• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
سوچ رہا تھا کہ آج ان کی شان میں لکھوں گا جنہوں نے اخوان المسلمون اور حماس جیسی شدت پسند اسلامی تنظیموں کو باضابطہ طور پر دہشت گرد تنظیمیں قرار دے دیا ہے اور جو دہشت گردی کے خلاف وادی فاراں کے پہاڑوں کی مانند ڈٹے ہوئے ہیں لیکن تھر کے انسانی دکھوں نے مجھے اپنی طرف متوجہ کرلیا جہاں خشک سالی جیسی قدرتی آفت نے انہیں آن گھیرا ہے۔ قدرت کی سنگینی کے سامنے تو ہم سب بے بس ہیں البتہ بھرپور انسانی وسائل سے ان کی بھوک و ننگ کا سامان کر سکتے ہیں لیکن دہشت گردوں کی طرف سے مسلط کردہ پے در پے آفات کا ہم کیا علاج کریں؟ ان کے ہمدردوں کا خیال ہے کہ کوئی علاج نہ کریں بس مذاکرات کریں اور کرتے رہیں تاوقتیکہ وہ توانا ہو کر سب کچھ دبوچ لیں جبکہ ہمارے قومی شاعر حضرت علامہ اقبالؒ نے فرما رکھا ہے کہ
پھول کی پتی سے کٹ سکتا ہے ہیرے کا جگر
مرد ناداں پہ کلام نرم و نازک بے اثر
تو پھر کیا کیا جائے؟ دیار مغرب میں برا جمان حکیم الطاف حسین فرمارہے ہیں کہ عسکریت کی ڈوز پلاتے ہوئے ان کا روحانی علاج کیا جائے اس مقصدیت کے تحت انہوں نے وحدت روڈ لاہور کی ڈونگی گرائونڈ میں باضابطہ طور پر صوفی کانفرنس کاانعقاد بھی کروا ڈالا، چونکہ یہ جگہ ہمارے سے قریب تر تھی اس لئے سوچا کہ چلو ہم بھی ایم کیو ایم کا شو دیکھتے ہیں۔ بہت اچھا شو تھا اور ہماری توقعات سے کہیں بڑھ کر مجمع لگا ہوا تھا۔ دور و نزدیک سے ان لوگوں کو لانے والی گاڑیاں سروس روڈ پر قطار اندر قطار کھڑی تھیں۔ کڑا نظم و ضبط بتا رہا تھا کہ حفظ ماتقدم کے طور پر کارکنان نے اپنی ڈیوٹیاں خوش اسلوبی سے سرانجام دے رکھی ہیں جلسہ گاہ بھی خوب سجی تھی لیڈران اور کارکنان میں کوئی فرق یا امتیاز نہ تھا۔ جاتے ہی ہماری ملاقات جس نوجوان سے ہوئی اس کا نام تھا علی رشید، جسے ہم اسٹوڈنٹ سمجھ رہے تھے لیکن حیرت ہوئی جب دوران گفتگو انہوں نے بتایا کہ وہ تو کورنگی سے منتخب ہونے والے ممبر قومی اسمبلی ہیں۔ ہمارے سخت سوالات کے جواب میں بھی ان کا لہجہ نہیں بدلا سوال یہ تھا کہ آپ تو کراچی میں بھتہ لینے والے لوگ ہیں؟ جواب تھا کہ کراچی کی بڑی میجارٹی تو پھر بھی ہمارے ساتھ ہے جن لوگوں سے بھتہ وصولی کا شور مچایا جاتا ہے وہ انڈسٹریلسٹ اور دکاندار تو ہر ہر موقع پر ہمیں سپورٹ کرتے ہیں۔ سوالیہ استدلال تھا کہ وہ تو خوف سے کرتے ہیں جواب تھا کہ خوف سے اتنے بڑے عوامی ہجوم جمع نہیں کئے جاسکتے۔ رگنگ کے استدلال پر بھی یہی اصرار تھا کہ سسٹم میں رہتے ہوئے آخر اتنی بڑی رگنگ کیسے ممکن ہے آپ آخر ہماری کارکردگی اور تنظیمی صلاحیتوں کو کیوں ملاحظہ نہیں کرتے۔ ’’جرائم پیشہ لوگ آپ کی صفوں میں شامل ہیں؟‘‘ ہمارے اس اعتراض پر متحدہ کے ایم این اے نے کہا کہ تنظیمی تطہیر کرتے ہوئے ابھی ایسے1400 لوگوں کو نکال باہر کیا ہے ماقبل بھی ایسے ہوچکا ہے۔عرض کی کہ کیا یہ جواب خود اعتراض کے درست ہونے کا ثبوت نہیں ہے جواب الجواب تھا کہ جس تنظیم کے4 لاکھ کارکنان ہوں اس میں اگر ایک فیصد غلط لوگ آجائیں تو انسانی سماج میں یہ ناممکن نہیں ہے۔ قیادت ذمہ داری کا ثبوت دیتے ہوئے ایسے لوگوں کی تطہیر کررہی ہے۔ اس کے بعد پوری تنظیم کو غلط ثابت کرنا آپ کو آخر کیسے مناسب لگتا ہے؟ ساتھ بیٹھے ایک اور ایم این اے سنجے پروانی سے بات ہوئی تو بولے کہ متحدہ کا اقلیتوں سے رویہ بہت اچھا ہے اسے دیکھ کر میں ان کے ساتھ شامل ہوا تھا۔ بہرحال متحدہ والے کیسے لوگ ہیں اتنی دور بیٹھے ہم لوگ کیا کہہ سکتے ہیں اگر ان کا ماضی غلط تھا بھی تو لازم نہیں کہ حال اور مستقبل بھی غلط ہی رہیں جس طرح انسان وقت اور حالات سے بہت کچھ سیکھتے ہیں۔ تنظیموں اور پارٹیوں کو بھی سیکھنا چاہئے۔ کراچی میں غیر مذہبی دہشت گردی جیسی بھی تھی جب سے مذہبی دہشت گردی وارد ہوئی ہے کینسر کو دیکھ کر ہم ٹی بی کو بھول گئے ہیں،بالکل ایسے ہی جیسے نائن الیون کی بڑی ڈکیتی کے بعد ہمیں12 اکتوبر 99ء کا شب خون ہلکا لگنے لگا تھا، نیز مذہبی دہشت گردی کا ناسور تو بوجوہ اتنا بھیانک ہے کہ جس کے بالمقابل ہر برائی اپنی کاٹ کھو بیٹھتی ہے ۔کافور نہ ہو تو کند ضرور ہو جاتی ہے اسی تناظر میں ہمیں ڈاکٹر فاروق ستار کو یہ کہنا پڑا کہ’’کراچی کو جو خوفناک دیمک لگ چکی ہے اس کے لئے ناخالص نہیں زہریلی دوا بنیں۔ کاش ہمارے قومی سیکورٹی ادارے ملاوٹی و ناخالص دوا کے بجائے کاٹ دار و موثر دوا ہوتے ہیں۔ہم اس ادھیڑ بن میں تھے کہ لوہے کو لوہا کیسے کاٹ سکتا ہے کہ ہماری ملاقات مولانا احتشام الحق تھانویؒ کے صاحبزادے مولانا تنویر الحق تھانوی سے ہوئی اور بات حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ کے توسط سے تصوف یا صوفی ازم تک چلی گئی۔ ہم دیکھ رہے تھے کہ یہاں مختلف فرقوں سے تعلق رکھنے والے اتنے سارے مولوی صاحبان اور مشائخ عظام کیسے آگئے مگر رقص درویش نے الگ سے اپنا سماں باندھ دیا۔ ڈاکٹر جاوید اقبال محترم نے ہمیں رقص درویش کے حوالے سے خاصے اسرار و رموز بتا رکھے ہیں ۔اس پس منظر میں ہمارا دھیان مرید ہندی اقبالؒ سے آگے بڑھ کر ان کے مرشد مولانا رومؒ کی طرف چلا گیا۔
نہ اٹھا پھر کوئی رومی عجم کے لالہ زاروں سے
وہی آب و گل ایراں وہی تبریز ہے ساقی
اقبال فرماتے ہیں کہ مذہبی تجربہ جب اپنی بلندیوں پر پہنچتا ہے تو وہ سیکولرازم میں ڈھل جاتا ہے ۔ہماری دانست میں اگر تو وہ شعوری و استدلالی ہو تب بصورت دیگر وہ فاٹا پہنچ جاتا ہے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو نے کہا تھا کہ میں پہلے مولوی تھی پھر صوفی ہوگئی۔ ہر وسیع المشرب منطقی انسان کا مذہبی سفر ایسے ہی آگے بڑھتا ہے ۔ہم پورے اعتماد سے یہ عرض کرتے ہیں کہ اگر ہم نے عصر حاضر کی ’’تحریک خوارج‘‘ پر قابو پانا ہے تو پھر صوفی کی تعلیم کو سلیبس میں سموتے ہوئے عام کرنا ہوگا جس طرح دانا اور اولیا کابنا سانجھا ہوتا ہے اسی طرح صوفی اور سیکولر کی ایک سانجھ ہوتی ہے۔ متحدہ کے رہنما الطاف بھائی کم از کم اس حوالے سے ضرور فخر کرسکتے ہیں کہ انہوں نے لاہور جیسے صوفیاء کے خطے میں صوفیاء کانفرنس منعقد کرکے دہشت گردی کے خلاف مثبت آواز بلند کی ہے۔ وہ خود بھی رو رہے تھے اور کانفرنس کے دیگر شرکاء کو بھی رلا رہے تھے ان کی آواز گونج رہی تھی ’’اسلام کا مطلب سلامتی کا دین ہے لیکن یہاں مذہب کے نام پر فوجیوں اور دیگر اہلکاروں کی گردنیں کاٹ کر ان کی بے حرمتی کرنا، بزرگ ہستیوں کی لاشوں کو قبروں سے نکال کر چوراہوں پر لٹکانا، مساجد اور امام بارگاہوں میں نمازیوں کو خودکش حملوں اور بم دھماکوں میں شہید کرنا یہ کہاں کا اسلام ہے۔ چھوٹی چھوٹی بچیوں کے گلے کاٹ دیئے جاتے ہیں، انہیں کوڑے مارے جاتے ہیں۔ ماں باپ کی اکلوتی بیٹی ہم سب کی بیٹی23 سالہ فضہ جو حجاب میں تھی اس کا جرم یہ تھا کہ وہ انگلینڈ سے وکالت پاس کرکے آئی تھی۔ ابھی اسے تین مہینے ہوئے تھے کہا گیا یہ عورت وکیل ہے یہ اس کا جرم ہے اس معصوم بچی کو گولیوں سے بھون دیا گیا۔ ملالہ یوسف زئی پر گولیاں چلائی گئیں۔ بچیوں کے اسکولوں اور صوفیاء کے مزاروں پر حملے ہوئے، غیر مسلموں کی عبادت گاہوں پر حملے ہوئے، کوئی شریعت بزرگان دین کے مزارات کو برباد کرنے کی اجازت نہیں دیتی حضرت سلطان باہوؒ ،بابا بلھے شاہؒ ،بو علی قلندؒر،لال شہباز قلندرؒ اور رابعہ بصریؒ سب محبت کا پیغام دیتے ہیں۔
تازہ ترین