• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جو لکھنا تھا لکھ لیا، جو پڑھنا تھا پڑھ لیا، جو کہنا تھا کہہ دیا

انانیتی ادب کی چھتری تلے، یہ کالم صیغہ ٔ واحد کی صورت میں لکھنے کی اجازت عنایت فرمائیں۔ ایسا لگتا ہے اس ضابطے کا استعمال کئے بغیر اپنے احساسات سے شاید انصاف نہ کرسکوں۔ پاکستان پیپلزپارٹی کا ریسرچ اسکالر اور پاکستان کی سیاسی تاریخ کا فی الواقع مستند محقق ضیا کھوکھر میری زندگی کے ان پارٹنرز میں سے ہے جن کے ساتھ زندگی گزر جایا کرتی ہے۔ کبھی ایسے دوستوں کو باہم حمام کا محاورہ یاد دلانے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ معاملہ طے شدہ ہوتا ہے! ضیا کھوکھر نے اپنی ساری زندگی پیپلزپارٹی کے نام اور اپنی ذات کو بھٹو ز کے لئے دان کردیا۔ میں نظریاتی طور پر ترقی پسند لبرل مسلمان ہوں۔ آپ نے اس اصطلاح کا بے ساختہ مفہوم سمجھنے میں کوئی الجھن محسوس نہیں کی ہوگی اور وہ لوگ کم از کم اس کالم میں میرے مخاطب ہی نہیں جو اس طرح کی جرأت ِ اظہار پر کبھی یہ فرمائے بغیر نہ رہ سکے ’’بھلا یہ ترقی پسند لبرل مسلمان کا کیا مطلب ہے؟‘‘ وہ ازر راہ مہربانی اسی پر اڑے ہیں۔ میں آگے چلتا ہوں!
جی ہاں تو !ضیا کھوکھر کے ساتھ صحافت کے ان شب و روز میں موضوعات ڈسکس ہوتے رہتے ہیں ۔ بسا اوقات، ان دنوں تو متعدد بار، میرا اس سے کہنے کو دل چاہا ’’جنہیں تخلیق کے کسی بھی سمے، کسی بھی لمحے، اس کی لذت چھو کر بھی گزر گئی ہو وہ چاہے اپنے خیالات کے سفر میں ہمیشہ آپ کے ہم سفر رہے ہوں، آپ انہیں اپنے ڈبے کامسافر ہی قرار دے سکتے ہیں، اس میں کوئی بات غلط بھی نہیں ہوگی‘‘ بس مظہر الاسلام کے اسلوب میں تصرف کرتے ہوئے ایسے لوگوں کے سلسلے میں ایک خود فراموشی سے محفوظ رہنے کی ضرورت ہے جبکہ ان کے احساس تخلیق کے ڈاک پتے سے کسی دوپہر کوئی ایسی شے کسی بھی وقت پوسٹ کی جاسکتی ہے جسے کسی مادی ہئیت یا کیفیت نے جنم نہ دیا ہو۔ ایسی دوپہر میں ایسے قلمکار کا دل چاہتا ہے کسی نہ کسی سے پورا سچ بولے، اپنے دلربا نظریاتی اور ذاتی دوستوں سے کہہ دے ’’اس دوپہر کی تپش میں مجھے اکیلا کھڑا ہونے دو،افراد کے تذکرہ یا ان تک پیغام رسانی جیسی ’’ضرورتوں‘‘ سے چاہے چند ساعتوں ہی کے لئے سہی ’’آزادی ہی نہیں نجات چاہتا ہوں‘‘
انیس ناگی نے اپنی ایک نظم میں کچھ اس طرح کی بات کہی تھی ’’جو لکھنا تھا لکھ لیا، جو پڑھنا تھا پڑھ لیا، جو کہنا تھا کہہ لیا‘‘ کسی ایسی ہی آفاقی کیفیت میں روسی ناول نگار دوستوفسکی نے قلمکاری کے بجائے ’’قلم تراشی‘‘ کے بے رحم مشغلے میں مصروف لوگوں کے بارے میں کہا تھا ’’افوہ یہ داستانیں سنانے والے! کیا ان سے کوئی ایسی چیز نہیں لکھی جاتی جو کارآمد ہو، خوشگوار ہو، جسے پڑھ کر لطف آئے مگر توبہ! یہ ٹھوکروں سے گرد و غبار اٹھاتے رہتے ہیں۔ ان لوگوں پر تو لکھنے کی قطعی پابندی ہو جاتی۔ بھلا یہ کیا بات ہوئی کہ آپ پڑھتے جاتے ہیں اور آپ سے آپ دل میں سوچتے ہیں..... یہ کیا خرافات دماغ میں گھسی ہوئی ہے۔ فضول.....اچھا ہوتا کہ ان لوگو ں کو لکھنے ہی سے منع کردیا جاتا۔ پس یہی ہے کہ انہیں لکھنا منع کردیا جائے۔‘‘ پاکستان میں تو ٹھوکروں سے گردوغبار اٹھانے والے قلمکاروں نےحشر بپا کر رکھا ہے۔ ان پر کون پابندی لگائے۔ انہوں نے تو برصغیر کے مسلمان کو ویسے ہی ذہناً بے جہت کردیا ہے۔
کچھ ہی دیر پہلے میں ٹی وی دیکھ رہا تھا۔ سندھ کے ایک علاقے میں جرگے نے سپریم کورٹ کی رولنگ کے باوجود غیرت کے نام پر دو عورتوں کا قتل جائز قرار دے دیا۔ جرگے کو اس فیصلے پر سپریم کورٹ نے 24لاکھ روپے جرمانہ بھی عائد کیا تھا۔ جرگے نے جرمانہ ادا کرنے کا فیصلہ کرلیا مگراپنی ’’غیرت‘‘پر آنچ نہیں آنے دی۔ چند روز پہلے اسلامی نظریاتی کونسل کے مذہبی رہنمانے دوسری شادی کے معاملے میں اجازت لینے کوشریعت کے منافی قرار دے دیا۔ اب اس پر عالمانہ وفاضلانہ بحث جاری ہے۔ یہ بحث جاری رہے گی۔ برصغیر کے مذہبی رہنمائوں کی اکثریت، آٹے میں نمک برابر تعداد کو نکال کر، عورت کے موضوع پر اپنی ایسی شرعی تعبیر کے نظام حیات کی مبلغ شارح اور طاقتور وارث ہے کہ End of the Day عورت مرد کے مقابلے میں ایک تسلیم کردہ ان دیکھی، غیرتحریری اورغیراعلان شدہ مکمل غلامی اس کا مقدر بن چکی ہے۔ برصغیر میں ان مذہبی رہنمائوں کی ’’دینی تعبیروں‘‘ کے مطابق تحریر کردہ گزشتہ تقریباً سو برس کی کتب یا افکار کے مجموعی جائزے میں عورت کے مقام کی اس ایک حیثیت کے علاوہ کوئی دوسری شکل سامنے آ ہی نہیں سکتی۔ اپنے اس ’’دینی جہاد‘‘ کے ساتھ ساتھ ’’اسلام میں عورت کی عظمت‘‘ جیسے موضوعات پر ان کی اجار ہ داری ایک علیحدہ سماجی عمل ہے جس میں انفرادی واقعات کے بیانئے سے End of the Day عورت کی اس ’’غلامانہ تقدیر‘‘ کی موجود حقیقت کے متعلق عام آدمی کے ذہن کو عجیب قسم کے فکری اور عملی تشنج میں مبتلا کرتے رہتے ہیں۔ مگر واقعاتی منظر کیا ہے؟
یہ کہ پاکستان، افغانستان اور بھارت میں مسلمان عورت کو اس ’’غلامانہ تقدیر‘‘ کا مستقل شہری بنا دینے میں کامیابی کے باوجود مسلمان عورت کا سفر ان مذہبی رہنمائوں کے خودساختہ ذہنوں اور ان کے فکرکی سایوں میں پلنے والے د انشوروں کی ذہنی دینی تعبیر کے قریب سے بھی ہوکے نہیں گزرا۔
مسلمان عورت نے پاکستان ، افغانستان اور ہندوستان میں زندگی کے ہر شعبے میں کردار ادا کرنا شروع کیا۔ آج پاکستان کی ہر ماں، بیٹی اور بہن شاہراہ حیات کے ہر موڑ اور ہر شعبے میں پورے جوبن کے ساتھ اپنا کردار ادا کر رہی ہے۔ تینوں ملکوں کی ماحولیات کے مطابق عملی صورتحال میں درجہ بدرجہ فرق ضرور ہے۔ وقت کے ساتھ یہ فرق کم حتیٰ کہ ختم ہو جائے گا۔ ان ’’مذہبی رہنمائوں‘‘ کی ’’دینی تعبیروں‘‘ نے اس سفر میں جان لیوا حد تک رکاوٹیں پیدا کیں۔ اب بھی ان کا یہ ’’جہاد‘‘ جاری ہے لیکن جس طرح برصغیر میں مسلمان ماں، بیٹی اور بہن پردہ قائم رکھتے ہوئے ہر شعبے میں اتنا آگے بڑھی کہ یہ مذہبی طبقہ اس منزل سے نہ نظر آنے والی دوری پر کھڑا ہے۔ اس لئے کہ ان کی ’’دینی تعبیریں‘‘ سرے سے ’’اسلام‘‘ سے کوئی علاقہ ہی نہیں رکھتیں کیونکہ یہ ان کی ایک قسم کی ’’مقدس دماغی جارحیت‘‘ ہی کہلا سکتی ہے جس کا انہیں ان تینوں ملکوں کے مسلم معاشرے میں حالات و واقعات کے مطابق خوب موقع ملا ہوا ہے۔ پاکستان اور افغانستان میں انہیں اپنی اپنی اس ’’مقدس جارحیت‘‘ کے حوالے سے اندازاً کم از کم دو دہائیوں تک کوئی روک ٹوک نہیں۔ اسی طرح میرا ایمان ہے بیس برسوں کے اس دورانئے میں بالآخر ’’فطرت کے قوانین‘‘ انہیں تاریخ کے کوڑے دان میں پھینک دیں گے۔ عملیت کے ارتقا نے کسی موضوع پر ان کی کبھی تصدیق نہیں کی۔ یہ لو گ ایجادات سے لے کر معاشرت تک، معاشرت سے لے کر سیاست تک، سیاست سے لے کر بین الاقوامی سفروں تک، بین الاقوامی سفروں سے لے کر دولت و ثروت کے انباروں تک، زندگی کے ہر عنوان کو بھرپور طریقے سے اپناتے چلے گئے لیکن دودھ کو آلودہ کرنے کا عمل بھی جاری رکھا۔ شاید ان کے ہاں یہ ذاتی شناخت قائم رکھنے کا حد سے زیادہ بحران ہے۔ پاکستان اور افغانستان میں عورت کا پینڈا ابھی بہت باقی ہے۔ بہرطور ابلاغ کے عالمی گائوں میں ڈھل جانے سے یہ آدھا رہ گیا ہے۔ طالبان بھی ’’خدائی قوانین‘‘ کی سرکشی کا دوسرانام ہیں۔ انہیں بھی اللہ کے قوانین انسانی آبادیوں میں قیام پذیر نہیں ہونے دیں گے۔ موجودہ ہنگامہ خیزی کی مدت زیادہ سے زیادہ ایک دہائی پر مشتمل دکھائی دیتی ہے۔ سچے لکھاری پورا کیا آدھا سچ بھی نہیں لکھ سکتے۔ وہ پاکستا ن میں ظالموں، باغیوں، عوام کی توہین کے مرتکبین افراد اور گروہوں اور ریاستی جبر و ستم کی حقیقی تصویر کشی ناممکن پاتے ہیں۔ ایسے دانشوروں کا بھی انہیں پتہ ہے جو سرمائے کی فرعونیت اور ریاست گردی کے نتیجے میں پیدا شدہ عوامی نفرت و غضب کے شعلوں کو ہلکی پھلکی تنقید کے حربے سے ٹھنڈا کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ مگر حق پرست لکھاری ظالموں، فرعونوں، متکبر دولت مندوں، اقربا نواز حکمرانوں، بدمعاش ریاستی اہلکاروں، مذہبی اجارہ داروں اورسمجھوتہ باز دانشوروں کو جتنا ایکسپوز کرسکتے ہیں کرتے رہیں کہ سچ کے سورج کی ایک کرن بھی ان سارے اندھیروں کو ختم کرنے کی طاقت رکھتی ہے اور یہ سحر طلوع ہو کر رہے گی۔
تازہ ترین