• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ابھی صرف ہفتہ بھر پہلے انٹرنیشنل ویمن ڈے منایا گیا۔ پورے ملک میں خواتین کے حقوق، ان کی آزادی اور پتہ نہیں کس کس حقوق کی بات ہوئی۔ دوسری طرف تھر کی عورتیں آج بھی پانی کے دو گھڑے حاصل کرنے کے لئے پورا دن دھوپ میں جلتی اور چلتی رہتی ہیں اور مستقبل کے حاکم بلاول بھٹو زرداری تھرمیں فوٹو سیشن کراتے رہے۔ جس ملک کے وزیر اعظم اور صدر کو ان کے افسران، ان کے دوروں کے دوران تھر کی اصل صورتحال سے بے خبر رکھیں تو اس پر کیا تبصرہ کیا جائے؟
ایک طرف خواتین سے زیادتی ہورہی ہے اور زیادتی کا شکار طالبہ نے مجرموں کو نہ پکڑنے پر خودسوزی کرلی اور حکومت نے لاش کی قیمت پانچ لاکھ لگا دی۔ اور خاندان کے ایک فرد کو ملازمت دےدی۔ وزیر اعلیٰ کا زیادتی کا شکارطالبہ کے گھر جانا، اپنی جگہ لائق تحسین ہے مگر جناب میاں صاحب آخر کب تک اس ملک میں مجرم اور ظالم لوگ کٹہرے میں نہیں لائے جائیں گے؟
معروف گائنا کالوجسٹ پروفیسر ڈاکٹر راشد لطیف خاں کے بقول ’’ ماضی میں امیر گھرانوں کی بچیاں ڈاکٹری میں اور مڈل کلاس کی بچیاں ٹیچنگ اور نرسنگ میں آیاکرتی تھیں۔‘‘ خیر اب تو امیر یا مڈل کلاس یا غریب ہر ایک کی بیٹیاں ہر فیلڈ میں آرہی ہیں۔ اگر ہم نرسنگ کی فیلڈ کی بات کریں تو یہ شعبہ تو دور اسلام سے ہے جب جنگوںمیں لوگ زخمی ہوتے تو خواتین انہیں پانی پلاتیں، زخموں پر مرہم لگاتیں، علاج کرتیں، اگر غور کیا جائےتو نرسنگ کا تصور تو اسلام کے دور سے ہے۔ یہ علیحدہ بات ہے کہ ویمن ڈے کے چند روز بعد ہی مرد اور زنانہ دونوںپولیس والوں نے انہی نرسوں کی پٹائی کردی ۔ مرد پولیس والوں نے جس طرح تشدد کیا وہ انتہائی افسوسناک اور باعث شرم ہے۔ اس طرح بھی ویمن ڈے منایا جاتا ہے۔ نرسنگ کے مقدس پیشے کا آغاز 1860ء میں فلورنس نائٹ انگیل نے کیا اور آج دنیا کے تمام ممالک میں نرسنگ کے شعبے کو اہم حیثیت حاصل ہے۔ مگر پونے دو سال ہونے کو آ رہے ہیں نرسنگ کے شعبے سے وابستہ خواتین کے مسائل جوں کے توں ہیں۔ البتہ دنیا کے بعض ممالک میں نرسنگ کے پیشے کوبہت عزت اور قدرکی نگاہ سے دیکھاجاتا ہے۔
فلپائن میں سب سے زیادہ نرسیںتیار ہوتی ہیں۔ وہاں پر نرسنگ کی تعلیم و تربیت مہنگی ہے اور نرسنگ میں کام کرنے والی خواتین کو بہت اچھا معاوضہ دیا جاتا ہے۔ امریکہ میں نرسوں کی بہت مانگ ہے مگر ہمارے ملک میں نرسوں کےلئے پولیس کے ڈنڈے ہیں۔ مختلف میڈیکل رپورٹوں کے مطابق ہر ایک لاکھ آبادی کے لئے چین میں 99، بھارت میں 45، امریکہ میں 972 اور پاکستان میں صرف 34 نرسیں ہیں۔ میڈیکل میں نرسیں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہیں۔ کسی بھی سرکاری اور پرائیویٹ ہسپتال میں پروفیسر اور ڈاکٹروں کے رائونڈ کے بعد مریض کا سارا تعلق نرس کے ساتھ ہوتا ہے۔ نرس اس کی ادویات، مختلف کلینکل ٹیسٹ، بخار، انجکشن غرض ہر چیز کو مانیٹر کرتی ہے اور بعض اوقات اسے مریض کی جسمانی صفائی بھی کرنا پڑتی ہے۔ لیکن ایک عجیب بات ہے دنیا بھر میں نرسنگ کو ایک معزز اور باعزت پیشے کے طور پر جانا جاتا ہے مگر ہمارے ملک میں آج تک یہ مقدس اور معزز پیشہ لوگوں کی نظروں میں اچھا نہیں سمجھا جاتا اور جن الفاظ میں ہمارے بعض لوگ، ڈاکٹرز اور مریضوں کے لواحقین ذکر کرتے ہیں وہ الفاظ میں بیان اور تحریر میں نہیں لا سکتا۔ ہمارے معاشرے میں نرسوں کے اچھے رشتے نہیں ملتے۔
بیماریوں اور زخموں کی تاریخ میں انسانی تاریخ جتنی ہی پرانی ہے سنیاسی اور عطائی ہی وہ لوگ تھے جنہوں نے آغاز میں یہ کام کیا، پھر حکما، وید، نائی اور جراح وغیرہ نے علاج شروع کردیا ، ایلوپیتھک طریقہ علاج تو بہت بعد میں آیا ہے۔ ایک قدیم دستاویز چاراکر کے مطابق پہلا نرسنگ سکول 250ء قبل مسیح میں ہندوستان میں قائم ہوا۔ اس ادارے میں مرد (نرسوں کو) ایسی تربیت دی جاتی تھی جس میں کھانا پکانا، مریضوں کو نہلانا، کہنیوں کو ملنا، مساج کرنا، بستر کی صفائی ، مریضوں کو چلنے پھرنے میں سہولت دینا۔ دو ہزار سال تک سینکڑوں مرد اور عورتوں نے اس پہلے نرسنگ سکول سے تربیت لی۔ قارئین کو بتا دیں نرسیں صرف خواتین نہیں ہوتیں مردبھی نرس ہوتے ہیں۔ اگر ہم اسلامی تاریخ کا جائزہ لیں تو رفیدہ وہ پہلی مسلمان نرس تھیںجو جنگ میں زخمی ہونے والے افراد کی تیمار داری کرتیں اور آنحضورؐ نے ان کی انہی خدمات اور صلاحیتوں کی بناء پر انہیں مسجد نبویؐ میں ایک جگہ دے رکھی تھی جہاں پر وہ اپنا یہ پہلا کلینک چلایا کرتی تھیں۔
1853ء میں روس نے عثمانی خلافت کے خلاف جنگ شروع کردی اور کچھ عرصہ بعد فرانس اور ولایت بھی عثمانیوں کی طرف سے اس جنگ میں شریک ہوگئے۔ 1854ء میں ولایت اور فرانس نے کریمیہ (موجودہ نام یوکرائن) پر حملہ کردیا۔ فرانس اور انگلستان کا خیال تھا کہ کریمیہ کی طرف سے بہت کم مزاحمت ہوگی۔ مگر مزاحمت بھرپور ہوئی جس کے نتیجے میں برطانیہ اور فرانس کے ہسپتال اور بیرکیں تک زخمیوں سے بھر گئیں چنانچہ اس موقعہ پر برطانیہ کی انتہائی امیر خاتون فلورنس نائٹ انگیل نے یہ ذمہ داری قبول کی اگر چہ اس کے والدین اس کے نرس بننے کے خلاف تھے مگر اس خاتون نے جدید نرسنگ کی بنیاد رکھی۔میرا اس واقعہ کو یہاں پر بیان کرنے کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ ہمارے ہاں کوئی بھی پیشہ اس وقت معزز یا باوقار سمجھا جائے گا جب سیاست دانوں اور امیر گھرانوں کی بچیاں خود اس پروفیشن میں آئیں گی جیسے فیصل آباد (لائل پور) کے ایک ایم پی اے اعجاز شیخ نےاپنے بچے سرکاری سکول میں داخل کراکے ایک اچھی روایت کو جنم دیا ہے۔ آج کون سا سیاست دان، کون سا ایسا امیر شخص ہے جس کی بیٹی نے نرسنگ کے شعبے کو اپنایا ہو۔ ہمیں کئی سال پہلے ایک کھاتے پیتے گھرانے کی لڑکی ملی جس نے بتایا کہ وہ نرس بن رہی ہے۔ خاندان کی شدید مخالفت کے بعد اگر نرسنگ کے شعبے میں اچھے تعلیم یافتہ اور امیر گھرانوں کی لڑکیاں آئیں گی تو یقیناً اس شعبہ کا تقدس بلند ہوگا۔ رہا یہ سوال بعض ڈاکٹرز اور مختلف سرکاری محکموں کے لوگ واقعی نرسوں کو ان کےجائز کاموں کے لئے بہت ذلیل کرتے ہیں اس بات میں بہت حقیقت ہے، نرسوں کا شعبہ کیا ہمارے ہاں تو آڈٹ آفیسرز کی اکثریت صرف خواتین کے تعلیمی اداروں میں جا کر ناصرف ناجائز کام کراتی ہے بلکہ یہ آڈٹ آفیسرز جو صرف گریڈ 17 کے ہوتے ہیں، بیس بیس گریڈ کی پرنسپلوں ، سکولوں کی ہیڈ مسٹریسوں کو اپنے ناجائز کاموں کے لئے پریشان کرتے ہیں اور جان بوجھ کر آڈٹ میں غیر ضروری اعتراضات اور نکتے نکالتے رہتے ہیں۔ وزیر اعظم پاکستان سے اس سلسلے میں درخواست ہے کہ وہ آڈیٹر جنرل پاکستان کو اس بارے میںخصوصی ہدایت کریں کہ جو آڈٹ آفیسرز خصوصاً خواتین کے تعلیمی اداروں میںجاتے ہیں ان کے ساتھ اپنا رویہ اچھا رکھیں اور حکومت جائزہ لے کر ان آڈٹ آفیسرز نے اب تک ان تعلیمی اداروں میں کون کون سے ناجائز اور غلط کام کرائے۔
آخر میں پھر اگر حکومت نرسوں کے مسائل حل نہیں کرے گی تو میڈیکل پروفیشن مزید مسائل کا شکار ہو جائے گا ڈاکٹروں اور میل سٹاف کی اخلاقی اقدار کی تربیت کرنی چاہیے جن مرد پولیس والوں نے نرسوں کو مارا ان کو پولیس سے برخاست کردینا چاہیے وہ بیوروکریسی جو مسائل کو حل نہیں کرسکی بلکہ مسائل کو مزید گھمبیر کر دیا، ان کے خلاف بھی ایکشن ہونا چاہیے، زخمیوں اور مریضوں کے جسموں پر مرہم لگانے والیاں ابھی خود زخمی ہیں اور ان کے زخموں پر مرہم لگانے والا کوئی نہیں۔
تازہ ترین