• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
آج سے ساٹھ ستر سال پہلے سرکاری ملازمین پر بڑی پابندیاں عائد تھیں، سرکاری مطبوعات مرتب کرنے والے ان پر اپنا نام نہیں لکھ سکتے تھے۔ ان کو سیاسی جلسوں، جلوسوں میں شرکت کی اجازت نہیں تھی۔ ان کو کسی علمی و ادبی سوسائٹی میں بلا اجازت تقریر کرنے، مضمون پڑھنے، ریڈیو پر تقریر کرنے کی اجازت نہیں تھی۔ وہ غیر ملکی سفارت خانوں کی تقاریب میں اجازت حاصل کئے بغیر شرکت نہیں کر سکتے تھے۔ راقم نے مرکزی محکمۂ شماریات (CSO) کی لینڈ بران ٹریڈ مرتب کی، آخری صفحے پر اپنا نام لکھ دیا۔ وزارت نے اس کی تقسیم روک دی مگر ایک سال بعد جب سرکاری شماریاتی بلیٹن شائع ہونے لگا تو اس پر ایڈیٹوریل بورڈ کے نام سے چار نام آنے لگے۔ اب تو اکنامک سروے کے ہر باب کو مرتب کرنے والے کا نام شائع ہوتا ہے۔
یہ واقعہ خودستائی پر نہیں حقیقت پر مبنی ہے۔ 1955ء میں راقم روم (اطالیہ) میں دس روزہ منعقد ہونے والی پہلی آبادی کی عالمی کانفرنس میں چار رکنی پاکستانی وفد میں رکن کی حیثیت سے شرکت کرنے اور ریاست ہائے متحدہ کے بیورو آف سینس میں ایک سالہ تربیت حاصل کرنے، کینیڈا، برطانیہ کے آفس، یونیسکو اور آئی ایل او میں ایک ایک ہفتہ گزارنے کے بعد واپس آیا۔ اس زمانے میں پاکستان کا دارالحکومت کراچی میں تھا اور یہاں اکنامک سوسائٹی آف پاکستان کے نام سے ایک ادارہ قائم تھا جس کے صدر کامرس کے انڈر سیکرٹری ڈاکٹر ایم ایم جنید اور سیکرٹری اردو کالج کے ایک میرے شاگرد سید ریاض الدین تھے۔ ریاض نے مجھ سے کہا کہ ان کی سوسائٹی میں کوئی مضمون پڑھوں…؟ میں نے حامی بھر لی اور پاکستان کی آبادی کے مسائل پر ایک مضمون پڑھنے کا وعدہ کر لیا۔
ممتاز حسن صاحب سیکرٹری مالیات نے جلسے کی صدارت قبول کر لی۔ کارڈ چھپے اور میٹروپول ہوٹل میں جو اس وقت بڑا شاندار ہوٹل تھا، جلسہ ہوا جس میں امام صاحب، ظہیر حسن لاری، سی ایس او کے امریکی ایڈوائزر، وزارت اکنامک افیئرز کے ڈپٹی سیکرٹری مسٹر ہوم جی، حاتم علوی، حکیم محمد احسن، کالجوں کے اساتذہ اور طلبا نے شرکت کی۔ میں نے پاکستان کی آبادی کا تجزیہ کرتے ہوئے یہ بات کہی کہ تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی پر روک لگانا چاہئے۔ اس وقت اضافہ آبادی کی شرح 3؍فیصد سالانہ تھی۔ تقریر کے بعد سوال و جواب کا سلسلہ شروع ہوا۔ امام صاحب نے یہ سوال کیا کہ مقرر نے پاپولیشن پالیسی پر کچھ نہیں کیا۔ میں نے جواب دیا کہ یہ پالیسی ایک یا دو اشخاص کی رائے سے مرتب نہیں ہو سکتی، اس کے لئے تو ایک کمیشن بنایا جائے جس میں وزارت داخلہ (جو مردم شماری کی ذمہ دار ہے) اکنامک ویلفیئر، تعلیم، صحت، لیبر کی وزارتوں کے نمائندوں کے ساتھ لوکل گورنمنٹ، منصوبہ بندی کمیشن، پولیس وغیرہ کے نمائندے شامل ہوں کیونکہ اس کا تعلق صرف اضافہ آبادی سے نہیں ہے بلکہ یہ تو بڑا پھیلا ہوا موضوع ہے جس میں غذائی ضروریات، تعلیمی سہولتوں، علاج معالجے کے وسائل، روزگار کے وسائل، ٹرانسپورٹ کے مسائل اور دیگر متعلقہ مسائل کو پیش نظر رکھتے ہوئے اہداف کا تعین کرنا ہو گا۔ ممتاز صاحب بڑے عالم و فاضل بزرگ تھے۔ انہوں نے تفصیل سے آبادی کے مسئلے پر تاریخی طور پر روشنی ڈالتے ہوئے مجھ سے کہا! اپنا پیپر مجھے دو میں گورنمنٹ سے کمیشن بنوا دوں گا۔ میں نے عرض کیا اس میں ٹائپ کی کچھ غلطیاں ہیں اور آج کے جلسے کے بعد میں اس میں کچھ اضافہ کرنا چاہتا ہوں۔ بعد میں جو واقعات پیش آئے اس پر مجھے یہ شعر یاد آتا ہے:
وہ وقت بھی دیکھا ہے تاریخ کی گھڑیوں نے
لمحوں نے خطا کی تھی، صدیوں نے سزا پائی
ہمارے امریکی مشیر نے اس کی ایک کاپی وزارت کو اس نوٹ کے ساتھ بھجوائی کہ یہ مضمون بہت اچھا ہے۔ صدر جلسہ نے بھی اس کی تعریف کی تھی۔ اس کی پانچ سو کاپیاں چھپوا کر تقسیم کی جائیں تاکہ عوام کی تجاویز بھی معلوم ہو سکیں۔ وزارت میں اس کا تجزیہ کیا گیا اور فائل مشیر صاحب کے پاس اس نوٹ کے ساتھ واپس آئی کہ آبادی وزارت داخلہ کا معاملہ ہے، پہلے اس کی رائے لی جائے، دوسرے آج تک حکومت کی طرف سے کسی کا ذاتی نوٹ شائع نہیں ہوا، تیسرے اگر مضمون نگار چاہے تو اپنے نام سے چھپوا سکتا ہے مگر اس میں عہدہ نہ لکھا جائے، چوتھے مضمون نگار نے سرکاری ملازمین کے قواعد و ضوابط کی خلاف ورزی کی کہ بلااجازت یہ مضمون پڑھا، کیوں نہ ان کے خلاف تادیبی کارروائی کی جائے، پانچویں آپ اپنے تمام افسران کو متنبہ کر دیں کہ وہ کسی ایسی غلطی کے مرتکب نہ ہوں۔ جواب کے لئے فائل میرے پاس آئی اور معاملے کو بڑھانے کے بجائے فائل روک لی جو آج تک میرے پاس ہے۔ اگر اس وقت کمیشن بن جاتا اور کوئی پاپولیشن پالیسی تیار ہو جاتی تو آج ان آنے والے مسائل کا سامنا نہ کرنا پڑتا جو پیش آ رہے ہیں۔
صدر ایوب کے زمانے میں فیملی پلاننگ کے نام سے آبادی کی رفتار کو کم کرنے کی کوشش بڑی شدومد سے شروع کی گئی جو ناموں کی تبدیلیوں کے ساتھ آج تک جاری ہے۔ اربوں روپے اور ہزاروں افراد کی محنت کے باوجود آبادی کی شرح میں اضافہ 3؍فیصد کے بجائے 2.03؍فیصد ہے جو بھارت، مالدیپ، سری لنکا کے مقابلے میں سب سے زیادہ ہے۔ اس وقت ہمارے ہاں کروڑ شرح پیدائش 27.2 فی ہزار اور کروڑ شرح اموات 7.2 فی ہزار اور خالص شرح اضافہ 2.03 فیصد ہے۔ مانع حمل جس پر بڑا زور ہے اس کی شرح ہمارے ہاں 27؍فیصد اور سری لنکا میں 68؍اور بھارت میں 56 ؍فیصد ہے۔ اسلامی ممالک میں 27؍فیصد کے مقابلے میں ایران اور ترکی میں 73؍اور مراکو میں 63؍فیصد ہے۔ ہماری مجموعی آبادی کا تخمینہ 180.71 ملین ہے جو 2015ء میں 191.72 اور 2020ء میں 210.12 اور 2030ء میں 242 ملین ہو جائے گا۔ کیا ہم 15؍سال میں مزید 50 ؍ملین افراد کی غذائی ضروریات، رہائش، تعلیم، روزگار، صحت، آمدورفت کی سہولتیں فراہم کرنے کے قابل ہو جائیں گے؟ آبادی کے چند اور مسائل ہیں۔ اس وقت 65 سال یا اس سے زائد عمر کے لوگوں کی تعداد 7؍ملین کے قریب ہے جو 2030ء میں 14؍ملین یعنی دگنی ہو جائے گی۔ دوسری طرف اس وقت 19-0 سال کے بچّوں اور نوجوانوں کی تعداد 84؍ملین کے قریب ہے اور آئندہ برسوں میں شرح پیدائش میں کمی کی وجہ سے ان کی تعداد 88.88 ملین ہو گی یعنی 60-20 سال کی عمر کے افراد کو 102؍ملین بچّوں، نوجوانوں اور بوڑھے افراد کا بوجھ برداشت کرنا ہو گا۔ اس وقت بھی ملک کی 40؍فیصد آبادی غربت کی زندگی بسر کرنے پر مجبور ہے، اس کو پینے کا صاف پانی میسّر نہیں، آمدنی کا 50؍سے 60 ؍فیصد حصّہ خوراک پر خرچ ہوتا ہے۔ ساڑھے 6؍کروڑ افراد ایک کمرے میں رہتے ہیں، ان میں ایسے خاندان بھی ہیں جن کے 9؍یا زائد بچّے ہیں۔
توقع ہے کہ چھٹی مردم شماری ستمبر 2014ء یا مارچ 2015ء میں ہو گی۔ تھر کے قحط کی وجہ سے ستمبر میں مردم شماری مشکوک ہو گئی ہے۔ مردم شماری کے نتائج آنے پر پاپولیشن پالیسی مرتب کر لی جائے اور اس پر سختی سے عمل کیا جائے تو حالات پر ایک حد تک قابو پایا جا سکے گا۔
تازہ ترین