• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
منتخب بلدیاتی ادارے دنیا بھر میں شہری مسائل کے حل میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔شہری زندگی کی تمام سہولتیں ان ہی اداروں کے ذریعے عوام کو فراہم کی جاتی ہیں۔یہ ادارے عوام کو اپنے روز مرہ معاملات خود چلانے کے قابل بناتے ہیں۔اور لوگ کسی دشواری کے بغیر انہیں اپنی شکایات سے آگاہ کرسکتے اور مسائل کے حل کے حوالے سے ان کا محاسبہ کرسکتے ہیں۔ سرکاری افسروں یا قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے ارکان کے مقابلے میں ان بلدیاتی نمائندوں کو خود بھی اپنی آبادیوں کے حالات بہتر بنانے کی زیادہ فکر ہوتی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا کے ترقی یافتہ ملکوں میں شہری امور کے حوالے سے زیادہ سے زیادہ اختیارات بلدیاتی اداروں کو دیے جاتے ہیں ۔ اس کے نتیجے میں اعلیٰ تر منتخب ایوان ملک اور صوبے کے معاملات پر زیادہ توجہ دے سکتے ہیں۔ نیز بلدیاتی انتخابات کے ذریعے عوام کی صفوں سے قیادت کی تیاری کا عمل شروع ہوتا ہے اور یہ لوگ بعد میں قومی سطح پر قیادت فراہم کرتے ہیں۔یوں یہ ادارے قومی قیادت کی تیاری کے لئے نرسری کا کردار ادا کرتے ہیں اور ان کے ذریعے ملک کو حقیقی عوامی قیادت کے میسر آنے کی راہ ہموار ہوتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ آئین پاکستان میں منتخب بلدیاتی اداروں کے قیام کو لازمی قرار دیا گیا ہے اور ان کے بروقت انتخابات آئین کا تقاضا ہیں۔لیکن ہمارے سیاسی کلچر کا یہ عجب تضاد ہے کہ جو سیاسی قیادت ملک اور صوبے میں منتخب حکومتوں کے قیام کو عوام کا بنیادی حق اور جمہوریت کا ناگزیر تقاضا قرار دیتی ہے، وہ بلدیاتی اداروں کو منتخب قیادت فراہم کرنے سے بالعموم فرار کی راہ اختیار کرنے کے لئے کوشاں نظر آتی ہے۔ پاکستان کی 66 سالہ تاریخ میں بلدیاتی اداروں کے انتخابات عموماً فوجی آمروں کے ادوار حکومت میںکرائے جاتے رہے ہیں جبکہ منتخب جمہوری حکومتوں نے اکثر ان سے بچنے کی کوشش کی ہے۔جنرل مشرف کے دور میں ضلعی حکومتوں کے نام سے نیا بلدیاتی نظام متعارف کرایا گیا تھا۔ اس کے تحت منتخب بلدیاتی ادوروں کو گلی محلہ کی سطح پر شہری امور چلانے کے اختیارات دے کر عوام کو اپنے مسائل خود حل کرنے کے قابل بنانے کی کوشش کی گئی تھی اور ملک کے متعدد علاقوں میں اس کے بہت اچھے نتائج سامنے آئے تھے۔ اس نظام کے تحت دوسرے بلدیاتی انتخابات 2005ء میں ہوئے تھے اور چارسال بعد پھر کرائے جانے تھے۔ لیکن 2008ء میں ملک میں عام انتخابات کے بعد منتخب وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے بلدیاتی انتخابات سے گریز کی راہ اختیار کی۔ مشرف دور کے ضلعی نظام حکومت کو ختم کرکے ضیاء دور کا بلدیاتی قانون بحال کیا گیا اس کے باوجود بلدیاتی انتخابات جنہیں2009ء میں ہوجانا چاہیے تھا ، کسی بھی صوبے میں نہیں کرائے گئے۔سپریم کورٹ کی بار بار کی ہدایات کو ٹالا جاتا رہا، یہاں تک کہ ملک میں نئے عام انتخابات کا وقت آگیا اور اس کے نتیجے میں نئی وفاقی اور صوبائی حکومتیں قائم ہوگئیں ، عدلیہ نے نئی حکومتوں کو بلدیاتی انتخابات کے آئینی تقاضے کی تکمیل کی ہدایت کی لیکن اب تک بلوچستان کے سوا کسی بھی صوبے میں بلدیاتی انتخابات نہیں کرائے گئے ہیں۔ پنجاب اور سندھ کی حکومتوں نے حلقہ بندیوں کے حوالے سے سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا جس پر بدھ کے روز چیف جسٹس کی سربراہی میں قائم سپریم کورٹ کے بنچ نے مختصر فیصلہ سناتے ہوئے حکومت پنجاب اور وفاق کو 15 نومبر تک بلدیاتی انتخابات کرادینے کا حکم دیا ہے۔ یہ مہلت بھی بظاہر بہت طویل معلوم ہوتی ہے تاہم یہ حکومت پنجاب کی جانب سے قانون سازی کے لئے چار ماہ مانگے جانے کی وجہ سے دی گئی ہے جس کے بعد دوسری تیاریاں کی جائیں گی۔آٹھ ماہ کی مہلت مل جانے کے بعد حکومت کے پاس تیاری کے لئے وقت کی کمی کا کوئی عذر باقی نہیں رہ گیا ہے۔ فیصلے کی روس سے حلقہ بندیوں کا اختیار صرف الیکشن کمیشن کو حاصل ہوگا جو بالکل مناسب بات ہے کیونکہ اس طرح حلقہ بندیوں کوسیاسی مفادات سے بالاتر رکھے جانے کا زیادہ امکان ہے۔ سپریم کورٹ نے ملک میں بلدیاتی انتخابات میں اس تاخیر کو خلاف آئین قرار دیا ہے۔ اس لئے وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو متعین کی گئی تاریخ سے جس قدر پہلے ممکن ہو انتخابات کرانے کی پوری کوشش کرنی چاہئے۔
کاروکاری کب ختم ہو گی
چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس تصدق حسین جیلانی نے ضلع شکار پور کے قصبہ وزیر آباد میں مہر قبیلہ کی دو خواتین کو قریباً دو ہفتے قبل جاگرانی قبیلہ کے مردوں سے مبینہ طور پر ناجائز تعلقات رکھنے کی بنا پر جرگہ کی طرف سے قتل کی سزا دینے کی خبر پر از خود نوٹس لیتے ہوئے آئی جی سندھ کو عدالت میں طلب کر لیا ہے اور اس قتل کو جائز قرار دینے پر اول الذکر قبیلہ کے ایک ایم این اے سمیت 12افراد کے خلاف مقدمہ درج کر لیا ہے۔ یہاں اس امر کا تذکرہ ضروری ہے کہ سندھ کے دو بڑے قبائل کے درمیان کاروکاری کے الزام سے جنم لینے والے مذکورہ تنازع سے ان میں تصادم کا خطرہ پیدا ہو گیا تھا جس کے تصفیہ کے لئے بلائے جانے والے جرگے نے نہ صرف اس میں ملوث دو خواتین کے قتل کا فیصلہ سنایا بلکہ دوسرے قبیلے کو 24لاکھ روپے جرمانہ بھی کیا۔ صوبہ سندھ ہی نہیں ملک کے تمام صوبوں کے پسماندہ اور دور افتادہ علاقوں میں خواتین کو ایسے ایسے مظالم کا نشانہ بنایا جاتا ہے جن کی مثال دور جاہلیت کی تاریخ میں بھی کم کم ہی ملتی ہے۔ اصل حقیقت یہ ہے کہ وطن عزیز کے جن علاقوں میں بھی جاگیردارانہ اور وڈیرہ شاہی کا نظام مضبوط بنیادوں پر استوار ہے وہاں خواتین کو اسی نوع کی زیادتیوں کا تختہ مشق بنایا جاتا ہے ۔ امر واقع یہ ہے کہ اگر کسی شخص کے پاس دولت کی ریل پیل ہو ، زمینوں کے غیر معمولی وسیع قطعات پر مشتمل جاگیرمیں سینکڑوں افراد اس کے باجگزار ہوں اور کوئی فرد اس کی حکمرانی کو چیلنج کرنے کی ہمت نہ رکھتا ہو تو پھر قانون اس کی جیب کی گھڑی اور ہاتھ کی چھڑی ہوتا ہے اور وہ جب چاہتے ہیں اس کو توڑ مروڑ کر رکھ دیتا ہے۔ اخبارات و جرائد میں تو اس نوع کے چند واقعات ہی رپورٹ ہوتے ہیں ورنہ دور دراز دیہات میں ہی نہیں متمدن شہروں کے مضافات میں بھی آئے روز خواتین پر مظالم کی ایسی داستانیں رقم ہوتی ہیں کہ ان کو سن کر ہی جسم و جان کے رشتے لرزنے لگتے ہیں۔ ان کو ختم کرنے کے لئے ہر سطح پر قانون کی بالادستی قائم کر کے کمزور اور بے بس طبقات کو بے لاگ انصاف فراہم کرنا ناگزیر ہے جس کے لئے جاگیردارانہ نظام کو ختم کرنا از بس ضروری ہے۔

لاپتہ افراد کیس:فوجیوں کے خلاف مقدمہ
لاپتہ افرا دکیس میںبدھ کو اٹارنی جنرل نے وفاقی حکومت کی جانب سے سپریم کورٹ کو آگاہ کیا کہ ملاکنڈ حراستی مرکز سے 35 افراد کی جبری گمشدگی میں ملوث فوجی اہلکاروں کیخلاف مقدمہ درج کرا دیا گیا ہے۔ کیس کی سماعت کرنے والے فاضل جج نے اس موقع پر یاد دلایا کہ گمشدہ افراد کے حوالے سے عدالت نے 10دسمبر 2013اور اس کے بعد تین بار احکامات جاری کئے مگر وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے ان پر کوئی کارروائی نہیں کی۔ لاپتہ افراد کے متعلق حکومت کی ناکامی پر عدالت کی برہمی بجا ہے۔ ملاکنڈ حراستی مرکز سے زبردستی اٹھائے جانے والے 35 افراد کے علاوہ بھی ہزاروں نہیں تو سینکڑوں لوگ بلوچستان سندھ اور ملک کے دوسرے مقامات سے لاپتہ ہیں اور ان کے لواحقین ان کی تلاش میں در بدر ٹھوکریں کھا رہے ہیں۔ بلوچستان سے ایک معمر شخص کی قیادت میں لاپتہ افراد کے بیوی بچوں اور دوسرے لواحقین پر مشتمل ایک قافلہ کراچی کے راستے طویل لانگ مارچ کر کے اسلام آباد پہنچا تاکہ حکمرانوں کے ضمیر کو جھنجھوڑ سکے مگر گمشدگان کی جلد بازیابی کی طفل تسلی کے سوا انہیں کچھ نہیں ملا۔ عدالتوں میں بھی حکومت کوئی واضح جواب نہیں دے پا رہی ایسا لگتا ہے کہ وہ ان ایجنسیوں کے سامنے بے بس ہے۔ جو محض شک کی بنا پر لوگوں کو جبراً اٹھا لیتی ہیں پھر ان کے لواحقین کو کبھی پتہ نہیں چلتا کہ انہیں زمیں کھا گئی یا آسماں نگل گیا۔ ایک اسلامی جمہوری ملک میں اس طرح کی کارروائیاں ناقابل فہم ہیں۔ اگر کوئی شخص ریاست کے خلاف جرم کا ارتکاب کرتا ہے تو اس سے بازپرس ریاستی قوانین کے تحت ہی کی جانی چاہئے اور ٹھوس ثبوتوں کے ساتھ عدالتوں میں پیش کر کے اسے سزا دلوانی چاہئے لوگوں کو لاپتہ کر کے برسوں انہیں عقوبت خانوں میں رکھنا نہایت افسوسناک فعل ہے جس کی آئین اجازت دیتا ہے نہ اسلام۔ عدالت عظمی اس حوالے سے انصاف کے تقاضے پورے کر رہی ہے۔ حکومت کو اس کے احکامات پر عملدرآمد میں لیت ولعل سے کام نہیں لینا چاہئے اور لوگوں کو ماورائے قانون لاپتہ کرنے کا سلسلہ سختی سے روکنا چاہئے۔
تازہ ترین