• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
قائداعظم محمد علی جناح تقسیم ہند سے پہلے اور بعد میں یعنی پاکستان بننے سے پہلے اور پاکستان بننے کے بعد آزاد قبائل کے علماء سے رابطے میں تھے۔ آزاد قبائل میں سیاست دان نہیں ہوتے۔ جب بھی ہمسایوں سے گفت و شنید کی ضرورت محسوس ہوتی تب آزاد قبائل کی جانب سے علماء مذاکروں میں شامل ہوتے ہیں۔ جب آپ کسی ملک سے الحاق کرتے ہیں، اس ملک کا حصہ بنتے ہیں تب آپ چند بنیادی باتوں پر رضامند ہوتے ہیں۔ آپ اس ملک کے آئین کو تسلیم کرتے ہیں، عدالتی نظام قبول کرتے ہیں، لین دین کے لئے اسی ملک کی کرنسی استعمال کرتے ہیں۔ قائداعظم محمد علی جناح کے ساتھ مذاکرات میں آزاد قبائل کے نمائندوں نے دوٹوک واضح کر دیا تھا کہ وہ پاکستان کا آئین قبول نہیں کریں گے حالانکہ جب تک قائداعظم محمد علی جناح حیات تھے تب تک پاکستان کے لئے باضابطہ طور پر پاکستان کے آئین کا ذکر خیر سامنے نہیں آیا تھا۔ ہاں قائداعظم محمد علی جناح خاص طور پر پاکستان بننے کے بعد پریس، وکلاء، بیوروکریسی، پولیس اور آرمڈ فورس کے ساتھ ملاقاتوں کے دوران واضح طور پر پاکستان کے آئین کیلئے بنیادی اصول بیان کرتے رہتے تھے۔ مثلاً پاکستان برصغیر کے مسلمانوں کیلئے علیحدہ ملک کے طور پر وجود میں لایا گیا ہے جہاں وہ اپنے عقیدے کے مطابق آزادی سے زندگی گزار سکیں گے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ دوسرے مذاہب کے پیروکاروں کیلئے پاکستان میں کوئی جگہ نہیں ہو گی اور انہیں اپنی زندگی اپنے عقیدے کے مطابق گزارنے کی اجازت نہیں ہو گی۔ پاکستان میں تمام مذاہب کے عقیدت مندوں کو اپنے مذہبی اصولوں کے مطابق زندگی گزارنے کی مکمل آزادی ہو گی۔ مطلب یہ کہ پاکستان میں تمام مذاہب کے رہنے والوں کو مساوی یعنی ایک جیسے حقوق حاصل ہوں گے۔ یہاں مذہبی بھید بھائو کیلئے قطعی گنجائش نہیں ہو گی۔ سب کے ساتھ ایک جیسا انصاف ہو گا۔
آزاد قبائل کے نمائندوں نے قائداعظم محمد علی جناح پر واضح کر دیا کہ وہ اپنے علاقے میں پاکستان کا نظام قانون قبول نہیں کریں گے۔ وہ اپنے علاقے میں قانونی فیصلے بقول ان کے اپنی روایتوں کے مطابق کریں گے جو کہ اصل میں اسلامی قوانین ہیں۔ قائداعظم نے آزاد قبائل کے نمائندگان کی نہ صرف شرائط مان لیں بلکہ ان کو ہمیشہ کیلئے حکومت کے واجبات یعنی ٹیکس وغیرہ سے مستثنیٰ کر دیا۔ وہ کسی قسم کا ٹیکس نہیں دیں گے۔ اس طرح کی حیرت انگیز مراعات کے پس پردہ کیا اسباب تھے، کسی دستاویز میں موجود نہیں ہیں۔ آج کے دور میں ان غیر معمولی مراعات کا جائزہ لیا جائے تو یہ نتیجہ اخذ کرنا مشکل نہیں کہ 66؍برس پہلے والی حکومت پاکستان اپنے ہمسایہ ملک افغانستان اور پاکستان کے درمیان Human Boundry Wall یعنی افغانستان اور پاکستان کے درمیان انسانی دیوار کھڑی کرنا چاہتی تھی۔ دنیا پر واضح کرنے کیلئے کہ آزاد قبائل پاکستان کا اٹوٹ انگ ہے۔ حکومت پاکستان نے ان کو ہر قیمت پر اپنے ساتھ ملانے کا فیصلہ کر لیا تھا۔ حکومت پاکستان نے اس حقیقت کو نظرانداز کر دیا تھا کہ آزاد قبائل رسم و رواج اور اپنے کلچر کے حوالے سے افغانستان کے قریب تھے۔ حکومت پاکستان نے اپنی قانون ساز اسمبلی میں آزاد قبائل کو نمائندگی دی حالانکہ انہوں نے بارہا پاکستانی عدالتی نظام اور آئین کو ماننے سے انکار کر دیا تھا، اس کے باوجود آزاد قبائل میں بغیر کسی الیکشن کے ان کے نمائندوں کو پاکستان کی منتخب اسمبلی میں لا کر بٹھایا۔ دیکھتے ہی دیکھتے آزاد قبائل کا علاقہ اسمگلنگ کا گڑھ بنا۔ کسی زمانے میں باڑا نام کا قصبہ دنیا بھر کے بہترین کپڑے، کراکری، بجلی کے سامان اور کھانے پینے کی اشیاء کا مرکز بن گیا تھا۔ لوگ دور دراز کے علاقوں سے سفر کر کے باڑا بازار سے غیر ملکی خاص طور پر امریکا، برطانیہ اور جاپان کی اشیاء خریدنے آتے تھے۔ میں نے بھی دوستوں کے ہمراہ باڑا بازار سے دو چار مرتبہ خریداری کی تھی۔ وہاں سے خریدے ہوئے مہنگے بریف کیس اور سوٹ کیس اب بھی میرے استعمال میں ہیں۔ باڑا بازار سے دس، پندرہ گز کے فاصلے پر صوبۂ سرحد کی حدود شروع ہوتی تھی۔ وہاں حکومت پاکستان نے کسٹم پوسٹ قائم کر رکھی تھی۔ اشیاء خریدتے وقت دکاندار آپ کو آگاہ کر دیتے تھے کہ چیک پوسٹ سے گزرتے وقت آپ کا سامان کسٹم حکام ضبط کر سکتے ہیں۔ اگر آپ خریدی ہوئی اشیاء کی کل قیمت کا دس فی صد مزدوری دینے پر رضامند ہو جائیں تو دکانداروں کے کھیپیے کسٹم پوسٹ سے چند گز کے فاصلے پر حفاظت سے آپ کا سامان آپ تک پہنچا سکتے ہیں۔ کھیپیے آدھی رقم کسٹم حکام کو دے دیتے تھے۔
تھوڑے عرصے بعد لنڈی کوتل اور باڑا بازار کا ولایتی سامان پورے ملک میں بکنے لگا اسمگلڈ اشیاء کی لین دین نے کاروبار کی صورت اختیار کر لی۔ کاروبار کے سلسلے میں آزاد قبائل کے اسمگلروں کا پورے پاکستان میں آنا جانا شروع ہو گیا۔ خاص طور پر اسمگلڈ اشیاء کے کاروبار کیلئے ان کو کراچی کا شہر بہت اچھا لگا۔ کچھ عرصے بعد اسمگلڈ اشیاء کے ساتھ چرس، حشیش اور بعد میں ہیروئن ملک میں پھیلنے لگی۔ جب روس نے افغانستان پر حملہ کر دیا اور دس سالہ جنگ شروع ہوئی تو آزاد قبائل نے بھرپور طریقے سے امریکیوں کے شانہ بشانہ افغانستان کی جانب سے روس کے خلاف جنگ میں حصہ لیا تب اسمگلڈ اشیاء حشیش اور ہیروئن کے ساتھ ساتھ طرح طرح کا ہتھیار کراچی پہنچنے لگا۔ دس سالہ روس، افغان جنگ کے دوران کراچی میں ہتھیاروں کے انبار لگ گئے۔ اس جنگ میں افریقا، چیچنیا، ازبکستان، قزاقستان اور دیگر سینٹرل ایشیائی ممالک کے جرائم پیشہ، بھگوڑے اور خانہ بدوش شامل ہو کر قبائلی لشکروں میں گھل مل گئے۔روس کو شکست ہوئی۔ جنگ ختم ہوئی۔ امریکی اور نیٹو افواج افغانستان میں پنجے گاڑ کر بیٹھ گئیں۔ قبائلی لشکروں کیلئے افغانستان میں کوئی جگہ نہیں تھی۔ وہ آزاد قبائل میں اپنی جگہ مستحکم کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ ان کے پاس روسی افواج سے لوٹا ہوا اسلحہ اور امریکا کی طرف سے ملے ہوئے بے شمار ہتھیار اور ڈالر تھے۔ اپنے آپ کو مصروف رکھنے کیلئے انہوں نے بندوق کی نالی سے نکلے ہوئے اپنی نوعیت کا اسلام پھیلانے کا بیڑا اٹھا لیا۔ اب وہ خود کو مجاہدین کہلوائیں، طالبان کہلوائیں وہ دہشت گردوں کی توضیح پر پورا اترتے ہیں۔ اس تمہید کے پس منظر میں ہم خاک نشین حکومت پاکستان کے اقدام کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ حکومت پاکستان دہشت گردوں سے افہام و تفہیم اور صلح صفائی کرنے جا رہی ہے۔ طالبان نے اپنے بنیادی مطالبات دوٹوک حکومت کو بتا دیئے ہیں۔ دونوں مطالبات 66؍برس پرانے ہیں جو قبائلی نمائندوں نے قائداعظم محمد علی جناح کو پیش کیے تھے۔ وہ پاکستان کے قوانین اور آئین کو قبول نہیں کرتے۔ ایسے میں ان سے کیا باتیں کرنے جا رہی ہے ہماری حکومت؟
سوچئے! کہیں ایسا تو نہیں کہ بین الاقوامی قوتوں کے زیر اثر پاکستان اور افغانستان کے درمیان بفر اسٹیٹ Buffer State بنانے کے منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کی تیاریاں ہو رہی ہیں۔ کچھ بعید نہیں کہ آپ پاکستان اور افغانستان کے درمیان آزاد قبائل کے بجائے سلطنت یا خلافت طالبان کا نام سنیں۔
تازہ ترین