• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان میں بولی جانے والی زبانوں کو قومی زبانوں کا درجہ دینے کا مطالبہ بڑھ رہا ہے اور انتہائی خوش آئند بات یہ ہے کہ اس مطالبے کی کسی بھی حلقے کی طرف سے مخالفت نہیں کی جارہی ہے ۔ اس حقیقت کو سامنے رکھتے ہوئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ حالات تبدیل ہو چکے ہیں ۔ سندھ اسمبلی کے گذشتہ اجلاس میں مادری زبانوں کے عالمی دن کی مناسبت سے ایک قرارداد اتفاق رائے سے منظور کی گئی جس میں یہ مطالبہ کیا گیا تھا کہ پنجابی ، سندھی ، پشتو اور بلوچی کو قومی زبانوں کا درجہ دیا جائے ۔ قرارداد میں حکومت سندھ سے کہا گیا کہ وہ وفاقی حکومت سے رابطہ کرے تاکہ اس حوالے سے پارلیمنٹ میں قانون سازی کی جا سکے ۔ اس قرارداد کی منظوری کے وقت سندھ اسمبلی میں مکمل ہم آہنگی کا ماحول تھا اور کسی طرف سے بھی کوئی اختلافی رائے سامنے نہیں آئی ۔ یہی سندھ اسمبلی تھی ، جب 1972ء میں یہاں سندھی لینگویج بل منظور ہوا تو زبردست تلخی اور کشیدگی پیدا ہوئی تھی لیکن مذکورہ قرارداد کی منظوری کے وقت ماحول یکسر تبدیل تھا۔ اگلے روز قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے اطلاعات و نشریات کے اجلاس میں بھی ایک قرارداد اتفاق رائے سے منظور کر لی گئی جس میں سندھ اسمبلی کی قرارداد سے آگے بڑھ کر یہ مطالبہ کیا گیا کہ مادری زبانوں کو قومی زبانوں کا درجہ دیا جائے۔ قائمہ کمیٹی کا یہ اجلاس مسلم لیگ (ن) کی خاتون رکن ماروی میمن کی صدارت میں منعقد ہوا جس میں چاروں صوبوں سے تعلق رکھنے والے کمیٹی کے ارکان نے شرکت کی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ پورے ملک کے منتخب نمائندوں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ پاکستان میں بولی جانے والی زبانوں کو قومی زبانوں کا درجہ دیا جائے۔ اگر ہم ماضی کی طرف پلٹ کر دیکھیں تو 21 فروری 1952ء کو ایک ایسا واقعہ رونما ہوا جو تاریخ میں پاکستانیوں کے لئے ہمیشہ شرمساری کا باعث بنا رہے گا۔ اس روز ڈھاکہ یونیورسٹی کے قریب مظاہرین پر فائرنگ کی گئی، جو بنگالی کو قومی زبان کا درجہ دینے کا مطالبہ کر رہے تھے ۔ اس فائرنگ سے کئی مظاہرین شہید ہو گئے تھے۔ افسوسناک صورت حال یہ ہے کہ بنگالی زبان کی تحریک کی سب سے زیادہ مخالفت اس وقت کے مغربی پاکستان یعنی موجودہ پاکستان کے کچھ حلقوں کی طرف سے کی گئی تھی ۔ ان حلقوں کی دلیل یہ تھی کہ اگر پاکستان کی قدیم زبانوں کو قومی زبان کا درجہ دیا گیا تو پاکستانی ایک قوم نہیں بن سکیں گے ۔ ایک قوم بنانے کے لئے ایک زبان کا نظریہ دیا گیا اور اس کی مخالفت کرنے والوں کو غدار قرار دیا گیا ۔ بنگالی زبان کی تحریک کا نتیجہ یہ نکلا کے مشرقی پاکستان الگ ہو کر بنگلہ دیش بن گیا اور اس سے ایک زبان ، ایک قوم کا نظریہ تاریخ نے غلط ثابت کردیا۔
اب وقت آ گیا ہے کہ ماضی کی تلخیوں میں الجھے بغیر آگے بڑھا جائے۔ جمہوریت کی وجہ سے ہم آہنگی کی جو فضا پیدا ہوئی ہے اس کا فائدہ اٹھایا جائے اور پاکستانیوں کے ایک قوم بننے کے حقیقی عمل کو تقویت پہنچانے کے لئے حالات سازگار بنائے جائیں۔ قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے اطلاعات و نشریات کے اجلاس میں اس بات پر اتفاق کیا گیا کہ ہر مادری زبان قومی زبان ہوتی ہے جبکہ سرکاری امور نمٹانے کے لئے ایک یا دو سرکاری زبانیں ہو سکتی ہیں ۔ قرارداد میں یہ بھی کہا گیا کہ مادری زبانوں کو قومی زبانوں کا درجہ دینے سے قومی ہم آہنگی کو فروغ حاصل ہو گا۔ اس سے پاکستان ٹوٹے گا نہیں بلکہ زیادہ مضبوط ہو گا ۔ پنجابی ، سندھی ، پشتو اور بلوچی کے علاوہ سرائیکی ، ہندکو ، بلتی ، براہوی ، کشمیری ، پہاڑی ، شینا سمیت پاکستان کی 35 زبانیں ایسی ہیں جو ایک الگ زبان کی حیثیت سے ہر معیار پر پورا اترتی ہیں ۔ ان کا اپنا ایک تاریخی اور ثقافتی پس منظر ہے ۔ ان زبانوں کو قومی زبانیں قرار دینے سے نہ صرف لوگوں کا احساس محرومی ختم ہو گا بلکہ ایک پاکستانی قوم بننے میں انہیں فخر محسوس ہو گا۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے سابقہ دور حکومت میں شاید نواب یوسف تالپور نے قومی زبانوں سے متعلق ایک مسودہ قانون بھی قومی اسمبلی سیکرٹریٹ میں جمع کرایا تھا ۔ شاید دیگر ارکان قومی اسمبلی کی طرف سے بھی اس طرح کے مسودے جمع کرائے گئے تھے ۔ وفاقی حکومت کو چاہئے کہ وہ ان مسودوں کا جائزہ لینے اور تمام سیاسی جماعتوں کا اتفاق رائے حاصل کرنے کے لئے ایک کمیٹی تشکیل دے۔ اگر مسلم لیگ (ن) کی حکومت یہ کام کر لیتی ہے تو یہ 18ویں آئینی ترمیم کی طرح ایک بہت بڑا اور انقلابی کام ہو گا۔ یہ کام پاکستان کو شناخت اور نصب العین کے بحرانوں سے نکال سکتا ہے اور اس سے وہ قوتیں کمزور ہوں گی جو پاکستان کو ایک غیر حقیقی شناخت دینے اور اقلیتی حکمرانی کے لئے کوشاں رہیں۔ ان قوتوں کی وجہ سے پاکستان کے لوگ اپنی حقیقی شناخت کی تلاش میں بدترین انتشار کا شکار رہے ۔ نہ صرف پاکستان میں بولی جانے والی تمام زبانوں کو قومی زبانوں کا درجہ دینے کی ضرورت ہے بلکہ پاکستان کی پارلیمنٹ کو یہ بل بھی منظور کرنا چاہئے کہ ہر بچے کو پرائمری تعلیم مادری زبان میں دی جائے ۔ ان اقدامات سے پاکستان کی قدیم زبانوں کے تحفظ اور ترویج میں مدد ملے گی اور اس کے ساتھ ساتھ لوگوں کے مابین احساس بیگانگی بھی ختم ہو گا ۔ یہ جمہوریت سے ہی ممکن ہوا ہے کہ اب پاکستان کی قدیم زبانوں کو قومی زبانوں کا درجہ دینے کا مطالبہ منتخب ایوانوں کے اندر سے ہی ہو رہا ہے ۔ اس کے لئے لوگوں کو سڑکوں پر نہیں آنا پڑ رہا ہے اور نہ ہی مظاہرے کرنے کی انہیں ضرورت ہے۔ ان مطالبوں کے خلاف کہیں سے کوئی آواز بھی بلند نہیں ہوئی ہے ۔ جو قوتیں ماضی میں ایسے مطالبات کی مخالفت کرتی رہی ہیں انہیں بھی تبدیل شدہ حالات کا ادراک کرنا چاہئے۔ ان غیر نمائندہ قوتوں کی سوچ اب بھی پہلے والی ہے ۔ خاص طور پر پاکستان کے داخلی اور خارجی امور میں خصوصاً سیکورٹی معاملات میں ان قوتوں کی وہی پرانی سوچ اور اپروچ نظر آتی ہے ۔ اب بھی پاکستان کے دفاع اور سیکورٹی کے معاملات میں پاکستان کے عوام پر انحصار نہیں کیا جارہا بلکہ ان عناصر پر انحصار کیا جارہا ہے جو پاکستان کی حقیقی شناخت کو تبدیل کرنا چاہتے ہیں حالانکہ ایسا ممکن نہیں ہے ۔ ایسی کوششیں سب کے لئے مسائل پیدا کرتی ہیں ۔ قومی زبانوں کے معاملے پر قومی اتفاق رائے کو پاکستان کے بحرانوں کے حل کے لئے استعمال کیا جائے۔
تازہ ترین