• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
روپے کی قدر میں اضافے اور ڈالر کی شرح مبادلہ میں کمی کے حوالے سے سعودی عرب کی امداد پر میڈیا میں بحث مباحثے اور بعض سیاسی رہنمائوں کے بیانات سے ذہنوں میں جو الجھائو پیدا ہو رہا تھا اسے دور کرنے کیلئے وزیر اعظم کے مشیر خارجہ سرتاج عزیز نے دو ٹوک الفاظ میں واضح کیا ہے کہ سعودی عرب سے ملنے والی امداد غیر مشروط ہے۔ اس نے قرضہ نہیں بلکہ پاکستان ڈویلپمنٹ فنڈمیں ڈیڑھ ارب ڈالر کا تحفہ دیا ہے۔ اس کے بدلے میں پاکستان اپنی خارجہ پالیسی میں کوئی تبدیلی لا رہا ہے نہ شام کے سلسلے میں اپنا موقف بدلتے ہوئے وہاں اسلحہ یا جنگ جو بھیج رہا ہے۔ سینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خارجہ امور کے ارکان کو بریفنگ دیتے ہوئے سرتاج عزیز نے کہا کہ سعودی عرب کا وفد معیشت دفاع اور تجارت کے شعبوں میں باہمی تعاون پر تبادلہ خیال کیلئے آیا تھا ۔ اس نے ڈیڑھ ارب ڈالر کی جو رقم دی ہے۔یہ ایک غیر مشروط تحفہ ہے۔ اس کے بدلے میں پاکستان نے کچھ نہیں دینا۔بعض لوگوں کے پیدا کردہ تاثر کے برخلاف پاکستان شام یا کسی ایسے ملک میں جہاں خانہ جنگی ہو رہی ہے اسلحہ نہیں بھیجے گا۔ انہوںنے یہ بھی بتایا کہ پاکستان، سعودی عرب اور ایران کے ساتھ تعلقات میں توازن برقرار رکھے گا۔ حکومت سے اختلاف رائے رکھنے والے سیاستدانوں کو چاہئے کہ وہ خارجہ امور پر بیانات دیتے وقت اس بات کو پیش نظر رکھیں کہ مفروضوں کی بنیاد پر قیاس آرائیوں اور بے بنیاد خدشات کے اظہار سے بعض اوقات دوست ملکوں کسے ساتھ معاملات میں غیر یقینی صورتحال پیدا ہو جاتی ہے جو کسی بھی طور ملک کے لئے سود مند نہیں۔ مشیر خارجہ نے زیر نظر موضوع پر بروقت حکومت کا موقف واضح کر کے اس سلسلے میں ذہنوں میں پیدا ہونے والی غلط فہمیوں اور خدشات کا راستہ روک دیا ہے۔ حقیقت یہ ہےکہ 1947میں وجود میں آنے کے بعد برادر اسلامی ممالک سے دوستی تعاون اور خیر سگالی ہی ہمیشہ پاکستان کی خارجہ پالیسی کا محور و مرکز رہی ہے۔ اس نے اپنے مشکل ترین حالات اور بعض بڑی قوتوں کے شدید ترین دبائو کے باوجود اسلامی ملکوں کی باہمی آویزشوں سے دور رہنے کو ترجیح دی اور ہمیشہ عالم اسلام میں اتحاد و یکجہتی کیلئے سرگرمی سے کام کیا۔ پاکستان نے سعودی عرب اور ایران سے یکساں تعلقات قائم رکھے اور ایران عراق جنگ میں الجھنے سے بھی اپنا دامن بچا کے رکھا حالانکہ بعض ممالک اسے اس تنازعے میںشریک کر کے اس کا امیج خراب کرنا چاہتے تھے۔ پاکستان مختلف اسلامی مکاتب فکر کے مسلمانوں کا ملک ہے۔ اس لئے بھی مناسب یہی ہے کہ وہ دوسرے ممالک کے درمیان کسی بھی نوعیت کے جھگڑوں میں نہ پڑے ۔ پاکستان شروع ہی سے اتحاد عالم اسلامی کا علم بردار ہے اور اس کے اسی کردار کی وجہ سے امت مسلمہ میں اس کا وقار قائم ہے۔سعودی عرب سے اس کی لازوال دوستی کو دنیا بھر میں قابل رشک سمجھا جاتا ہے۔ دوستی اور تعاون کا یہ رشتہ معیشت تجارت اور دفاع سمیت تمام شعبوں پر محیط ہے۔ اسی لئے نئی سعودی امداد ملنے سے بعض لوگوں کے ذہنوں میں اس شبہ نے جنم لیا کہ شاید پاکستان شام میں حکومت مخالف باغیوں کی مدد پر تیار ہو گیا ہے۔ مشیر خارجہ نے اس تاثر کی نفی کر کے حقیقی صورتحال واضح کر دی ہے۔پاکستان اس وقت خود بہت سے سنگین مسائل کا شکار ہے جن میں سب سے بڑا مسئلہ دہشتگردی کا خاتمہ ہے۔ اس کے ساتھ ہی زوال پذیر معیشت کی بحالی، سرمایہ کاروں کیلئے ماحول سازگار بنانا اور توانائی کے بحران پر قابو پانا اس کی اولین ترجیح ہے تاکہ مہنگائی اور بیروزگاری کی روک تھام کی جا سکے۔ معروضی حالات میں اس کا مفاد اسی میں ہے کہ اسلامی ممالک سے مواخات کے رشتے مضبوط بنا کر ان کی مدد سے اپنے گوناگوں مسائل حل کرے۔ سعودی عرب سے ایک خطیر رقم کا غیر مشروط عطیہ حاصل کرنا موجودہ حکومت کی بہت بڑی کامیابی ہے۔ جسے تنقید کا نشانہ بنانے کی بجالے سراہا جانا چاہئے۔اس اقدام کی وجہ سے ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں اضافہ ہوا جس کے نتیجے میں غیر ملکی قرضوں کے بوجھ میں بھی کچھ کمی ہوئی حکومت کو چاہئے کہ تیل، بجلی اور گیس کے نرخوں میں کمی کر کے روپے کی قدر میں اضافے کے ثمرات عام آدمی تک پہنچائے۔
چولستان کو قحط سے کیسے بچائیں
جیو کے ایک پروگرام میں بتایا گیا ہے کہ تھر کا قحط صحرائے چولستان میں داخل ہوگیاہے لیکن پنجاب حکومت ابھی تک اس سے بے خبری کے عالم میں ہے۔
چولستان اور تھر میں اگرچہ زمین آسمان کا فرق ہے لیکن اس حقیقت سے ہر باخبر آدمی واقف ہے کہ جب خشک سالی کا دور طویل تر ہو جاتا ہے تو اس کے اثرات تمام ریگستانی علاقے پر مرتب ہوتے ہیں اور تھر ہو یا چولستان کا کوئی دوسرا علاقہ قحط، بھوک اورنقل مکانی روہی کے باسیوں کا مقدر بن جاتا ہے۔ وفاقی و صوبائی ہر دو حکومتوں اور مقتدر سیاسی پارٹیوں کی یہ اولین ذمہ داری ہے کہ وہ صرف انتخابات کے قرب کے دنوں میں ہی اپنے ووٹروں سے رابطہ نہ کریں بلکہ ان کی زندگیوں کو منفی انداز میں متاثر کرنے والے موسموں پر بھی نظر رکھیں اور عوام کی تلخی حالات کو کم کرنے کیلئے ہر طرح سے ان کی امداد کے لئے کمربستہ ہوں۔
تھر کے دور افتادہ علاقوں کے مکینوں کی شکایات سے یہ بات کھل کر سامنے آئی ہے کہ ان کے مصائب و مشکلات کو کم کرنے کی جانب کوئی توجہ ہی نہیں کرتا اور اب بھی میڈیا اگر ارباب اختیار کو مجبور نہ کردیتا تو وہ اس طرف توجہ نہ دیتے ،حکومت سندھ کے پاس گندم کے وافر ذخائر موجود تھے لیکن انہیں محض اس لئے سربمہر رکھا گیا کہ انتخابات کے نزدیک آنے پر اس کی تقسیم سے سیاسی فائدہ اٹھایا جائے۔ یہاں میٹھے پانی کی فراہمی کے لئے کروڑوں روپے کے خرچے سے پائپ لائنیں بچھائی گئیں اور مشینیں بھی نصب کی گئیں مگر وہ ٹوٹ پھوٹ کر ناکارہ ہوگئیں لیکن ان کی مرمت تک کا کسی کو خیال نہ آیا اب بھی واقفان حال کا کہنا ہے کہ امداد صرف مٹھی اور تھر کے بڑے شہروں و قصبات تک ہی محدود ہے جبکہ بکھری ہوئی گوٹھوں کے علاقے اتنے شورشرابے کے باوجود نظر اندازی کی زد میں ہیں۔ ان حالات میں چولستان سے لوگوں کی نقل مکانی کی خبریں بے حد تشویشناک ہیں کیونکہ اگر قحط، بھوک اور بیماری کے عفریتوں نے چولستان پر یلغار کردی تو اسے کون بچائے گا حکمرانوں کو ابھی سے اس طرف توجہ دینی چاہئے۔

فری پیس زون کا مطالبہ
قیام امن کے لیے تحریک طالبان پاکستان اور حکومت کے درمیان مذاکراتی عمل میں پیش رفت خوش آئند ہے ۔ پوری قوم اس کی کامیابی کی خواہش مند ہے کیونکہ باہمی محاذ آرائی کی صورت میں دونوں جانب کا نقصان دراصل ملک اور قوم کا نقصان ہے۔خطے میں عالمی طاقتوں کے مفادات کی جنگ نے پاکستان کو موجودہ صورت حال میں الجھایا ہے۔ تاہم اطمینان بخش بات یہ ہے کہ اب پاکستان کی سیاسی و عسکری قیادت اور تحریک طالبان دونوں طاقت کے استعمال کے بجائے بات چیت کے ذریعے امن کی منزل تک پہنچنے کی اہمیت کو سمجھ چکے ہیں اور اس کے لیے دونوں جانب سے مخلصانہ پیش قدمی نظر آرہی ہے۔ مذاکراتی عمل میں طالبان کی نمائندگی کرنے والی کمیٹی کے قائد مولانا سمیع الحق کے توسط سے گزشتہ روز تحریک طالبان کا یہ مطالبہ منظر عام پر آیا ہے کہ مذاکراتی عمل کو آگے بڑھانے کے لیے فری پیس زون بنایا جائے تاکہ مذاکراتی عمل میں حصہ لینے والے طالبان کے نمائندے کسی خطرے کے بغیر حکومت سے بات چیت کے لیے آمد و رفت جاری رکھ سکیں جبکہ موجودہ صورت حال میں جگہ جگہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی پکڑ دھکڑ کی کارروائیاں ہیں۔ تحریک طالبان کا یہ مطالبہ بظاہر معقول نظر آتا ہے اور طالبان کی نمائندہ کمیٹی کے رکن پروفیسر ابراہیم کی یہ تجویز بھی مناسب معلوم ہوتی ہے کہ اس مقصد کے لیے فوج اگر صرف دو تحصیلیں مکین اور لدھا خالی کردے توبات آگے بڑھ سکتی ہے۔ تاہم حکومت کو ہر فیصلہ بہت سوچ سمجھ کر اور اس کے نتائج و عواقب کو پیش نظر رکھتے ہوئے کرنا چاہیے۔ پورے علاقے سے فوج واپس بلانے کا مطالبہ بہرصورت تسلیم نہیں کیا جاسکتا البتہ مستقل جنگ بندی ہوجائے تو قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے بھی پکڑ دھکڑ بند نہیں ہونی چاہیے۔ نیز احتیاط سے بات چیت آگے بڑھانے کے ساتھ ساتھ اسے غیرضروری طور پر سست رفتار بھی نہیں ہونا چاہیے کیونکہ اس صورت میں مایوسی پھیلانے اور مذاکراتی عمل کو سبوتاژ کرنے کی خواہش مند طاقتوں کے لیے حالات سازگار ہوں گے۔
تازہ ترین