• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
حالیہ دورہ جنوبی پنجاب کے دوران مجھے واضح طور پر یہ محسوس ہورہا تھا کہ اس صوبے کے حکمران اب لاہور سے نکل کر اس خطے کے بارے میں بھی سوچ رہے ہیں۔ 5سال پرانے جنوبی پنجاب کااس سے موازنہ کیا جائے تو بلاشبہ کہا جاسکتا ہے کہ جنوبی پنجاب بدل رہا ہے اور حکومت یہاں ترقیاتی منصوبوں کا جال بچھا چکی ہے۔ جنوبی پنجاب کے سب سے بڑے ڈویژن ڈیرہ غازی خان میں قیام کے دوران ڈی سی او آصف قریشی نے بتایا کہ یہ وہی ضلع ہے جہاں چند سال پہلے تک مناسب سڑکوں کا نظام بھی نہیں تھا،یہی ضلع تاریخ کے بدترین سیلاب سے ایک نہیں بلکہ لگا تار دو مرتبہ نبردآزما ہوچکا ہے مگر میاں شہباز شریف کی جنوبی پنجاب کے مسائل میں گہری دلچسپی کی وجہ سے آج یہ ایک بہتر ضلع کے طور پر جانا جاتاہے۔
پاکستان میں اب تک جتنی بھی حکومتیں آئیں کسی کی بھی اولین ترجیح تعلیم نہیں رہی مگر پنجاب حکومت کے دوستوں کی خواہش پر جب ڈیرہ غازی خان میں قائم دانش اسکول کی بلند و بالا عمارت کے عقبی دروازے پر پہنچتا ہوں تو واقعتاً احساس ہوتا ہے کہ اس شہر کے غریب طبقے کے لئے یہ اسکول کسی تحفے سے کم نہیں ہے، کچھ عرصہ پہلے کا دانش اسکول اب مکمل بدل چکا تھا اور ایک بہترین درس گاہ کا منظر پیش کررہا تھا۔گو اس میں بہتری کی بہت گنجائش ہے مگر پھر بھی چھٹی اور ساتویں جماعت کے تقریباً چار سو بچوں میں یہ علم و دانش کے موتی تیزی سے بکھیر رہا ہے۔اس اسکول میں طلبا و طالبات کی بڑی تعداد یتیم و نادار ہے مگر ان کیلئے تعلیم و تربیت کے شاندار معیار مہیا کرنے پر بلاشبہ پنجاب حکومت داد کی مستحق ہے۔ڈیرہ غازی خان کے انتظامی افسران نے جب اس درس گاہ میں داخلے کیلئے میرٹ کے طریقہ کار پر تفصیلی بریفنگ دی تو مجھے خیال آیا کہ واقعی وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف کا میرٹ اور صرف میرٹ کا خواب دانش اسکول سسٹم پورا کررہا ہے۔
جنوبی پنجاب میں صرف دانش اسکول ہی نہیں بلکہ چند دیگر بڑے منصوبے بھی خادم اعلیٰ پنجاب کی اس خطے سے دلی محبت کی عکاسی کررہے ہیں۔ جنوبی پنجاب کے عوام کی دیرینہ خواہش تھی کہ اس ڈویژن کو میڈیکل کالج اور یونیورسٹی دی جائے۔گزشتہ حکومتوں کے دور میں ایسے منصوبے صرف اعلان سے آگے نہ بڑھ سکے مگر وزیراعلیٰ پنجاب کی دونوں منصوبوں میں ذاتی دلچسپی کی بنا پر آج غازی میڈیکل کالج کسی بھی طرح کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج کا مقابلہ کرنے کے لئے تیار نظر آرہا ہے۔ گوانتظامیہ کو ابھی بہت سے مسائل کو سامنا ہے مگر پرنسپل ڈاکٹر شمیم اس امید پر ہیں کہ صوبائی چیف سیکریٹری اپنی یقین دہانیوں پر جلد عملدرآمد کرائیں گے۔
غازی یونیورسٹی کا باقاعدہ آغاز تو نہیں ہو سکا مگر سردار فاروق لغاری مرحوم کے حلقہ انتخاب سے منتخب ہونے والے پروفیسرڈاکٹرحافظ عبدالکریم کی یونیورسٹی شہریوں کے خواب کی تعبیر معلوم ہوتی ہے۔گزشتہ کئی دہائیوں سے لغاری خاندان کے پاس رہنے والی قومی اسمبلی کی نشست NA-172سے فتح یاب ہونے والے مسلم لیگ ن کے پروفیسر ڈاکٹر حافظ عبدالکریم نے انکشاف کیا کہ وزیراعلیٰ پنجاب اس خطے کے بارے میں اس حد تک سنجیدہ ہیں کہ انہوں نے فیصلہ کیا ہے کہ جو دو طرفہ سڑک لاہور سے ملتان تک آکر ختم ہوجاتی ہے اب اسے ڈیرہ غازی خان تک بنایا جائے گا تاکہ جنوبی پنجاب کا شہری احساس محرومی سے باہر نکلے۔پروفیسر حافظ عبدالکریم اپنے روایتی دھیمے انداز میں کہنے لگے کہ وزیراعلیٰ پنجاب کو جنوبی پنجاب کا بے حد احساس ہے اور انہوں نے فیصلہ کیا ہے کہ ماضی میں اس علاقے کے ساتھ جتنی بھی زیادتیاں ہوئیں وہ ان کا ازالہ کریں گے۔
ویسے حافظ عبدالکریم کی اس بات سے میں نے اتفاق نہیں کیا اور خاموش ہو گیا مگر جب میں جنوبی پنجاب کے دور افتادہ علاقے سخی سرور جاتا ہوں اور عام شہریوں سے سوال کرتا ہوں کہ ووٹ کسی جماعت کو دیا تھا تو مجھے جواب ملتا ہے ہم نے کسی جماعت یا علاقائی دباؤ پر ووٹ نہیں دیا ،بس ایک شخص کے نام پر ووٹ ڈالا ہے اور وہی ہمارے دکھؤں کا مداوا کررہا ہے اور وہ شہباز شریف ہے۔ظاہر ہے کوئی تو بات ہے جو عوام نے ان کے نام پر پورے پنجاب سے مسلم لیگ ن کو 300 سے زائد صوبائی اور تقریباً100 سے زائد قومی اسمبلی کی نشستیں دی ہیں۔
ایسے میں حافظ عبدالکریم کی رائے پر یقین کرنے کو دل کرتا ہے کہ میاں شہباز شریف جنوبی پنجاب کے مقبول ترین لیڈر بن چکے ہیں۔
گزشتہ چند ماہ میں اتنی تیزی سے خطے میں تبدیلی رونما ہونا گڈ گورننس کے دعوؤں کو درست ماننے پر مجبور کررہا ہے۔چند ماہ سے جرائم کی وارداتوں میں حیران کن حد تک کمی بھی خوش آئند ہے۔معروف صحافی ملک سراج سے جب میں اتنی ساری تبدیلیوں کی وجہ معلوم کرتا ہوں تو جواب ملتا ہے کہ صوبائی انتظامی افسران کی میرٹ پر تقرریوں کی وجہ سے ایسا ممکن ہورہا ہے۔ڈیرہ غازی خان سے روایتی تھانہ کلچر اور جرائم کنٹرول کرنے پر بلاشبہ ڈاکٹر عابد رضوی شاباش کے مستحق ہیں۔ حکومتی ترجیحات کی تبدیلی پورے جنوبی پنجاب میں نظر آرہی ہے۔ بیشتر اضلاع کے ڈسٹرکٹ پولیس افسران اور ڈی سی اوز کا کہنا ہے کہ وزیر اعلیٰ کی واضح ہدایت ہے کہ میرٹ پر کوئی سمجھوتہ نہ کیا جائے اور اسی کا ثمر جنوبی پنجاب میں دکھائی دے رہا ہے۔ صوبے میں تعینات افسران کی اکثریت کہتی ہے کہ وزیر اعلیٰ کی انتھک محنت تو ہے ہی مگر وزیراعلیٰ کی ٹیم کے اہم ممبر ڈاکٹر توقیر شاہ کی دانائی بھی اس میں کارفرما ہے۔ ویسے تو حافظ عبدالکریم بھی مجھ سے اختلاف کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ڈاکٹر توقیر شاہ زیرک اور دانا افسر ہیں اور ان کے بارے میں سیاستدانوں کی رائے بالکل غلط ہے، ڈاکٹر شاہ صاحب سیاستدانوں، ارکان اسمبلی اور ایماندار افسران کی عزت بھرپور انداز میں کرنا جانتے ہیں مگر کرپٹ افسران کے وہ شدید خلاف ہیں۔
اگر حافظ صاحب کی تمام باتیں ٹھیک ہیں تو بلاشبہ ڈاکٹر توقیر شاہ اس عزت افزائی و اعتماد کے مستحق ہیں ،جو وزیر اعلیٰ ان پر کرتے ہیں۔شہباز شریف کی اس خطے میں اس حد تک دلچسپی سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ اب جنوبی پنجاب کو دوسرا گھر سمجھنے لگے ہیں مگر بہتری کی گنجائش کبھی ختم نہیں ہوتی ۔اب بھی جنوبی پنجاب کے اسکولوں کی بڑی تعداد ایسی ہے جہاں پر چھت اور بنیادی سہولتیں ہی موجود نہیں ہیں ،کچھ دیہی مرکز صحت ویران ہوچکے ہیں بلکہ دو تو ایسے اسکول بھی دیکھنے کا اتفاق ہوا ،جن میں کلاسیں ہی سڑک پر بٹھا کر ہورہی تھیں۔ ممکن ہے وزیر اعلیٰ اس سے لاعلم ہوں ،مگر انہیں بنیادی تعلیم کے علمبردار کی حیثیت سے پرائمری اسکولوں کی حالت زار کا بھی ازسر نو جائزہ لینا چاہئے کیونکہ شہباز شریف کے جنوبی پنجاب کو ابھی مزید ترقی کرنی ہے۔
تازہ ترین