• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
نامور کشمیری قانون دان جسٹس (ر) سید منظور الحسن گیلانی کی دیرینہ کوششیں رنگ لانے لگی ہیں اور وزارت امور کشمیر نے ان کی تحریک پر آزادجموں وکشمیر اور گلگت بلتستان کو پاکستان کے صوبوں کی طرز پر حقوق اختیارات اور وسائل دینے کیلئے حکومت کو بین الوزارتی کمیٹی قائم کرنے کی باقاعدہ تجویز دے دی ہے۔ جسٹس گیلانی جو آزادکشمیر سپریم کورٹ کے چیف جسٹس بھی رہے ہیں ایک عرصہ سے ان دونوں آزادخطوں کو پاکستان کی قومی اسمبلی‘ سینٹ‘ مشترکہ مفادات کی کونسل اور دوسرے آئینی اداروں میں نمائندگی دینے کی وکالت کر رہے ہیں۔ پھر ایک قدم آگے بڑھ کر انہوں نے وزارت امور کشمیر اور وزارت خارجہ کو ایک ورکنگ پیپر بھیجا جس میں آئین کے آرٹیکل 258 میں ترمیم کرکے آزادکشمیر اور گلگت بلتستان کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق تنازعہ کشمیر کے حتمی حل تک پاکستان کے صوبوں جیسے آئینی اختیارات دینے کی بات کی گئی ہے۔ اس حوالے سے بعض اخبارات میں یہ تاثر دیا گیا کہ ورکنگ پیپر میں ان دونوں علاقوں کو پاکستان کے صوبے بنانے کی تجویز دی گئی ہے۔ اسی تاثر کی بناء پر آزادکشمیر کے صدر اور وزیراعظم نے غالباً ورکنگ پیپر کو پڑھے اور اس کے سیاق و سباق پر غور کئے بغیر اس کی شدت سے مخالفت کی اور کہا کہ ہم آزادکشمیر کو صوبہ نہیں بننے دیں گے۔ یہ ہمارے سیاستدانوں کی عادت بن گئی ہے کہ میڈیا پر آنے والی خبروں کی تفصیلات اور حقائق جانے بغیر بیانات داغ دیتے ہیں پھر ان کے بیانات پر عام سیاسی کارکن بھی مخالفت یا موافقت میں بیان بازی شروع کردیتے ہیں۔ امر واقع یہ ہے کہ جسٹس گیلانی کی تجویز آزادکشمیر اور گلگت بلتستان کے حقوق و اختیارات کے حوالے سے نیک نیتی پر مبنی ہے۔ وزارت خارجہ نے اس سفارش کے ساتھ یہ تجویز وزارت امور کشمیر کو بھیجی کہ اس کا آئینی جائزہ لینے کیلئے بین الوزارتی کمیٹی بنائی جائے۔ یہ تجویز اس وقت وزیراعظم سیکرٹریٹ میں زیرغور ہے۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ بھارت نے اپنے سامراجی مقاصد کے تحت مقبوضہ کشمیر کو 1950 سے 1967 تک جزوی اور اس کے بعد اپنے مکمل صوبے کا درجہ دے دیا تھا۔ پاکستان اقوام متحدہ کی قراردادوں کے تحت کشمیری عوام کے حق خودارادیت کا مسئلہ طے ہونے تک پوری ریاست جموں وکشمیر کو متنازعہ سمجھتا ہے۔ اس لئے اس نے آزادکشمیر اور گلگت بلتستان کی حیثیت میں کوئی تبدیلی نہیں کی تاہم اس کے سیاسی انتظامی اور مالی معاملات کی نگرانی کی غرض سے دونوں علاقوں کیلئے الگ الگ کونسلیں قائم کردیں۔ گلگت بلتستان میں1949 کے معاہدہ کراچی کے تحت پہلے پولٹیکل ریذیڈنٹ مقرر کئے جاتے رہے۔ اب اس کا نظام چلانے کیلئے منتخب اسمبلی‘ کابینہ اور وزیراعلیٰ کی گنجائش نکالی گئی ہے جبکہ ایک گورنر بھی ہے جسے حکومت پاکستان نامزد کرتی ہے۔ یہ عجیب و غریب نظام صوبے کا نعم البدل ہے نہ گلگت بلتستان کی حکومت کو صوبوں جیسے اختیارات حاصل ہیں۔
آزادکشمیرکی حیثیت کے بارے میں 11مئی 1971 کو ایک نوٹیفکیشن جاری کیا گیا تھا جس میں کہا گیا ہے کہ ’’اگرچہ آئین کے تحت آزادکشمیر پاکستان کا حصہ نہیں لیکن تمام عملی مقاصد کیلئے اسے وفاق کے کسی صوبے کی طرح ہی سمجھا جائے گا‘‘ اس نوٹیفکیشن کے بعد اسے دوسرے صوبوں کی طرح قومی اداروں میں نمائندگی‘ حقوق و اختیارات اور وسائل مل جانے چاہئیں تھے جو نہیں ملے البتہ اس پر وفاق کا براہ راست یا بالواسطہ اقتدار مزید مستحکم ہوگیا۔ اس وقت صورت حال یہ ہے کہ آزادکشمیر اور گلگت بلتستان میں اپنی اپنی حکومتیں ہیں اور یہ دونوں حکومتیں وزارت امور کشمیر اوراس کے توسط سے آزادکشمیر کونسل یا گلگت بلتستان کے مشوروں فیصلوں اور ہدایات کی پابند ہیں۔ یہ اسی طرح کا انتظام ہے جیسا انگریزوں نے 1905 میں جموں وکشمیر کے مہاراجہ کے ساتھ ایک معاہدے کے تحت کیا تھا اور اسے انگریز ریذیڈنٹ کے مشوروں اور ہدایات کا پابند بنا دیا تھا۔ آزادکشمیر اور گلگت بلتستان کی کونسلیں ان دونوں علاقوں اور حکومت پاکستان کے نامزد مساوی ارکان پر مشتمل ہیں اور وزیراعظم پاکستان ان کا چیئرمین ہے۔ جسٹس گیلانی کی تجویز سے آزادکشمیر اور گلگت بلتستان کو پاکستان کے آئینی اداروں میں نمائندگی مل جائے گی جو دونوں علاقوں کا احساس محرومی دور کرنے کا سبب بنے گی۔ گلگت بلتستان کے علاوہ آزادکشمیر حکومت کے اختیارات بھی اس وقت بہت محدود ہیں۔ ایکسائزڈیوٹی اور انکم ٹیکس سمیت مختلف ٹیکسوں کی مد میں جمع ہونے والی رقوم کشمیر کونسل کے کھاتے میں چلی جاتی ہیں۔ وفاقی ٹیکسوں میں آزادکشمیر کا حصہ برائے نام ہے۔ پاکستان میں کھربوں روپے کی کشمیر پراپرٹی کی آمدنی بھی کشمیر کونسل کو ملتی ہے۔ حکومت پاکستان کا وعدہ ہے کہ اس کے عوض وہ آزادکشمیر کے بجٹ کا خسارہ بھی پورا کرے گی جو ہر سال تقریباً دس ارب روپے کے لگ بھگ ہوتا ہے‘ مگر یہ خسارہ کبھی پورا نہیں کیاگیا‘زیادہ سے زیادہ 5یا6ارب روپے دے کر حساب بے باق کردیا جاتا ہے۔ منگلاڈیم کی رائلٹی بھی آزادکشمیر کو نہیں ملتی‘اس کی بجائے کشمیر کا پانی استعمال کرنے کے چارجز دیئے جاتے ہیں جو ڈیم کی مجموعی آمدنی کا صرف اعشاریہ دو فیصد بنتے ہیں۔
حالانکہ خیبرپختونخوا کو تربیلا ڈیم کی مکمل رائلٹی ملتی ہے‘ نیلم جہلم پاورپراجیکٹ ایک ہزار میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کا منصوبہ ہے۔ اس کی آمدنی سے آزادکشمیر کو کیاملے گا اس حوالے سے کوئی معاہدہ نہیں کیاگیا۔ منگلا ڈیم کی تعمیر کے وقت دو وعدے کئے گئے تھے۔ ایک یہ کہ میرپور والوں کوبجلی مفت ملے گی۔ دوسرا‘ڈیم کی بجلی پہلے آزادکشمیر کو مہیا کی جائے گی‘ جو بچے گی وہ نیشنل گرڈ میں شامل کی جائے گی۔ منگلا ڈیم سے گیارہ سو میگا واٹ بجلی پیدا کی جارہی ہے جو ساری کی ساری نیشنل گرڈ میں منتقل کر دی جاتی ہے جبکہ آزادکشمیر میں بیس بیس گھنٹے لوڈشیڈنگ ہوتی ہے۔ رہامیرپور والوں کا معاملہ جن کے گھروں، زرعی زمینوں، باغات اور آبائو اجدادکی قبروں پر ڈیم بنایاگیاتھا تو انہیں بجلی مفت کیا ملنی تھی۔ پورے پیسے دے کر بھی چند گھنٹے کے لئے ملتی ہے۔ بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی کہ مقبوضہ کشمیر کے ہائیڈل پاور پراجیکٹس کی بجلی گھریلو صارفین کو50روپے فی میٹر ماہانہ ملتی ہے‘ چاہے جتنی بھی استعمال کر لیں۔ آرا اور آٹے کی مشین چلانے پر صرف سات سو روپے ماہانہ ادا کرنا پڑتے ہیں اورلوڈشیڈنگ بھی نہیں ہوتی‘ آزادکشمیر کاچیف سیکرٹری‘ سیکرٹری مالیات‘ سیکرٹری صحت‘انسپکٹر جنرل پولیس‘اکائونٹنٹ جنرل‘ایڈیشنل سیکرٹری ترقیات‘ کمشنر انکم ٹیکس اور کشمیر کونسل کے جوائنٹ اور ڈپٹی سیکرٹری حکومت پاکستان خود مقرر کرتی ہے اور آزادکشمیر کو ’ادھار‘ دے دیتی ہے‘جب سیاسی انتظامی اورمالی اختیارات کی صورت حال یہ ہو تو انصاف کا تقاضا یہی ہے کہ دوسرے صوبوں کی طرح اسے کلی حق حاکمیت اور وسائل پر مکمل اختیار بھی دیاجائے۔ کشمیری عوام کی مملکت پاکستان سے جذباتی وابستگی ہر طرح کی مراعات اور سہولتوں سے ماورا ہے مگر پاکستان کے حکمرانوں سے وہ خیر کی توقع رکھتے ہیں۔ بھارت کی طرح کے جبر کی نہیں۔
تازہ ترین