• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
حکومت کی جانب سے ملک میں امن وامان کی صورت حال بہتر بنانے کی مستقل کوششوں کے باوجود دہشت گردی اور قتل و غارت کے واقعات کا سلسلہ ختم نہیں ہوسکا ہے۔ تحریک طالبان پاکستان کی جانب سے ایک ماہ کی آزمائشی جنگ بندی کے اعلان اور اس کے نتیجے میں مذاکراتی عمل میں اہم پیش رفت اگرچہ جاری ہے لیکن دہشت گردی کی وارداتیں رکی نہیں ہیں۔ ڈیڑھ ہفتہ پہلے اسلام آباد کی ایک کچہری میں دہشت گردی کی کارروائی میں ایک جج سمیت تقریباً ایک درجن افراد کے جاں بحق ہونے کا سنگین سانحہ پیش آیا جبکہ گزشتہ روز پشاور میں خود کش حملے اور کوئٹہ میں سائیکل میں نصب بم کے پھٹنے سے 22 قیمتی زندگیوں کا خاتمہ ہوگیا ۔اسلام آباد کچہری کی واردات کی طرح جمعہ کو پیش آنے والے ان دونوں واقعات سے تحریک طالبان نے فوری طور پر لاتعلقی کا اظہار کیا ہے جبکہ احرار الہند نامی تنظیم نے کچہری دہشت گردی کے بعد پشاور اور کوئٹہ کی دونوں وارداتوں کی ذمے داری بھی قبول کرلی ہے۔کراچی میں برسوں سے جاری ٹارگٹ کلنگ ، بھتہ خوری، گینگ وار، فرقہ وارانہ قتل و غارت ، اور سڑکوں پر لوٹ مار کی روک تھام پر خاص توجہ دیتے ہوئے وفاقی حکومت نے تقریباً سات ماہ پہلے پولیس اور رینجرز کے ذریعے آپریشن شروع کیا تھا۔ اس آپریشن کی ابتداء میں خاصے امید افزاء نتائج سامنے آئے لیکن اب شہر میں ٹارگٹ کلنگ، گینگ وار اور بھتہ خوری کے واقعات کے حوالے سے حالات پھر ابتر ہیں۔ تاہم وزیراعظم نے جمعہ روز کراچی آمد کے بعد شہر میں امن وامان کی بحالی کے عمل کی ذاتی طور پر نگرانی کرنے اور اس ضمن میں اہم اقدامات بروئے کار لانے کے لئے جس غیرمنزلزل عزم کا اعادہ کیا ہے اس سے شہریوں کو بہت حوصلہ ملا ہے ۔ فی الحقیقت ملک میں بدامنی بیک وقت مختلف النوع اسباب و عوامل کا نتیجہ ہے اور اس پر قابو پانے کے لئے الگ الگ حکمت عملی کا اختیار کیا جانا ضروری ہے۔ تحریک طالبان اور اس سے وابستہ گروپوں کی کارروائیاں نظریاتی اور فکری اختلافات کا نتیجہ ہیں۔لہٰذا ان کے ٗتھ مذاکرات کے طریقے کا آزمایا جانا بلاشبہ معقول اور ضروری ہے۔ حوصلہ افزاء بات یہ ہے کہ تحریک طالبان کی مرکزی قیادت خود مذاکراتی عمل میں سنجیدہ نظر آتی ہے جس کا اظہار اس نے جنگ بندی کے اعلان ، آئین پاکستان کے خلاف بیانات کی بندش اور مذاکراتی ٹیموں کے ارکان کے ساتھ مثبت رویہ اپنا کرکیا ہے۔تاہم ان سے وابستہ رہنے والا کوئی گروپ اگر اب بھی دہشت گردی کی کارروائیاں جاری رکھنے پر مصر ہے توانہیں اس کے خلاف کارروائی میں حکومت کی مدد بھی کرنی چاہئے۔ احرار الہند نامی گروپ اگر مذاکراتی عمل کو سبوتاژ کرنے کی کوششوں میں مصروف ہے تو طالبان کو اس گروپ کے خلاف خود بھی ممکنہ انضباطی کارروائی کرنی چاہئے اور حکومت پاکستان کو بھی پورا تعاون فراہم کرنا چاہئے۔ اس کے برعکس کراچی میں بدامنی کسی نظریاتی اختلاف کا نتیجہ نہیں بلکہ بعض سیاسی عناصر کی جانب سے مسلح ونگ بنانے اور جرائم پیشہ مافیاؤں کی سرپرستی کا نتیجہ ہے۔ اس کا اظہار خود ڈی جی رینجرز نے گزشتہ روز شہر میں وزیر اعظم کی سربراہی میں ہونے والے اعلیٰ سطحی اجلاس میں لیاری کے علاقے میں گینگ وار کے حوالے سے بطور خاص کیا۔ لیکن یہ کوئی راز نہیں کہ کراچی میں سیاسی ،لسانی اور فرقہ وارانہ بنیادوں پر ہونے والی قتل و غارت گری اور بھتہ خوری وغیرہ کی پشت پناہی بھی ایسے ہی حلقے کرتے چلے آرہے ہیں۔ وزیر اعظم نے جرائم پیشہ عناصر کے سیاسی سرپرستوں کو بھی قانون کی گرفت میں لانے کا حکم دیا ہے، اس حکم پر اس کی روح کے مطابق عمل درآمد یقینی بنایا جانا چاہئے۔ وزیراعظم نے سول سیکوریٹی اداروں میں بھرتی پر پابندی ختم کرنے کی اجازت بھی دی ہے ۔ اس اقدام سے امن وامان کے قیام کے لئے درکار مزید نفری فراہم ہوگی لیکن اس عمل میں سیاسی وابستگیوں کا عمل دخل بالکل نہیں ہونا چاہئے اور تمام بھرتیاں خالصتاً میرٹ کی بنیاد پر ہونی چاہئیں کیونکہ قانون نافذ کرنے والے اداروں میں سیاسی کارکنوں کی موجودگی بحالی امن کی کارروائی کے نتیجہ خیز نہ ہونے کا ایک اہم سبب ہے۔
پاک برطانیہ تعلقات کا اہم موڑ
جمعہ کے روز مشیر خارجہ سرتاج عزیز اور برطانوی سیکرٹری خارجہ ولیم ہیگ کے درمیان لندن میں ہونے والی ملاقات کے بعد جاری کردہ مشترکہ اعلامیہ میں بتایا گیا ہے کہ دونوں رہنمائوں نے ماضی میں کئے جانے والے سمجھوتوں پر عملدرآمد کی صورت حال کا جائزہ لیا اور اس حوالے سے مستقبل میں کئے جانے والے اقدامات پر بھی تفصیلی غور و خوض کیا گیا۔ مذکورہ ملاقات میں باہمی تجارت میں اضافے کے عزم کی تجدید، سرمایہ کاری کو فروغ دینے کے اقدامات اور سٹرٹیجک مذاکرات کے فریم ورک کے تحت جامع انداز میں مفید اور بامقصد پیش رفت کے لئے کی جانے والی کوششوں کو تیز کرنے پر اتفاق کیا گیا۔ برطانیہ پاکستان کے ساتھ تعلیم، تجارت ، توانائی اور دہشت گردی کے خاتمے سمیت متعدد شعبوں میں تعاون کررہا ہے اور اس حقیقت سے بھی ہر باخبر آدمی واقف ہے کہ پاکستان کو پی ایل ایس پلس کا درجہ دلانے اور اسے یورپی منڈیوں کے دروازے تک لے جانے میں بھی برطانیہ کا بڑا موثر کردار ہے جبکہ برطانیہ نے شدت پسندی کا سدباب کرنے کے لئے پاکستان کی غیر معمولی قربانیوں کی نہ صرف کھل کر تحسین کی ہے بلکہ اس مقصد کے لئے ہر ممکن تعاون فراہم کرنے کا عزم بھی کیا ہے۔پاکستان برطانیہ کے ساتھ اپنی تجارت کو 2015 تک 13 ارب پائونڈ تک لے جا کر دو طرفہ سیاسی روابط کو مضبوط اقتصادی تعلقات میں بدلنا چاہتا ہے کیونکہ موجودہ حکومت اچھی طرح سمجھتی ہے کہ کسی ملک کے لئے خودمختار اور آزاد خارجہ پالیسی پر عملدرآمد اس وقت تک ممکن ہی نہیں جب تک اس کی بنیادیں مضبوط معیشت پر استوار نہ کی گئی ہوں یوں تو اسلام آباد اور لندن کے درمیان 2011ء سے تجارت کاروباری تعلقات مالیاتی و میکرو اقتصادی استحکام تعلیم و صحت اور دفاعی و ثقافتی شعبوں میں تعاون کے سمجھوتے موجود ہیں لیکن ان پر تیز رفتاری سے عمل نہیں ہورہا اب وزیراعظم نوازشریف جلد ہی برطانیہ کا دورہ کرنے والے ہیں جس میں یہ سارے معاملات زیر غور آئیں گے۔ توقع کی جانی چاہئے کہ یہ دورہ پاک برطانیہ اقتصادی تعلقات کو نئی بلندیوں سے آشنا کرنے میں معاون ثابت ہوگا۔

نرسوں پر تشدد بلاجواز تھا!
لاہور میں چھٹے روز بھی نرسوں کی ہڑتال اور دھرنا جاری رہا ۔ جس کی وجہ سے بڑے ہسپتالوں میں مریضوں کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ کئی ہسپتالوں میں آپریشن ملتوی کردیئے گئے، جمعہ کے روز نرسوں کے دھرنے پر پولیس لاٹھی چارج سے متعدد نرسیں بے ہوش اور کئی زخمی ہوگئیں۔ جبکہ صوبہ کے کئی اور شہروں میں بھی اس پولیس لاٹھی چارج کے خلاف نرسوں نے ہڑتال کردی ہے۔ وزیراعلیٰ پنجاب نے نرسز پر تشدد کا نوٹس لیتے ہوئے عدالتی تحقیقات اور ذمہ دار پولیس اہلکاروں کو معطل کرنے کا حکم دے دیا ہےاور ایک اعلیٰ سطح کے اجلاس میں نرسوں کے جائز مطالبات اور مسائل کے حل کےلئے صوبائی وزیر قانون کی سربراہی میں کابینہ کمیٹی بھی تشکیل دے دی ہے۔ وزیراعظم میاں نوازشریف نے بھی وزیراعلیٰ سے واقعہ کی تفصیلات حاصل کیں اور تشدد کرنے کے ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کا حکم دیاہے۔ صوبہ بھر میں عبوری ملازم نرسوں کی جانب سے ملازمت مستقل کرنے اور تنخواہ میں اضافہ کے مطالبات منظور نہ کرنے پر اسمبلی ہال کے قریب دھرنا دیا گیا۔ جس پر صوبائی مشیر صحت اور محکمہ صحت کے حکام نے ان سے مذاکرات بھی کئے لیکن کامیاب نہیں ہوسکے جبکہ صوبائی مشیر صحت کا کہنا ہے کہ نرسوں کے 90فیصد مسائل پہلے ہی حل ہو چکے ہیں، ایڈہاک نرسوں کو ریگولرائزیشن کے لئے پبلک سروس کمیشن سے رجوع کرنا چاہئے۔ چنانچہ نرسیں تادم تحریر دھرنے دے رہی ہیں اور احتجاج کررہی ہیں یہ ایسی صورتحال ہے جس کا فوری طور پر حل نکالنے کی ضرورت ہے۔ ایک جانب نرسوں کے ریگولرائزیشن کا مطالبہ ہے جس کا ملازمت کے تحفظ سے تعلق ہے۔ دوسری جانب پولیس کے ہاتھوں تشدد کی شکایت ہے جس کا ازالہ کیا جانا چاہئے۔ وزیراعلیٰ پنجاب نے اس ضمن میں اعلیٰ سطح کی جو کمیٹی قائم کی ہے اسے فوری طور پر تمام امور کا جائزہ لے کر اور نرسوں کے نمائندوں سے مذاکرات کر کے اس کا سدباب کرنا چاہئے اور ان کے جو بھی درست اور جائز مطالبات اور مسائل ہیں انہیںحل کرنا چاہئے ۔
تازہ ترین