• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
’’معجزے ہر عہد میں ظہور ہوتے ہیں اور ایدھی ہمارے عہد کا سب سے بڑا معجزہ ہیں‘‘۔ عبدالستار ایدھی صحیح معنوں میں پاکستان کے ’’خادم خلق‘‘ تھے، جنہوں نے انسانی بہبود اور خدمت کی بے مثال وراثت چھوڑی ہے، ایسی وراثت جس کو زوال نہیں‘ وہ ایدھی فائونڈیشن کے بانی سربراہ تھے۔ درحقیقت اس سماجی خدمت بجالانے والی تنظیم میں وہی سب سے زیادہ مصروف اور محنتی کارکن تھے، وہ سربراہ اور کارکن کی دوہری ذمہ داریاں نبھاتے رہے، سب سے مشکل اور معمولی درجے کا کام، جس کو پورا کرنے میں عام کارکن کو ابکائیاں آنے لگتی تھیں انہیں وہ اپنے ہاتھوں انجام دیتے۔ چھوت کی بیماری اور جراثیموں کے حملے کی پروا کئے بغیر وہ کسی طرح کی ذمہ داری قبول کرنے اور نبھاتے رہنے سے کبھی نہ گھبرائے، انہوں نے اپنی زندگی کے تمام فرائض اور ذمہ داریاں خوش اسلوبی سے ادا کیں لیکن کوئی چیز ان کی آنکھ سے اوجھل رہی تو وہ خود ان کی ذات ہی تھی، جس کے آرام و آسائش اور ضروریات کی طرف سے ہمیشہ غافل رہے۔ پھر بھی انہوں نے 88 برس کی عمر پائی، متعدد بیماریوں اور جسمانی عوارض کے باوجود آخری سانس تک اپنی ذمہ داریوں کو خوش اسلوبی سے ادا کیا،وہ کسی داد ودہش کے طلبگار تھے نہ صلہ و ستائش کے تمنائی،پتہ نہیں ان کے اندر وہ کون سی کشش اور غیرمعمولی صلاحیت تھی کہ انہوں نے اپنے بیوی بچوں سمیت ہزاروں کارکنوں کو اپنے رنگ میں رنگ لیا۔ حالانکہ درویشی اور فاقہ کشی کی زندگی میں پہلی رکاوٹ اپنے گھر سے شروع ہوتی ہے، وہ ساری عمر انسانوں کی خدمت، دکھوں کا مداوا،بے سہاروں کو سہارا اور ٹھکرائے ہوئے لوگوں کو لامحدود محبت بانٹتے رہے، ان کا خاندان، ایدھی فائونڈیشن کے کارکن اور رضاکار ہمیشہ خوش دلی اور دلجمعی کے ساتھ بے تکان دوسروں کے درد و غم اپنے اندر لیتے رہے، حتی کہ ذاتی غم و اندوہ کی وہ گھڑی جب عبدالستار ایدھی سے محسن کی لاش دھری تھی کہ ان کے کفن و دفن کا انتظام ہو اس وقت بھی دنیا بھر میں پھیلے ہوئے دفاتر ایک لمحے کو انسانی خدمت کے فرائض سے غافل نہیں ہوئے اور اپنی آنکھ میں آنسوئوں کی جھڑی لئے دوسروں کے آنسو پیتے رہے۔
یہ کوئی برس دو برس کی بات نہیں، 65 سال پر پھیلی ہوئی خدمت و محبت کی داستان ہے، جس کا ہر صفحہ پہلے سے روشن تر نظر آتا ہے‘ یورپ کے بعض اخبارات نے انہیں بجا طور پر ’’مہربان فرشتہ‘‘ کہہ کر پکارا اور کسی نے انہیں پاکستان کا ’’فادر ٹریسا‘‘ قرار دیا اور کہا کہ وہ پاکستان کے سب سے زیادہ، لائق محبت ’’لیجنڈ‘‘ تھے، جن کی دنیا بھر میں قدر و منزلت کی جاتی تھی۔ ’’اب تو وہ ماورائی اور لافانی قوتوں کے حامل دیوتا معلوم ہوتے ہیں۔‘‘ The Huffington Post لکھتا ہے، شاید وہ دنیا کے سب سے عظیم انسانی ہمدردی رکھنے والے زندہ افسانوی کردار تھے۔ اس پاکستانی ہیرو کی سرگرمیاں، دنیا کے امیر ترین ملکوں سے پسماندہ ترین خطوں تک پھیل گئی تھیں، اس سے محبت کرنے والے، دنیا کے ہر مذہب و ملت اور خطے میں دعاگو ہیں۔ کسی بھی خطے میں آنے والی ہر آفت، مصیبت اور مشکل میں پھنسے انسانوں کو وہ اپنا بھائی بیٹا خیال کرتے، ان کے اندر وہی بے چینی اور تڑپ پیدا ہو جاتی جو ایک مہربان ماں کے دل میں اپنے بچے کیلئے ہوتی ہے، پھر اس کی مشکل اور مصیبت کو دور کرنے کیلئے اپنی پوری توجہ، محبت اور وسائل صرف کر دیتے۔ ایدھی نے تن تنہا اور خالی ہاتھ خدمت خلق کی پوری سلطنت تعمیر کر ڈالی اور یہ سب کچھ کسی بھی حکومت اور اتھارٹی کی مدد یا تعاون کے بغیر صرف عام آدمی اور کم وسیلہ لوگوں نے ممکن بنا ڈالا۔ 11سالہ عبدالستار ایدھی کی والدہ فالج کے حملے میں معذور ہو گئی تھیں، جب وہ 19 سال کی عمر کو پہنچے تو والدہ کا اسی معذوری والی بیماری میں انتقال ہو گیا، انہوں نے اپنی معذور اور بیمار والدہ کا بہت خیال رکھا اور ان کیلئے ہر ممکن خدمت بجا لاتے رہے، والدہ کی بیماری، معذوری، ذہنی حالت کو دیکھنے کے بعد وہ ایک تکلیف دہ تجربے سے گزر چکے تھے، اس ذاتی تجربے نے انہیں بوڑھے، نادار، معذور لوگوں کی خدمت کیلئے ایک نظام تربیت دینے کا خیال پیدا کیا۔ اوائل جوانی میں عبدالستار اپنے خاندان کے ہمراہ بھارت سے ہجرت کر کے پاکستان چلے آئے تھے، یہ قیام پاکستان کے فوراً بعد ہوا۔ ہجرت کے مصائب اور مہاجرین کی کسمپرسی کے وہ عینی شاہد تھے بلکہ وہ سارے مصائب و آلام انہوں نے خود جھیلے تھے۔
پاکستان آنے کے بعد بھی ان کی مشکلات کم نہیں ہو پا رہی تھیں۔ چنانچہ وہ مصیبت زدہ لوگوں کیلئے کچھ کر گزرنے کی شدید آرزو رکھتے تھے۔ انہوں نے اپنے ایک انٹرویو میں بتایا کہ ’’میں لوگوں کو کراچی کے فٹ پاتھ پر فلو کے متعدی مرض میں مبتلا بخار میں پھنکتے دیکھتا، کوئی ان کی دیکھ بھال اور دوا دارو کرنے والا نہیں تھا، چنانچہ میں نے کچھ ’’بینچ‘‘ انتظام کئے اور میڈیکل کالج کے طالبعلموں کو مدد کیلئے پکارا تو وہ رضاکارانہ ان نادار مریضوں کے علاج کیلئے آ گئے، اس طرح ان بے گھر دکھی لوگوں کا علاج شروع ہوا، میرے پاس کچھ نہیں تھا،بالکل خالی ہاتھ، ان کی دوا کیلئے پیسے کہاں سے آتے؟
چنانچہ کراچی کے چھوٹے دکان داروں کے سامنے جھولی پھیلا کر بھیک مانگی تو لوگوں نے مجھے مایوس نہیں کیا، انہی بھیک میں مانگے پیسوں سے 8x8 کا ایک کمرہ خریدا اور اپنا کام شروع کر دیا۔چنانچہ اپنی زندگی کو غریب، محتاج اور ضرورتمندوں کیلئے وقف کر کے اللہ سے مدد اور کراچی کے لوگوں سے بھیک مانگی، اللہ کی مدد شامل تھی، لوگوں نے پیسہ دیا اور اس میں بڑی برکت پیدا ہوئی کہ کسی بھی منصوبے کی تکمیل کیلئے زیادہ فکرمند نہیں ہونا پڑا، اللہ کا کام تھا اسی نے کر ڈالا، اللہ کا دیامال اسی کے بھیجے ضرورت مند، ہم تو بس چوکیدار تھے، چوکیدارای کرتے رہے اور کریں گے جب تک وہ چاہے گا۔‘‘
23سال کی عمر میں عبدالستار ایدھی نے اپنی برادری کے تعاون سے غریب لوگوں کی مدد کیلئے ’’فری ڈسپنسری‘‘ قائم کی لیکن جلد ہی برادری کے اکابرین سے اختلاف پیدا ہو گیا، برادری محدود وسائل کی وجہ سے اس مفت ڈسپنسری کو اپنی میمن برادری تک محدود رکھنا چاہتی تھی لیکن ایدھی سب کے دکھ کو برابرجانتے، وہ اس تفریق کے قائل نہ ہو سکے، چنانچہ ان سے الگ ہو کر خاندان اور دوستوں کے تعاون سے تین، ساڑھے تین ہزار روپے جمع کئے اور الگ ڈسپنسری قائم کی جہاں ہر مریض کو سہولت مہیا کی جاتی، جس میں ملت و مذہب کی کوئی تمیز روا نہ رکھی جاتی تھی۔ ایدھی نے اپنی زندگی کو غریبوں کیلئے وقف کیا اور اگلے 65 برس اسی میں لگا دیئے، اس تنہا، ناتواں، نادار شخص نے پاکستان میں انسانی خدمت اور فلاح و بہبود کے خواہشمندوں کیلئے وسیع و عریض شاہراہیں تعمیر کر ڈالیں، آج پاکستان کے ہر شہر، دیہات اور قصبے میں فلاح انسانیت کے جو بھی چراغ روشن ہیں، ان چراغوں کیلئے بتی، تیل یا شعلہ ایدھی کا دیا ہے۔ عمران خان نے کہاایدھی صاحب نے 26 سال پہلے شوکت خانم کیلئے گراں قدر عطیہ دیا تھا، ’’چھیپا‘‘ نے کہا ہماری ایمبولینس سروس ایدھی صاحب کا نقش قدم ہے، اسی طرح ابرار الحق اور دوسرے بہت سے لوگوں نے بھی انہیں اپنا آئیڈیل اور رہنما قرار دیا ۔ ’’ایدھی نے کسی کو مال دیا، کسی کو نقش قدم اور کسی کو جذبے کا شعلہ‘‘ یہ ایسا صدقہ جاریہ ہے جو روز جزا تک ان کی قبر کو روشن رکھے گا۔کروڑوں لوگوں کی گواہی اور دعائیں ان شاء اللہ ان کے آخرت کی ساری راہیں کشادہ کر دیں گی۔ ان کا کارنامہ صرف یہ نہیں کہ انہوں نے ابتدائے جوانی میں خود کو مذہب انسانیت کیلئے وقف کیا اور 88سال کی عمر کے آخری لمحے تک اپنے عہد پر پورا اترے اوراپنی آنکھیں اور اپنے جسم کے اعضاء عطیہ کردیئے،چنانچہ ان کی آنکھیں دو نابینائوں کے اندھیروں کو روشن کر چکی ہیں، باقی جسم ڈاکٹروں کے بقول بیماری اور سال خوردگی کے باعث کسی کام کا نہ تھا، چنانچہ پاکستان کے پرچم میں لپیٹ کر سپردِ خاک کیا، اسی قبر میں جو موت کو یاد رکھنے والے اس عاجز نے 25 سال پہلے اپنے ہاتھوں سے تیار کر رکھی تھی۔
صلے کی تمنا نہ ستائش کی پروا
ایک انچ زمیں، ایک روپے کا بینک بیلنس، طاقت نہ وجاہت مگر عاجزی، انکساری، جذبے کی شدت، نصب العین سے وابستگی، اللہ پر توکل کے سہارے پوری دنیا میں خدمت خلق کی سب سے بڑی سلطنت چھوڑ گیا، عزت، شہرت، قدر و منزلت ان کی خواہش تھی نہ کوشش، پھر بھی ان پر ٹوٹ کے برسی۔ ’’معجزے ہر عہد میں ظہور ہوتے ہیں اور ایدھی ہمارے عہد کا سب سے بڑا معجزہ ہیں۔‘‘
تازہ ترین