• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
منگل کے روز وزیر اعظم نواز شریف کی زیر صدارت ایوان وزیر اعظم اسلام آباد میں منعقدہ قومی داخلی سلامتی سے متعلق اجلاس اس اعتبار سے غیر معمولی اہمیت کا حامل تھا کہ اس میں سویلین اور فوجی قیادت کے علاوہ بیوروکریسی اور پولیس کی بھی بھرپور نمائندگی تھی۔ فوج کی نمائندگی کے لئے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل راحیل شریف کے علاوہ ڈی جی آئی ایس آئی ،چیف آف جنرل اسٹاف اور ڈی جی ملٹری آپریشنز موجود تھے۔ جبکہ چاروں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ ،وفاقی وزیر داخلہ چیف سیکرٹریز، چاروں انسپکٹر جنرل پولیس اور اعلیٰ سرکاری حکام نے شرکت کی۔ دو مخالف جماعتوں کی حکومتوں کے حامل صوبوں سندھ اور خیبر پختونخوا سمیت فیصلوں پر عملدرآمد سے تعلق رکھنے والے تمام حلقوں کی موجودگی اس بات کا اظہار بھی تھی کہ طالبان سے مذاکرات سمیت قومی سلامتی سے تعلق رکھنے والے معاملات میں فوجی وسول حلقے ایک ہی صفحے پر ہیں۔ درحقیقت آل پارٹیز کانفرنس کے فیصلے کے وقت سے تمام ہی حلقے اس باب میں ہم خیال ہیں کہ قیام امن کے لئے بات چیت کو پہلا موقع ملنا چاہئے۔ اس حوالے سے وزیر اعظم نے کمیٹیوں کی وساطت سے طالبان سے بالواسطہ مذاکرات کا آغاز کر کے جرات مندانہ قدام اٹھایا جس میں اب تک نظر آنے والی پیش رفت بڑی حد تک امید افزا ہے۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ حکومت اور طالبان شوریٰ کے درمیان مذاکرات کے دوسرے اور اہم مرحلے کے لئے ملاقات کے مقام کے تعین سمیت بعض اہم امور فیصلہ طلب ہیں جبکہ تحریک طالبان کے ممکنہ مطالبات کے حوالے سے سرکاری حلقوں میں غوروخوض کی خبریں بھی میڈیا پر آ رہی ہیں۔ان متوقع مطالبات میں عام معافی، طالبان قیدیوں کی رہائی ،قبائلی علاقوں سے فوج کو ہٹا کر ایف سی اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کی تعیناتی جیسے امور شامل ہیں۔ سننے میں آ رہا ہے کہ وزیراعظم نواز شریف اس ضمن میں سامنے آنے والی تمام باتوں پر تبادلہ خیال کرنے اور ان پر اتفاق رائے پیدا کرنے کا ذہن رکھتے ہیں اور وزیر اعظم کو ان معاملات میںفوج کی حمایت حاصل ہو گئی تو امن عمل کی کامیابی کے زیادہ امکانات ہیں مگر یہ بات یقینی طور پر نہیں کی جا سکتی کہ اس حوالے سے فوجی اسٹیبلشمنٹ کس ردعمل کا اظہار کرے گی۔ کہا جا رہا ہے کہ طالبان جنگجوئوں کے لئے عام معافی اور ان کے قیدیوں کی رہائی کے مطالبات ویسے ہی ہیں جیسے مطالبات کئی دیگر ممالک میں تسلیم کر کے داخلی تنازعات کو کامیابی کے ساتھ نمٹایا جا چکا ہے۔ اس قسم کے فیصلے پائیدار امن کی خاطر کئے جاتے ہیں تاکہ جنگجو عناصر نارمل زندگی کی طرف آسکیں اور آئینی وقانون کی بالا دستی تسلیم کریں۔ اگرچہ قبائلی علاقوں سے فوجی انخلا کے ذریعے9/11سے پہلے کی صورتحال واپس لانا ایک اہم سوال ہے مگر عام تاثر یہ ہے کہ قبائلی علاقوں کی حفاظت کے لئے ایف سی کے پہلے سے زیادہ مسلح اور تربیت یافتہ ہونے کے باعث اب کوئی بڑا مسئلہ نہیں ہے بلکہ ملکی قوانین کے تحت پرامن سیاسی سرگرمیوں کی اجازت دے کر تمام حلقوں کو قومی دھارے میں لانا ممکن ہو سکے گا ۔اہم بات یہ ہے کہ 13سال سے جاری خانہ جنگی نے ملکی معیشت کو تباہ کرنے کے علاوہ عوام کی مشکلات میں بہت اضافہ کیا ہے اس لئے ضرورت اس بات کی ہے کہ امن مذاکرات کو جلد اور موجودہ جنگ بندی کے دوران ہی کامیاب اور نتیجہ خیز بنانے کی تدبیر کی جائے۔ کیونکہ مذاکراتی عمل کی طوالت امن دشمن قوتوں کو غلط فہمیاں پیدا کرنے کے مواقع فراہم کر سکتی اور عوامی توقعات کو منفی انداز میں متاثر کرنے کاسبب بن سکتی ہے۔اس لئے فریقین کو پہلے تو یہ اعتماد ہونا چاہئے کہ مذاکرات کے لئے جس مقام کا بھی تعین ہو گا ،محفوظ ہو گا اور اسے ایک دوسرے کے خلاف استعمال نہیں کیا جائے گا۔ دوسری اور اہم بات یہ ہے کہ بات چیت نتیجہ آور ہو ، اس کے ذریعے عوام کو دیرپا امن کی نوید ملے اور انہیں احساس تحفظ کے ساتھ روزگار سمیت زندگی کی بنیادی سہولتوں کے حصول کی ضمانت حاصل ہو۔ کیا ہی اچھا ہو کہ دونوں اطراف کے مذاکرات کار مارچ کے مہینے کو، جو قرار داد پاکستان کی منظوری کا مہینہ ہے، پاکستان میںپائیدار امن قائم کرنے کے مہینےکے طور پر بھی یادگار بنادیں۔
پاک بحرین تعلقات
پاکستان نے دنیا کی48 ویں مضبوط ترین معیشت کی حامل عرب ریاست بحرین کے ساتھ مختلف شعبوں میں دوطرفہ تعاون بڑھانے کے لئے مشترکہ وزارتی کمیشن کے قیام سمیت 6 اہم معاہدوں پر دستخط کئے ہیں۔ ان میں سرمایہ کاری، بجلی اور پانی کے شعبے بھی شامل ہیں۔ معاہدوں کو حتمی شکل بحرین کے بادشاہ شیخ حماد بن عیسیٰ الخلیفہ کے سہ روزہ دورہ پاکستان کے موقع پر دی گئی جن کا وزیراعظم نواز شریف نے ایئرپورٹ پر خود استقبال کیا۔ بعد میں معزز مہمان کو خوش آمدید کہنے کے لئے وزیراعظم ہاؤس میں پروقار تقریب منعقد ہوئی ۔ بحرین تقریباً ساڑھے بارہ لاکھ آبادی والا ملک ہے۔ اس کی نصف آبادی غیرملکی کارکنوں پر مشتمل ہے۔ ان میں ایک لاکھ سے زائد پاکستانی بھی شامل ہیں۔ 1932ء میں یہاں تیل برآمد ہوا مگر اس کی معیشت تیل پر انحصار نہیں کرتی۔ اس کی بجائے سرمایہ کاری اور بنکاری پر زیادہ توجہ دی جاتی ہے۔ عالمی بینک نے اسے ان ملکوں میں شمار کیا ہے جہاں معاشی ترقی کا اشاریہ سب سے زیادہ ہے۔ وزیراعظم نواز شریف کے بقول پاکستان میں توانائی، تیل کی صنعت، بندرگاہوں کی ترقی، کان کنی، معدنیات، انفراسٹرکچر بنکاری اور پارلیمانی شعبوں میں بحرین کی سرمایہ کاری کے وسیع مواقع موجود ہیں۔ جبکہ بحرین پاکستان سے اعلیٰ معیار کا باسمتی چاول، حلال گوشت، ٹیکسٹائل مصنوعات، پولٹری، کھیلوں کا سامان، آلات جراحی، قالین سنگ مرمر اور کٹلری ویزہ جیسی اشیاء درآمد کر سکتا ہے۔ اسی طرح دونوں ممالک ایک دوسرے کے وسائل اور تجربات سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ موجودہ حکومت نے ملکی معیشت کی بحالی کیلئے جو کوششیں شروع کر رکھی ہیں۔ بحرین سے ہونے والے معاہدے ان کی بارآوری میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ پاکستان اور خلیج تعاون کونسل کے درمیان آزادانہ تجارت کے معاہدے کو حتمی شکل دلانے میں بحرین نے غیر معمولی کردار ادا کیا تھا جو پاکستان اور اس کے عوام سے بحرین کی دوستی اور خیر خواہی کی عمدہ مثال ہے۔ توقع کی جانی چاہئے کہ مستقبل میں دونوں ملکوں کا اتحاد باہمی ترقی اور امن و استحکام کی مضبوط بنیادبنے گا۔

عمرے کے کرایوں میں اضافہ کیوں؟
پی آئی اے کی جانب سے عمرہ زائرین کے لئے کرایوں میں پانچ ہزار روپے تک اضافے کے فیصلے پر ملک بھر میں بجاطور پر حیرت اور ناراضگی کا اظہار کیا جارہا ہے۔ ملک کے تمام شہروں سے جدہ جانے والے زائرین کے لئے یہ اضافہ پانچ ہزارروپے جبکہ مدینہ منورہ جانے والوں کے لئے ایک ہزار نو سو روپے فی کس ہوگا۔یہ فیصلہ جس بناء پر خاص طور پر ناقابل فہم ہے وہ اس کا پاکستانی سکے کی قدر میں غیرمعمولی اضافے کے بعد منظر عام پر آنا ہے۔ پاکستانی سکے کی قدر میں اضافے سے ایک سو گیارہ روپے تک پہنچ جانے والا امریکی ڈالر سو روپے سے نیچے آگیا ہے۔ اس کے بعد ملک میں درآمد کی جانے والی تمام پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں نمایاں کمی کی توقع کی جارہی ہے جس میں طیاروں میں استعمال ہونے والا ایندھن بھی شامل ہے۔انصاف کا تقاضا ہے کہ پی آئی اے سمیت تمام ملکی ایئرلائنوں کے کرایوں میں اسی تناسب سے کمی کی جائے۔ جبکہ عمرے کا سفر تو پاکستان جیسی مسلم مملکت میں ایک مذہبی فریضے کی ادائیگی کی حیثیت سے خصوصی برتاؤ کا مستحق ہے۔ بھارت جو غیرمسلم اکثریت کا ملک اور آئینی اعتبار سے سیکولر ریاست ہے، عمرے اور حج کے سفر کے لئے جانے والے مسلمانوں کو متعدد دوسری مراعات کے ساتھ ساتھ فضائی کرایوں میں خصوصی رعایت دیتا ہے۔ بہت سے دوسرے مسلم اور غیر مسلم ملکوں میں بھی حج اور عمرے کے لئے جانے والوں کو ایسی ہی مراعات دی جاتی ہیں۔ لیکن ہمارے ہاں عمرے اور حج کے کرایے ایک مدت سے معمول کے کرایوں سے نمایاں طور پر زیادہ وصول کرنے کی روایت قائم ہے۔ پی آئی اے کی جانب سے پچھلے مہینے عمرہ کرایوں میں سات ہزار روپے کمی کی گئی تھی اور ملک بھر میں اس فیصلے کا خیرمقدم کیا گیا تھا۔ لیکن اب جبکہ پاکستانی روپے کی قدر غیرمعمولی طور پر بڑھ گئی ہے تو کرایوں میں اضافہ کرنے کی بجائے ان میں سکے کی قدر میں بڑھائو کی مناسبت سے کمی کی جانی چاہئے۔
تازہ ترین