• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کئی دنوں کی خاموشی کے بعد وزیراعظم کے مشیر برائے خارجہ سرتاج عزیز نے سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے امور خارجہ کے بند کمرے اجلاس میں بالآخر یہ تسلیم کر لیا کہ ’’پاکستان کو حال ہی میں موصول ہونے والی ڈیڑھ ارب ڈالر کی رقم سعودی عرب نے دی ہے جو قرض نہیں بلکہ تحفہ ہے، اس کے بدلے میں پاکستان نہ شام کے حوالے سے اپنی پالیسی بدلے گا اور نہ ہی سعودی عرب کو شام کے لئے ہتھیار دیئے جائیں گے‘‘۔ اس سے قبل وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے اپوزیشن کے دبائو پر اس بات کا اقرار تو کیا تھا کہ ’’پاکستان ڈیولپمنٹ فنڈز‘‘ میں ملنے والی ڈیڑھ ارب ڈالر کی خطیر رقم دوست ملک نے پاکستان کو امداد کے طور پر دی ہے جسے عوامی منصوبوں میں استعمال کیا جائے گا تاہم انہوں نے رقم بھجوانے والے ملک کا نام بتانے سے گریز کرتے ہوئے یہ موقف اختیار کیا تھا کہ وہ دوست ملک کا نام بتاکر مدد کرنے والے ملک کو شرمندہ نہیں کرنا چاہتے۔ واضح ہو کہ تقریباً ڈیڑھ ہفتے سے اپوزیشن اس بات پر بضد تھی کہ حکومت یہ واضح کرے کہ ڈیڑھ ارب ڈالر کی خطیر رقم کس دوست ملک نے کن شرائط کے ساتھ پاکستان کو دی ہے اور وہ دوست ملک اس کے عوض پاکستان سے کیا مانگ رہا ہے مگر حکومت کی خاموشی نے معاملے کو ’’پراسرار معمہ‘‘ بنادیاتھا جبکہ غیر ملکی میڈیا بھی اس رقم کے حوالے سے مختلف قیاس آرائیاں کررہا تھا۔ غیر ملکی میڈیا کا شروع دن سے ہی یہ دعویٰ تھا کہ ’’پاکستان ڈویلپمنٹ فنڈز‘‘ میں موصول ہونے والی ڈیڑھ ارب ڈالر کی رقم دراصل سعودی عرب نے پاکستان کو وزیراعظم نواز شریف کی ذاتی ضمانت پر فراہم کی ہے تاکہ پاکستان اپنے زرمبادلہ کے ذخائر کو بہتر کر سکے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان کو موصول ہونے والی حالیہ رقم کے نتیجے میں نہ صرف ملکی زرمبادلہ کے ذخائر میں بہتری آئی بلکہ پاکستانی روپے کی قدر میں تیزی سے اضافہ ہوا اور ایک ڈالر جو پاکستانی روپے کے مقابلے میں 108کی سطح تک پہنچ گیا تھا، گرکر 100کی سطح پر آگیا۔ روپے کی قدر میں بہتری کو حکومت نے اپنی معاشی پالیسیوں سے تعبیر کیا جبکہ اپوزیشن کا موقف تھا کہ روپے کی قدر میں اضافہ اُن ڈیڑھ ارب ڈالر کی وجہ سے ہوا جو حال ہی میں حکومت کو موصول ہوئے ہیں لیکن حکومت رقم موصول ہونے کے معاملے پر اصل حقائق بتانے سے گریز کررہی ہے۔ ایسی اطلاعات ہیں کہ سعودی ولی عہد کے حالیہ دورہ پاکستان کے موقع پر وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے خلیجی دوست ممالک سے موصول ہونے والی رقم کے لئے ’’پاکستان ڈویلپمنٹ فنڈز‘‘ کی تشکیل کا اعلان کیا تھا جس کے لئے دوست ممالک نے پاکستان کو 3 ارب ڈالر دینے کا وعدہ کیا تھا جس میں سے ڈیڑھ ارب ڈالر کی رقم گرانٹ کی صورت میں مذکورہ اکائونٹ میں منتقل کی گئی ہے۔ مذکورہ رقم وزیراعظم نواز شریف کی صوابدید پر اُن کے ترقیاتی منصوبوں جس میں 1100 کلومیٹر طویل لاہور، حیدرآباد، کراچی موٹر وے کا 800 ارب روپے مالیت کا منصوبہ بھی شامل ہے، پر خرچ کی جائے گی۔ وزیراعظم نواز شریف کے سعودی شاہی خاندان سے دیرینہ تعلقات کی بنا پر موجودہ حکومت، سعودی عرب سے زیادہ قریب تصور کی جاتی ہے۔ 1999ء میں جب جنرل پرویز مشرف نے دوتہائی اکثریت رکھنے والے منتخب وزیراعظم نواز شریف کا تختہ الٹا تھا تو سعودی شاہی خاندان نے اُنہیں اپنے ملک میں سیاسی پناہ فراہم کی تھی۔ اس کے علاوہ سعودی شہزادہ ولید بن طلال، نواز شریف کو پاکستان میں ’’اپنا آدمی‘‘ قرار دے چکے ہیں۔ یہ پہلا موقع نہیں کہ سعودی عرب نے پاکستان کی مدد کی ہے بلکہ سعودی عرب ہمیشہ سے ہی پاکستان کی دل کھول کر مدد کرتا رہا ہے۔ 1998ء میں جب پاکستان ایٹمی طاقت بنا اور پاکستان پر عالمی پابندیاں عائد کی گئیں تو سعودی عرب وہ واحد ملک تھا جس نے اس برے وقت میں پاکستان کی مدد کرتے ہوئے اسے ادھار پر کئی سالوں تک تیل کی فراہمی جاری رکھی۔ اسی طرح 2005ء میں جب پاکستان میں زلزلے کے نتیجے میں بدترین تباہی ہوئی تو پاکستان کی مدد کرنے والوں میں سعودی عرب سرفہرست ملک تھا مگر ماضی میں کبھی بھی سعودی امداد کو خفیہ نہیں رکھا گیا لیکن اس بار امداد کو خفیہ رکھنے کے پیچھے کیا عوامل کارفرما ہیں، اس کے لئے ہمیں سعودی ولی عہد کے حالیہ دورہ پاکستان پر نظر ڈالنا ہوگی جس پر میں نے ایک کالم ’’سعودی ولی عہد کا دورہ پاکستان، شام سے متعلق موقف میں تبدیلی‘‘ تحریر کیا تھا۔ میں نے مذکورہ کالم میں بتایا تھا کہ شام کے حوالے سے پاکستان کے موقف میں تبدیلی سعودی ایماء پر کی گئی ہے کیونکہ سعودی عرب کی یہ خواہش ہے کہ پاکستان مستقبل قریب میں شام کے حوالے سے اپنا اہم کردار ادا کرے۔ اس دوران کچھ ایسی افواہیں بھی منظر عام پر آئیں کہ سعودی عرب نے پاکستان سے 2 ڈویژن فوج کی فراہمی کا بھی مطالبہ کیا ہے تاہم دفتر خارجہ شروع دن سے ہی ان تمام خبروں کی تردید کرتا رہا۔
حالیہ سعودی امداد کے معاملے پر پاکستان اور سعودی عرب کی کئی دنوں تک خاموشی نے اِن افواہوں اور شکوک و شبہات کو جنم دیا کہ کہیں ایسا تو نہیں کہ شام کی خانہ جنگی میں پاکستان اِن ممالک کی ’’پراکسی وار‘‘ (Proxy War) کا حصہ بننے جارہا ہے۔ زیادہ بہتر ہوتا کہ حکومت اس معاملے پر شروع دن سے ہی قوم کو اعتماد میں لیتی اوریہ واضح کرتی کہ حالیہ امداد کا اِن افواہوں سے دور کا بھی تعلق نہیں۔ حکومت کو چاہئے کہ حالیہ سعودی امداد کے حوالے سے شفافیت کو بھی ملحوظ خاطر رکھے تاکہ اپوزیشن کو اس پر تنقید کا کوئی موقع ہاتھ نہ لگ سکے۔ سعودی امداد کے حوالے سے (ن) لیگ کا یہ تاثر دینا کہ ’’یہ رقم پاکستان کو نہیں بلکہ وزیراعظم نواز شریف کی شخصی ضمانت پر دی گئی ہے‘‘ مناسب نہیں کیونکہ ریاستوں کے تعلقات شخصیات پر نہیں بلکہ ملکوں کے مابین ہوتے ہیں۔
تازہ ترین