• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
تاریخ میں جن قوموں نے اقوامِ عالم کی امامت کی ہے وہ اپنے اپنے وقتوں میں نہ صرف تہذیب و تمدّن ، علوم و فنون اور سائنس و ٹیکنالوجی میں سب سے آگے تھیں بلکہ انہوں نے مدمقابل اقوام کی انفرادی اور اجتماعی نفسیات اور ان کے قومی کردار کی خوبیوں اور خامیوں کا بھی بغور مطالعہ کیا اور ان کے مطابق اپنی پالیساں وضع کیں۔ جیسے 1857ء کی جنگ ِ آزادی کے دوران جب ہندوستان میں ہندو، مسلم، سکھ اور دیگر تمام مذاہب کے لوگ ’’انڈین نیشنلزم ‘‘ کے تحت انگریزوں کے خلاف متحد ہوگئے تو انگریزوں نے ایک مربوط حکمتِ عملی کے تحت ’’تقسیم کرو اور حکومت کرو‘‘ کی پالیسی اپنائی کیونکہ وہ جانتے تھے کہ اس خطّے کے لوگ مذہب ، ذات پات اور رنگ و نسل کی بنیاد پر آسانی سے تقسیم کئے جا سکتے ہیں۔ اسی طرح آج کی سامراجی طاقت امریکہ نے اپنے دیرینہ حریف سوویت یونین کو نیچا دکھانے اور اپنی قومی بالادستی کیلئے افغانستان میں پاکستان اور اپنے مغربی حلیفوں کے ساتھ مل کر جنگ شروع کی تو مسلمانوں کو اس میں زیادہ سے زیادہ شریک کرنے کے لئے اسے مذہبی رنگ دینے کا باضابطہ منصوبہ بنایا۔ ایک اخباری اطلاع کے مطابق یونیورسٹی آف نیبراسکا میں اسّی کے عشرے کے دوران افغانستان کے لئے خصوصی مطالعاتی سیل قائم کیا گیا۔ جس میں اس علاقے کے مذہبی رجحانات اور قبائلی رسم و رواج کو مدنظر رکھتے ہوئے افغان مدرسوں کے طلباء اور عام شہریوں کے لئے ’’جہادی لٹریچر‘‘ شائع کیا گیا۔ مسلمانوں (بالخصوص افغانوں) کے مذہبی جذبات مشتعل کرنے کے لئے یہ پروپیگنڈا کیا گیا کہ چونکہ سوویت یونین ایک لادین ملک ہے اور افغانستان میں اس کی موجودگی اسلام کے خلاف اعلان جنگ ہے لہٰذا یہ جنگ کفر اور اسلام کے درمیان معرکہ ہے جس میں حصہ لینا ہر مسلمان کا فرض ہے۔ اس زمانے میں امریکی عہدیدار اکثر اس قسم کے بیانات دیتے تھے کہ ’’ہم یعنی عیسائی اور مسلمان اہل کتاب ہیں اور مل کر لادینوں (سوویت یونین)کے خلاف جہاد کررہے ہیں‘‘۔ میں نے اس زمانے میں ایک نظم ’’افغانیوں کے قاتلو! ‘‘ کے نام سے لکھی تھی جس میں یہ سوال کیا گیا تھا کہ اگر مسلمان عیسائی امریکہ کے ساتھ ملکر مقدس جہاد کر رہے ہیں تو صلیبی جنگیں کس زمرے میں آتی ہیں جو عیسائیوں نے مذہب کے نام پر مسلمانوں کے خلاف شروع کی تھیں۔ نیز فلسطین ، کشمیر، قبرص اور دیگر جگہوں پر امریکی پشت پناہی میں مسلمانوں کا جو خون بہایا جا رہاہے وہ کس کھاتے میں ہے؟درحقیقت سامراجی قوتوں نے افغانستان کو ’’اسلامی جہاد‘‘ کا رنگ دیکر ایک تیر سے دوشکار کئے ایک توانہوں نے اپنی قومی بالادستی کی جنگ کو جو ان کے توسیعی عزائم کا حصہ تھی اس میں سے خود کو نکال کر افغانستان کی آزادی اور اسلام کی حفاظتی جنگ کا نام دے دیا، دوسرے مسلمانوں کے اندر ’’انتہاپسندی‘‘ کو فروغ دیکر انہیں مزید پسماندہ کرنے کی بنیادیں رکھ دیں۔
ہم دیکھتے ہیں کہ آج مسلمان پوری طرح ان کے جال میں پھنس گئے ہیں دنیا کا کوئی خطہ بھی لے لیں وہاں آج اگر انتہا پسندی کی وجہ سے بے گناہوں کا بے دریغ خون بہایا جا رہا ہے تو اس میں اکثریت مسلم تنظیموں کی ہے جو اسلام کی نشاۃ ثانیہ کے لئے ایک دوسرے کے ساتھ بھی نبردآزما ہیں۔ ایران ، عراق اور لبنان میں پہلے اسی بنیاد پر خوفناک خانہ جنگیاں ہوئیں۔ اب القاعدہ اور اس جیسی کئی جماعتوں نے دنیا کے تقریباً ہر مسلم ملک میں اپنی جڑیں اتنی مضبوط کر لی ہیں کہ انہوں نے وہاں کی معاشرتی اور معاشی زندگی کو مفلوج کرنا شروع کر دیا ہے۔
جو طاقتیں دنیا پر بلاشرکت غیرے اپنی چوہدراہٹ قائم کرنا چاہتی ہیں۔ ان کے لئے اس سے اچھا اور آسان کام کیا ہو سکتا ہے کہ وہ اپنے حریف ممالک میں انتہا پسندی کو فروغ دے دیں تاکہ لوگ خود ہی آپس میں لڑ جھگڑ کر اتنے کمزور ہو جائیں کہ ان کے خلاف کسی بڑے فوجی اقدام کی ضرورت نہ رہے۔ مذہبی انتہا پسندی آج کے دور کے سامراج کا نیا ہتھیار ہے۔ یہ ایک ایسا میٹھا زہر ہے جسے پینے والا بڑی خوشی اور احسان مندی کے جذبے کے ساتھ پیتا ہے۔ وہ طاقتیں نہیں چاہتیں کہ ایسی قومیں مذہبی ، لسانی اور علاقائی فرقہ واریت سے نکل کر سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں آگے بڑھیں۔ جس کا نتیجہ یہ ہے کہ قدرتی وسائل سے مالا مال مسلم دنیا میں ’’ترقی یافتہ‘‘ ملک ڈھونڈنے سے نہیں ملتا۔ مسلم حکومتوں کے تعلقات غیر مسلم ممالک کے ساتھ زیادہ مضبوط ہیں۔ کیا کشمیر کے مسئلے پر کسی مسلم ملک نے آج تک ہندوستان کے خلاف کوئی اقدام کیا ہے؟ خلیجی ریاستوں میں رہنے والے پاکستانی اس بات کے گواہ ہیں کہ وہاں پاکستانیوں سے زیادہ ہندوستانیوں کو فوقیت دی جاتی ہے ان حکومتوں کے تعلقات بھی ہندوستان سے زیادہ ہیں کیونکہ وہ ایک بڑا ملک ہے ۔ جب تعلقات کے ضمن میں مذہب کے بجائے قومی مفادات کو ترجیح دی جاتی ہے تو پھر ’’ مسلم امّہ‘‘ کا کیا تصور ہے؟ سامراج کا نیا ہتھیار ’’مذہبی انتہا پسندی‘‘ ایک ایسا تیر بے خطا ہے جس کا ابھی تک کوئی وار خالی نہیں گیا کیونکہ مسلم ممالک کے ڈکٹیٹر حکمرانوں کو صرف اپنے اقتدار سے پیار ہے جس کے لئے وہ سامراجی حمایت حاصل کرنے میں لگے رہتے ہیں اور سامراج کے ساتھ ملکر اپنے اقتدار کو مضبوط کرنے کے لئے قوم کو مذہبی، لسانی اور فرقہ وارانہ انتہا پسندی میں دھکیل دیتے ہیں۔ تاریخ کا یہ سبق ہے کہ قوموں کی ترقی اور نشاۃ ثانیہ صرف اور صرف سائنس اور ٹیکنالوجی کی بدولت ہی ممکن ہے اور ایسا تب ہی ممکن ہے جب ہر طرح کی انتہا پسندی کو ختم کرکے اعتدال اور انسان دوستی کا راستہ اپنایا جائے۔
تازہ ترین