• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ملک کی معاشی حکمت عملی کے حسن و قبح کے حوالے سے اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے جائزے بالعموم معتبر، غیرجانبدارانہ ، حکومتوں کے سیاسی مفادات سے بالاتراور پیشہ ورانہ اہمیت کے حامل سمجھے جاتے ہیں۔اسٹیٹ بینک نے اپنا یہ اعتبار اکثر ادوار میں مشکلات کا سامنا ہونے کے باوجود قائم رکھا ہے۔اس پس منظر میںیہ امر نہایت خوش آئند ہے کہ موجودہ حکومت کے پہلے مالی سال میں سامنے آنے والے اسٹیٹ بینک کے جائزے معاشی صورت حال میں مسلسل بہتری کی نشان دہی کررہے ہیں۔ہفتے کے روز اسٹیٹ بینک نے آئندہ دو ماہ کے لیے مانیٹری پالیسی کا اعلامیہ جاری کیا ہے جس میں ملک کی موجودہ معاشی صورت حال پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے۔اعلامیہ میں آئندہ دو ماہ کے لیے شرح سود کو دس فی صد کی سطح پر قائم رکھنے کے اعلان کے ساتھ ساتھ معاشی بحالی کے حکومتی اقدامات پر اعتماد کا اظہار بھی کیا گیا ہے۔ اعلامیہ کے مطابق پچھلے چند ماہ کے دوران تمام معاشی اشاریوں میں مطلوبہ سمت میں تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں۔مہنگائی کم ہوئی ہے اور بڑے پیمانے پر اشیاء سازی کی نمو مضبوط ہورہی ہے۔ جائزے میں مزید کہا گیا ہے کہ مالی سال کی پہلی ششماہی میںمالیاتی خسارہ قابو میں رہا جبکہ نجی شعبے کی قرض گیری میں اضافہ ہوا۔مالیاتی حکام طویل مدت کے لئے قرض لینے میں کامیاب رہے جس سے منڈی میں مثبت تاثر قوی ہوا۔امریکی ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قیمت بڑھی۔زرمبادلہ کے ذخائر جو تشویشناک حد تک کم ہوگئے تھے ان میں اضافہ ہوا۔ جائزے کے مطابق ان اسباب و عوامل کے نتیجے میں بحیثیت مجموعی معیشت کی بحالی پر اعتماد بڑھا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ اس رائے کی بنیاد آئی بی اے اور اسٹیٹ بینک کی جانب سے مرتب کیے گئے رائے عامہ کے جائزوں کو قرار دیا گیا ہے۔رپورٹ میں معیشت میں مثبت رجحانات کے تسلسل کو قائم رکھنے کے لئے ساختی اصلاحات پر زور دیا گیا ہے۔معاشی حکمت کاروں کے لئے یہ نکتہ خاص طور پر قابل توجہ ہے کہ ’’یکبارگی رقوم کی آمد اوربیرونی قرضوں کا حصول کچھ عرصے تک استحکام فراہم کرسکتا ہے لیکن دیرپا استحکام کے لئے نجی رقوم کے حصے میں مسلسل اضافے کی ضرورت ہے۔‘‘ جائزے میں برآمدات کے تناسب کو بڑھا کر اور توانائی کی ملکی ضروریات کو پورا کرنے میں درآمد شدہ تیل کا حصہ کم کرکے تجارتی خسارہ گھٹانے کی ضرورت کا اظہار بھی کیا گیا ہے۔ توقع کی جانی چاہئے کہ حکومت کی جانب سے ان تجاویز کا جائزہ لے کر معاشی حکمت عملی کو مزید نتیجہ خیز بنانے کے لئے پیش رفت کی جائے گی۔ یہ جائزہ مالی سال کے ابتدائی چھ ماہ پر مشتمل ہے جبکہ اس کے بعد مالی سال کے ڈھائی مہینے اور گزر چکے ہیں اور اس مدت میں معاشی صورت حال میں بڑی مثبت تبدیلیاںی رونما ہوئی ہیں۔ تاہم ایک منتخب جمہوری نظام میں معاشی ترقی کا اصل مقصد عام آدمی کے لئے زندگی کو آسان بنانا اور اس کی مشکلات کو کم کرنا ہونا چاہئے۔عوام کے منتخب نمائندوں پر مشتمل حکومت کا یہ بنیادی فرض ہے ۔ لوگوں نے انتخابات میں ان پر اسی بناء پر اعتماد کا اظہار کیا ہے۔ اس حوالے سے سب سے پہلی ضرورت یہ ہے کہ بنیادی ضروریات زندگی خصوصاً اشیائے خورد ونوش ، ادویات، پٹرول، بجلی اور گیس کی قیمتوں میں روپے کی قدر میں اضافے کی مناسبت سے کمی کی جائے۔ اس کے ساتھ ساتھ عوام کے لئے صحت اور تعلیم کی سہولتیں بہتر اور ارزاں بنانے پر توجہ اور اس کے لئے نتیجہ خیز اقدامات بھی ضروری ہیں۔ اسلامی مملکت ہونے کی بناء پر سود کا مکمل خاتمہ ہماری منزل ہے۔ اسٹیٹ بینک کو اس سمت میں پیش رفت تیز کرنی چاہئے۔ تاہم جب تک یہ ہدف حاصل نہیں ہوتا اس وقت تک شرح سود کو کم سے کم سطح پر رکھے جانے کی کوشش تو لازماً کی جانی چاہئے۔ شرح سود میں کمی کا براہ راست نتیجہ کاروباری عمل کی تیزی کی شکل میں برآمد ہوتا ہے اور قرضے لے کر بڑے پیمانے پر صنعتی اور کاروباری سرگرمیاں شروع کی جاتی ہیں۔ ترقی یافتہ ملکوں میں شرح سود اسی بناء پر بالعموم بہت کم رکھی جاتی ہے ۔بحیثیت مجموعی معاشی بہتری کا یہ عمل نہایت خوش آئند ہے اور اس کی بناء پر قومی افق سے مایوسی کے اندھیرے چھٹ رہے ہیں۔
وزیر اعلیٰ کی درد مندی
وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے جمعہ کے روز مظفر گڑھ میں خود سوزی کرنے والی مظلوم طالبہ کے گھر پہنچ کر ذاتی طور پر اس کی والدہ سے نہ صرف اظہار تعزیت کیا بلکہ داد رسی کے لئے اسے پانچ لاکھ روپے کا چیک دینے کے علاوہ جاں بحق ہونے والی طالبہ کے بھائی کو ملازمت دینے کا اعلان بھی کیا جبکہ وزیر اعلیٰ کے حکم پر جانبداری کا مظاہرہ کرنے والے تین پولیس افسران کو گرفتار اور ڈی پی او ڈی جی خاں کو ملازمت سے فارغ بھی کر دیا گیا نیز ڈی ایس پی اور دو ایس ایچ اوز اور تفتیشی آفیسر کے خلاف فرائض سے غفلت کا مقدمہ درج کرنے کی ہدایت بھی کی وزیر اعلیٰ کا یہ اقدام لائق تحسین ہے کیونکہ اگر مظلوم افراد کو اسی طریقے سے فوری انصاف فراہم کرنے کا اہتمام کیا جائے تو اس سےبے بس اور بے سہارا لوگوں پر ظلم کرنے کے عادی طاقتور گروہ کمزوروں پر ہاتھ اٹھانے سے پہلے اس کے انجام کے بارے میں سوچنے پر ضرور مجبور ہوں گے۔ مظفر گڑھ کی مظلوم طالبہ کو اگرچہ اپنی جان دینے کے بعد انصاف ملا ہے لیکن وزیر اعلیٰ پنجاب نے جس طرح موقع پر پہنچ کے متاثرہ خاندان کی دلجوئی کی اور ظالموں کا ساتھ دینے والے پولیس افسران کے خلاف جس تیز رفتاری سے ایکشن لیا ہے اس سے اس سے پسماندہ علاقوں اور دور افتادہ دیہات میں مقامی وڈیروں و جاگیرداروں کے مظالم میں ان کا ساتھ دینے والے اہلکاروں کو عبرت حاصل ہو گی ضرورت اس امر کی ہے جلد از جلد فراہمی انصاف کے لئے وضع کردہ اداراتی سطح پر اتنا مضبوط بنایا جائے کہ مظلوموں کو خود کار طریقے سے انصاف ملے اور انہیں اس کے لئے اپنی جان تک ہارنے کی نوبت نہ آئے۔ بدقسمتی یہ ہے کہ ہماری نوکر شاہی نے فرنگی عہد کی خوبیاں تو ضائع کر دی ہیں لیکن اس دور کی جابرانہ روایات کو پہلے سے بھی زیادہ بدتر طریقے سے اپنے سینے سے لگائے ہوئے ہے حالانکہ جب تک ان سے چھٹکارا حاصل نہ کیا جائے اس وقت تک عوام کو آزادی کے حقیقی ثمرات کبھی نہیں مل سکتے۔

شام پر غیر جانبداری!
وزیراعظم کے قومی سلامتی و امور خارجہ کے مشیر سرتاج عزیز نے کہا ہے کہ شام کے بارے میں غیر جانبدارانہ پالیسی پر قائم ہے سعودی عرب سے پاکستان کے خصوصی قرضوں کی خبریں افواہ ہیں۔ جبکہ وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار کا کہنا ہے کہ دوست ممالک نے ڈیڑھ ارب ڈالر تحفے میں دیئے ہیں تاہم انہوں نے کسی ملک کا نام نہیں لیا۔ جبکہ امور خارجہ کے مشیر نے پاکستان کی پالیسی کی وضاحت کر دی ہے۔ چند روز قبل دفتر خارجہ کی خاتون ترجمان نے بھی ان خبروں کی تردید کی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ پاکستان نے شام کے حوالے سے کسی اور ملک کی پالیسی کی تائید کی ہے۔ شام ایک برادر مسلم ملک ہے جہاں ان دنوں داخلی طور پر حکومت اور باغی اپوزیشن کے درمیان باقاعدہ جنگ کی سی صورتحال سے دوچار ہے اور مغربی ممالک بشار الاسد کے خلاف باغیوں کی حمایت کر رہے ہیں۔ مشرق وسطیٰ کے کئی ممالک بھی ان کا ساتھ دے رہے ہیں پاکستان کے سعودی عرب سے قریبی برادرانہ تعلقات ہیں۔ سعودی عرب نے ہمیشہ پاکستان کی نہ صرف سفارتی حمایت کی ہے بلکہ کڑے وقت میں مالی امداد بھی کی ہے اور تیل بھی دیا ہے۔ چند روز قبل یہ خبر آئی کہ ایک دوست ملک نے پاکستان کو ڈیڑھ ارب ڈالر دیئے ہیں جس سے ملکی کرنسی کو استحکام ملا اور مارکیٹ میں ڈالر کی قیمت نمایاں طور پر کم ہوئی ہے۔ اس تناظر میں بعض حلقوں کی جانب سے یہ افواہ بھی اڑائی گئی کہ اس کا تعلق شام کے بارے میں پاکستان کی پالیسی میں کسی تبدیلی سے ہے۔ امور خارجہ کے مشیر نے لندن میں اس حوالے سے دوٹوک الفاظ میں وضاحت کر دی ہے جو ہر صورت درست ہے کہ پاکستان اسلامی ممالک کے درمیان مفاہمت کی پالیسی پر گامزن ہے اور کسی برادر ملک کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہیں کرنا چاہتا اور غیر جانبدارانہ پالیسی پر قائم ہے۔
تازہ ترین