• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پہلے ذکر گناہ گار بندوں کی جانب سے زمین سے آسمان کو بجھوائے جانے والے"ایدھی" فرشتے کا، جس نے زندگی کےبھرپور ایام جوانی سے زندگی کی ٹوٹتی امید کے بزرگ لمحوں تک پوری زندگی خدمت خلق اور انسانیت کی فلاح کے لیے وقف کردی،ہزاروں زندگیاں محفوظ، آباد اور روشن کیں ، 25 سال پہلے سفر آخرت کا"گھر" بھی خودتیار کیااور چند سو روپوں کےکفن کی قیمت کا بوجھ تک کسی دوسرےپر نہ ڈالنے کی عظیم روایت بھی قائم کردی،نفسا نفسی کے المناک دور میں بلند قامت شخصیت کا مرتبہ اس قدر عظیم ہے کہ وہ کسی لفظی یا اعزازی خراج کا محتاج نہیں،مجھ سمیت پوری قوم کےلئے انکی پوری زندگی کی ریاضت کا سبق اور ثمر یہ ہوسکتاہے کہ ہم سب اپنی اپنی جگہ احترام انسانیت سمجھیں اور جتنابس میں ہو آدمیت کی مدد وخدمت کریں، ہاں تواب کارزار سیاست کے بازی گروں کی بات ،ایک مرتبہ پھرہرطرف شور مچا ہے کہ اب فیصلہ سڑکوں پر ہوگا۔۔۔! تحریک انصاف وزیراعظم کو کٹہرے میں لانے اور پیپلزپارٹی پانامالیکس کی گیند وزیراعظم کی کورٹ میں ہونے کی بات کررہی ہے ،وزیراعظم کی آف شور کے شور میں لندن روانگی اور 48 دنوں بعد "دل " کے کامیاب آپریشن کے بعد وطن واپسی کے دوران ملک میں شاید کچھ اچھا ہوا نہ برا،لیکن اتنا ضرور ہوا کہ اپوزیشن کو حکومت کےخلاف پارلیمنٹ کے اندر اورباہرکھل کر کھیلنے کا بھرپور موقع ملا وہیں موقع غنیمت جان کر حکومتی ارکان نےناراضی دکھانے اور توجہ حاصل کرنےکا "ڈرامہ "بھی خوب رچایا،اس دوران ،حکومتی وزراء و مشیر خوب آرام وسکوں اور بیوروکریسی لمبی تان کے سونے کا خوب مزا بھی لیتی رہی،تاہم نبض شناس سیاسی پنڈتوں کےمطابق سیاسی کشتی کے سواروں کو اب زیادہ محتاط اور سمجھداری سے چلنا اور آگےبڑھناہوگا کیونکہ الیکٹرانک وسوشل میڈیا کا شکار عوام کے "سنہری اور عوامی جمہوری دور"پر عدم اعتماد اورسیاستدانوں کو"کرپٹ "قراردینے کاتاثرخطرناک حد تک بڑھا یا "بڑھایا" جاچکاہے؟ پرنٹ میڈیا کے دورمیں خبریں 24گھنٹے بعد پہنچتی تھیں اب ہرلمحے ہزاروں نہیں تو سینکڑوں اطلاعات ون کلک پر ملتی ہیں اورہراہم خبرکا پوسٹ مارٹم بھی فوری طور پربخوبی ہوتاہے،کچھ بھی چھپنا اورچھپانا ممکن نہیں رہا،صورت حال کی "نازکی " کا اندازہ اس سےبھی ہوتاہے کہ ہمارے"ناعاقبت اندیش"عوام سوشل میڈیا اور محلے چوراہوں میں ایک مریض وزیراعظم کی "اوپن ہارٹ "سرجری پر بھی سوال اٹھانے سے باز نہیں آرہے،کبھی منتخب اور "مقبول"عوامی لیڈر کی بیرون ملک سرجری کی "ڈاکومینٹڈ" تفصیلات سامنے لانے کا مطالبہ کرتے ہیں اور کبھی وزیراعظم کی خواہش کے مطابق انکی وطن واپسی پر کم ازکم ملین افراد سے "شانداراستقبال "ایک قریبی عزیز کی جانب سے نہ کرائے جانے کی "اندرونی "وجوہات بھی تلاش کرنےمیں مصروف ہیں ،انہی میں سے بعض کی سمجھ اور سوچ کا اندازہ لگائیے کہ ایدھی صاحب کی "اسٹیٹ فیونرل " کا انتظام فوج کے کرنےاور وہاں ہونے والے "تسلی بخش " انتظامات پر بھی سوال اٹھانے سے نہیں چوکتے۔
خیر چھوڑئیے بات ہورہی تھی سڑکوں پر آنے کی،ایک تو سخت گرمی اور برسات کا موسم اور پھرشدید سیلاب وطوفانوں کا خطرہ ،،پھر یہ کون لوگ ہیں جو سیاسی طوفان کھڑا کرنے کی بات کررہے ہیں؟ سیاسی تجزیہ کاروں کی نظر میں مسلم لیگ ن کو اقتدار سے باہر اٹھاکر پھینکنے کی تدبیروں میں بظاہر ایک دوسرے کےقریب آنے والی تحریک انصاف اور پیپلزپارٹی کا مستقبل میں اتحاد کانعرہ"غیرفطری" معلوم ہوتاہے،پیپلزپارٹی جو شاید ابھی میثاق جمہوریت کی اسیر ہے ،بہت مشکل ہےکہ وہ مسلم لیگ ن کی حکومت کو مدت سے پہلے اقتدار سےباہر کرنے میں سنجیدہ ہو،کیونکہ COD کے تحت مسلم لیگ ن نے بھی پیپلزپارٹی حکومت کی "گڈ گورننس " پرعدالتوں سے رجوع سمیت بہت کچھ،، لیکن زرداری کے اقتدار کو برقرار رکھنے میں ہرممکن سپورٹ کیاتوکیا محسن سےدغا؟ممکن نہیں لگتاپی پی نوازحکومت کا دھڑن تختہ کرنے کا حصہ بنے یا"جمہوریت "ڈی ریل کرے،اسی حکمت عملی کے تحت پی پی قیادت نے پی ٹی آئی کے ساتھ ایک کنٹینر پرکھڑے ہونے کی بات تو کی لیکن خود اورتحریک انصاف کوپہلے الیکشن کمیشن اور نیب کا قانونی دروازہ کھٹکھٹانے کااندھیری گلی کاراستہ دکھایا جہاں سے کسی "امید" کی کرن کا امکان تک نہیں ۔ اب تحریک انصاف کو دیکھیں تو وہ سڑکوں اور ڈی چوک پر پاکستان کے طویل ترین دھرنے اور پھر وزیراعظم ہائوس پر قبضے تک کی کوششوں کا ریکارڈ پہلے ہی قائم کرچکی ہے تو اب بے چارے سادہ عوام کو لبھانے یا سادہ لفظوں میں"بے وقوف" بنانے کےلئےکیا نیاچمتکار ہے؟ خود کو پاک صاف اور پاناما لیکس پراحتساب کا نعرہ صرف وزیراعظم اور ان کےخاندان کے لئے؟کیاملک میں ہر روز اربوں کی ہونے والی کرپشن کا بھی توکوئی ذمہ دار ہےان کاکیاہوگا۔؟ "اپوزیشن "کہلانے والوں کا بظاہر احتساب وزیراعظم سے شروع کرنے کانعرہ نیا توہےمگر سب حکمرانوں کا احتساب کون کریگا؟ کیونکہ حقیقت عیاں ہےکہ "آپ " سب حکمران اور صرف "عوام"اپوزیشن میں ہیں ،مسلم لیگ ن وفاق اور پنجاب، تحریک انصاف خیبرپختون خوا، پیپلزپارٹی سندھ اور قوم پرست اور"خودپرست" بلوچستان میں محو اقتدار ہیں،،،توکیا احتساب وہ کریں گے جو ہرقسم کے"الزام " کی زد میں بھی آتے ہیں اور پارلیمنٹ اور ہرصوبے میں اقتدارکا حصہ بھی ہیں ؟ کیا عدلیہ اتنی طاقتور اور بااختیار ہے کہ ماضی قریب کی طرح اقتدار میں بیٹھے خاندانوں کا آف شور میں نام آنے کی ازخود تحقیقات کا آغاز کرسکے؟ کیا طاقتور اسٹیبلشمنٹ، جس کا سپہ سالار اپنے ادارے کی ساکھ کی بحالی کے بعد تمام تر دبائو کو پس پشت ڈال کر "اندرونی صفائی " میں مصروف ہے،دہشت گردوں کے ہاتھوں زمینی طور پر پاک سرزمین کایرغمال قیمتی علاقہ واپس دلانے کی کوششوں میں دن رات ایک کئے ہوئے ہے، کیا وہ سیاستدانوں کی کرپشن کی تحقیقات کرے گی؟ ایک ہی جواب نہیں ،،موجودہ ہوش ربا صورتحال کی اصلاح کےتمام آپشن بظاہرناکام نظر آتے ہیں۔۔توپھر ہوکیا سکتاہے؟
کہتے ہیں کہ میڈیا نےعوام کو بہت باشعور اور سمجھ دار کردیاہے،اب محض تقریریں،وعدے،دعوے اور احتساب کے نعرے متروک ہوچکے ہیں ،پہلےمیڈیا نے آزادی حاصل کی پھرعوام نےمضبوط قوت ارادی اورعملی مظاہرے سےڈکٹیٹرمشرف کواقتدار سے الگ کیا،ووٹ دےکر"جمہوریت "واپس لائے،"بدترین طرز حکمرانی" پر اقتدار کےنشے میں دھت جماعتوں کو ووٹ کی طاقت سے دھول چٹا کر"دوسرے" فریق کو موقع دیا،لیکن نتیجہ ابھی تک صفر۔۔!میرےخیال میں کھیل ابھی ختم نہیں ہوا،آخری اوورز میں بازی پلٹ بھی سکتی ہے،جوڈیشل ایکٹوازم، ملٹری ایکٹوازم کے بعد عوام منتظر ہیں "جمہوری ایکٹوازم "کے،جی ہاں "دل " نیا کروانے کے بعد وزیراعظم کہتے ہیں کہ وہ نئے جذبے سے وطن واپس آئے ہیں تو ویلکم بیک اور بسم اللہ "کام "شروع کریں،"جمہوری ایکٹوازم" کی اینٹ گھر سے رکھیں،ایک ہاتھ اپنے دل اور دوسرا عوام کی نبض پر رکھ کرسیاسی میدان میں کھڑے اپنے کھلاڑیوں کو" ہوشیارباش" کریں،انہیں شہر شہر اور قریہ قریہ عوام کی خدمت کا ٹاسک سونپیں ،سوئی بیوروکریسی کی طنابیں کھینچیں، بند پڑے منصوبوں کوجلابخش کرجاری منصوبوں کو جلد مکمل کرنے کی فوری ڈیڈلائن دیں،چیف ایگزیکٹو کی حیثیت سے اندرونی و سرحدی سلامتی معاملات اور خارجہ پالیسی کو "باہمی مشاورت سے" نئے وژن کے ساتھ چلانے کا تہیہ کریں،جناب وزیراعظم صاحب ،اپوزیشن کومیز پرلائیں کیونکہ انکے مشورے میں وزن ہےکہ پانامالیکس کامعاملہ عوامی امنگوں اورقانون کےتحت منطقی انجام تک پہنچانے سمیت سب کچھ "ابھی تک "آپ کے ہاتھ میں ہے،،یقینا اب آپ کو اور آپ ہی کو کچھ کرنا ہوگا،کچھ ہٹ کراور جلدی کرناہوگا ورنہ آپ جن خدشات اورخطرات کا ہم صحافیوں سے"آف دی ریکارڈ" گفتگو میں اظہار کرتے رہتے ہیں وہ خدانخواستہ سچ ہوسکتےہیں اور صرف آپ ہی نہیں اپوزیشن کو بھی "جوشیلے ہوش "سےکام لینے کی ضرورت ہے،آئندہ تین ماہ بہت اہم ہیں،حکومت کی بےاحتیاطی اورغیرمعمولی تاخیر اوراپوزیشن کی بے صبری میں غیردانشمندانہ "حرکت "کی صورت میں کوئی دوسری پارٹی تو درکنار ،ہوسکتاہے کوئی نیانظام ہی دستک دے دے اور آپ سب کےہاتھ کچھ بھی نہ آئے۔۔!
تازہ ترین