپیہ مضبوط ہوجائے۔ اس سے مہنگائی کم ہوگی خاص طور پر پیٹرول کی قیمتوں میں کمی ہوگی تو بجلی کی قیمت بھی کم ہوجائے گی۔ یہ الگ بات ہے کہ بجلی والے اس کمی کا فائدہ عوام تک پہنچاتے ہیں یا خود ہی اپنے منافع میں بے انتہا اضافہ کرکے عوام کی کمر کو توڑے رکھنا چاہتے ہیں۔ ہمارے ملک میں جس چیز کی قیمت ایک دفعہ بڑھ جائے مشکل ہی سے کم ہوتی ہے۔ مجھے یاد ہے کہ ہمارے زمانہ طالب علمی میں ایسٹ پاکستان میں سیلاب آیا تھا۔ غالباً 1969یا 1970میں اور بڑی تباہی ہوئی تھی۔ اس وقت پیٹرول پر ایک روپیہ فی لیٹر یا فی گیلن ٹیکس لگایا گیا تھا۔ مشرقی پاکستان ہم سے 1971 میں جدا ہوگیا مگر وہ ٹیکس آج تک ختم نہیں ہوا۔ کم از کم میں نے تو کسی اخبار میں اس ٹیکس کے ختم ہونے کی خبر نہیں پڑھی اگر ختم ہوا ہے تو میری تصحیح کی جائے اور بتایا جائے کہ مشرقی پاکستان میں سیلاب آنے کی مد میں ریلیف کے لئے جو ٹیکس لگایا گیا تھا وہ کب ختم ہوا ہے۔ اگر آج کے کالم میں مٹھی میں ہونے والی اموات کا ذکر نہ کیا جائے تو بہت زیادتی ہوگی۔ آج کے اس دور میں جب پوری دنیا گلوبل ویلیج بن گئی ہے اس طرح قحط سے 137 سے زیادہ بچوں کی اموات انسانیت کے منہ پر طمانچہ ہے اور اس پر بڑا طمانچہ یہ ہے کہ ہمارے حکمران قحط زدہ علاقوں میں جاکر ضیافتیں اڑا رہے ہیں۔ مختلف انواع اقسام کے کھانے کھائے جارہے ہیں۔ مشہور محاورہ ہے کہ ’’ایک طرف بدہضمیاں ہورہی ہیں اور دوسری طرف کھانے کو نہیں ہے‘‘۔ کیا جواب دیں گے اپنے اللہ کو اور پاکستان کے عوام کو جن کے ووٹوں سے منتخب ہو کر یہ اپنی معاشی حالت تو راتوں رات بدل لیتے ہیں مگر عوام کو مزید پریشانیوں میں مبتلا کردیتے ہیں۔ ملک سے دور بیٹھ کر ملک کا خیال زیادہ آتا ہے اور خاص طور پر میں تو جب بھی پاکستان سے باہر آتا ہوں جیو لگا کر بیٹھا رہتا ہوں۔ پاکستان میں مجھے ٹی وی دیکھنے کا موقع بہت کم ملتا ہے۔ وہ ساری کمی یہاں آکر پوری کرلیتا ہوں آخر میں مرزا غالب کے شعر پر کالم کا اختتام کرتا ہوں
ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے
بہت نکلے میرے ارمان لیکن پھر بھی کم نکلے
تازہ ترین