• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
بنگلہ دیش میں مسلسل چار مہینے سے کرکٹ ہو رہی ہے ۔ پہلے وہاں ویسٹ انڈیز اور سری لنکا کی ٹیمیں آئیں ۔ اس کے بعد وہاں ایشیا کپ منعقد ہوا ۔ آج کل ٹی 20 ورلڈ کپ ہو رہا ہے ۔ وہاں خوشیاں ہیں ، میلے ہیں ، اقتصادی سرگرمیاں ہیں اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ امن ہے ۔ ہو سکتا ہے کہ کچھ لوگوں کو یہ بات ناگوار گذرے لیکن یہ سچ ہے کہ وہاں گذشتہ چار مہینے سے بین الاقوامی کرکٹ ہو رہی ہے ۔ بنگالی زبان کے عظیم شاعر رابندرا ناتھ ٹیگور کا قول ہے کہ ’’ حقائق تو بہت ہوتے ہیں لیکن سچ ایک ہوتا ہے ۔ ‘‘ یہ سچ کیوں بیان کیا گیا ہے ، ہم پاکستانیوں کو اس کی وضاحت کی ضرورت نہیں ہے ۔ یہ سچ ہمیں خوش دلی سے کیسے قبول کرنا ہے ، اس کا طریقہ بھی ہمیں بنگالیوں نے بتایا ہے ۔ پاکستان اور بنگلہ دیش کے درمیان میچ میں جو بنگالیوں نے اپنی ٹیم کی حمایت کی لیکن باقی تقریباً تمام میچز میں انہوں نے پاکستان کی حمایت کی ۔ بنگالیوں نے بڑے پن کا مظاہرہ کیا ہے ۔ یہ تاریخ کا تقاضا تھا کہ ہندوستان کے بطن سے پاکستان نے جنم لیا اور پھر تاریخ کے ایک اور تقاضے نے بنگلہ دیش کو جنم دیا ۔ ہم ہندوستان سے الگ ہوئے اور بنگلہ دیش ہم سے الگ ہوا ۔ لیکن پاکستان اور بنگلہ دیش کے درمیان میچ میں بنگالی اس طرح حالت جنگ میں نظر نہیں آئے ، جس طرح ہم پاکستان اور بھارت کے درمیان میچ میں حالت جنگ میں نظر آتے ہیں ۔ پاکستان کے دیگر میچز میں بنگلہ دیش کے تماشائیوں نے پاکستان کی حمایت کی جبکہ ہم کبھی بھارت کی حمایت نہیں کرتے ۔ اس پر عظیم ٹیگور کی ایک اور بات یاد آ رہی ہے کہ ’’ محبت کسی کو باندھ کر نہیں رکھتی بلکہ یہ آزادی عطا کرتی ہے ۔ ‘‘ لہذا ہمیں بھی کھلے دل سے اس سچ کو تسلیم کرنا چاہئے کہ بنگلہ دیش میں گذشتہ چار مہینے سے بین الاقوامی کرکٹ ہو رہی ہے اور یہ سچ بیان کرنے پر کسی کو غدار بھی قرار نہیں دینا چاہئے ۔ جب ایشیا کپ میں پاکستان اور بھارت کی کرکٹ ٹیموں کے درمیان میچ میں بنگلہ دیش کے شائقین نے پاکستان کی حمایت کی تو ہمارے بعض اخبارات نے یہ سرخیاں جمائیں کہ ’’ حسینہ واجد کے منہ پر طمانچہ ! ‘‘ ہمیں شاید اندازہ ہی نہیں ہے کہ قومیں کس طرح بنتی ہیں اور ٹیگورکس طرح کی قوموں میں پیدا ہوتے ہیں ۔ ہمیں یہ بھی پتہ نہیں چل سکا کہ طمانچہ کس کے منہ پر پڑا ہے ۔ ہمیں اور کوئی بات اگر سمجھ نہیں آتی تو نہ آئے لیکن بنگلہ دیش کے لوگوں کے اس رویے کے بعد ہمیں بنگلہ دیش سے حسد نہیں بلکہ رشک کرنا چاہئے ۔ ہمیں اس بات پر سوچنا چاہئے کہ پاکستان میں طویل عرصے سے بین الاقوامی کرکٹ کیوں نہیں ہو رہی ہے ۔ ہمیں اپنے حالات کا ازسر نو جائزہ لینا چاہئے اور اپنی سوچ پر نظر ثانی کرنی چاہئے ۔ ورلڈ کپ کا انعقاد کرانا کوئی آسان کام نہیں ہے ، جو ملک اتنا بڑا ’’ ایونٹ ‘‘ کرا سکتا ہے ، یقیناً عالمی برادری میں اس کی بڑی حیثیت ہوتی ہے ۔ ایسے ملک میں امن وامان کی صورت حال مثالی ہونی چاہئے ، بڑی تعداد میں بین الاقوامی معیار کے ہوٹلز اور شاپنگ پلازے ہوں اور شہر ایسے ہوں کہ بیرونی دنیا سے لوگ آئیں تو شرمندگی کا سامنا نہ کرنا پڑے ۔ بنگلہ دیش اس وقت ٹیکسٹائل اور پٹ سن کی مصنوعات کی برآمد میں اپنی حیثیت منوا چکا ہے ۔ یہ بھی خبریں آتی ہیں کہ ٹیکسٹائل کے شعبے سے وابستہ پاکستانی سرمایہ کار بنگلہ دیش منتقل ہو رہے ہیں ۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ بنگلہ دیشیوں کو بحیثیت قوم اپنا راستہ مل گیا ہے اور بنگلہ دیش ایک قومی ریاست کے طور پر آگے بڑھ رہا ہے جبکہ ہم پاکستان کو ایک نظریاتی ریاست بنانے کی کوششوں میں الجھ کر اسے ایک ’’ سیکیورٹی اسٹیٹ ‘‘ بنا چکے ہیں ۔ ہمارے بارے میں تاثر یہ ہے کہ ہم اپنی پیداوار اور مصنوعات کی بجائے تشدد انتہا پسندی اور عسکریت پسندی کو برآمد کرتے ہیں ۔ ابھی حال ہی میں ہمارے برادر مسلم ملک سعودی عرب سے ہمیں ڈیڑھ ارب ڈالرز کا ’’ تحفہ ‘ ملا ہے ۔ بحرین کے بادشاہ حماد بن عیسیٰ الخلیفہ بھی پاکستان تشریف لا ئے تھے اور پاکستان کے ساتھ دفاعی تعاون کا معاہدہ کر کے گئے ہیں ۔ یہ اطلاعات بھی ہیں کہ سعودی عرب نے ڈیڑھ ارب ڈالرز کی جو رقم دی ہے وہ اس پیکیج کا ایک معمولی حصہ ہے جو 15 ارب ڈالرز سے زیادہ مالیت کا ہے ۔ وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف نے یہ وضاحت کی ہے کہ پاکستان کی فوج کو شام یا کسی دوسرے ملک لڑنے کے لیے نہیں بھیجا جائے گا۔ وزیراعظم نے یہ بھی کہا ہے کہ بحرین نے فوج مانگی ہے اور نہ ہم وہاں فوج بھیج رہے ہیں۔ اس کے باوجود لوگ یہ بات تسلیم کرنے کوتیارنہیں ہیں کہ اتنی بڑی رقم تحفے میں ملے گی اور اس کے بدلے میں ہمیں کچھ نہیں دینا پڑے گا۔ لوگوں کو سابق صدر آصف علی زرداری کا سعودی عرب کا وہ دورہ بھی یاد ہے، جب سعودی حکمرانوں نے ان سے سردمہری کا مظاہرہ کیا تھا اور وہ اپنے وفد کو چھوڑکر اچانک ایک چھوٹے طیارے میں دبئی چلے گئے تھے۔ سعودی عرب سے اس وقت کوئی تحفہ نہیں ملا تھا کیونکہ پیپلزپارٹی کی حکومت شام میں بشارالاسد حکومت کی حمایت کررہی تھی۔ اب حالات بہت تبدیل ہوچکے ہیں۔ امریکا میں سعودی عرب کے 20 سال تک سفیرکی حیثیت سے فرائض انجام دینے والے شہزادہ بندر بن سلطان کی سعودی عرب میں واپسی اور پھر سعودی انٹیلی جنس ایجنسی کے سربراہ بننے کے بعد سعودی عرب خطے کے معاملات میں بہت آگے چلا گیا ہے۔ یورپ اور امریکا کے ایران کے ساتھ تعلقات میں بھی تبدیلی آئی ہے۔ ایران کی چاہ باغ بندرگاہ کو امریکا افغانستان سے اپنی واپسی کے روٹ کے طور پر استعمال کررہا ہے۔ اس صورت حال میں پاکستان اگر دوستی میں بھی سعودی عرب کو فوجی تعاون فراہم کرتا ہے تو معاملہ صرف سعودی عرب تک نہیں رہے گا۔ ہم لازمی طور پر ایک اور جنگ میں الجھ جائیںگے اور اس جنگ کا ایک بڑا میدان فرقہ وارانہ تصادم کی صورت میں ہمارا صوبہ پنجاب بھی بن سکتا ہے۔ دنیا یہ بھی کہہ رہی ہے کہ پاکستانی فوج کو شاید بحرین اور شام نہ بھیجا جائے لیکن پاکستانی عسکریت پسندوں اور جنگجوؤں کو وہاں بھیجا جاسکتا ہے، اگر ایسا ہوا تو بھی فرقہ وارانہ تصادم کی آگ پاکستان تک پہنچ سکتی ہے۔ ڈالرز،ریال اور درہم اگر کسی وجہ کے بغیر پاکستان آئیںگے تو پاکستان کو ان کی بڑی قیمت چکانا پڑے گی۔ لگتا ہے کہ ایک بار پھر پاکستان میں وہ حالات پیدا کرنے کا موقع گنوایا جارہا ہے، جن حالات میں کرکٹ کا ورلڈکپ یا کوئی بین الاقوامی پروگرام منعقد کیا جاسکے۔ ایک بار پھر ہم بند گلی کی طرف جارہے ہیں۔ اس پر رابندرا ناتھ ٹیگور کی مشہور نظم ’’بند راستہ‘‘ یاد آرہی ہے۔ ’’میں نے سوچا تھا کہ میرا راستہ ختم ہوچکا ہے… میری سکت کی یہ آخری حد تھی۔۔ میرے سامنے راستہ بند تھا… میری ہمت جواب دے گئی تھی… اور یہ وقت تھاکہ میں ابدی سکون میں جاکر پناہ لوں… لیکن مجھے پتہ چلا کہ میرے اندر کی امنگ کا کوئی انت نہیں… اور جب پرانے الفاظ زبان پر دم توڑتے ہیں… دل کے اندر سے نئی دھنیں پھوٹتی ہیں… اور جہاں پرانے راستے ختم ہوتے ہیں… وہیں سے حیرت انگیز نئی دنیا آشکار ہوتی ہے‘‘ ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ عظیم ٹیگور کے اس فلسفے کا ادراک کرکے ہمیں بند گلی سے نکالنے والا کوئی نہیں۔ہم نے اپنے ذہنوں کے دریچے بند کردئیے ہیں۔ ہم تو پاکستان کے دورے پر آئی ہوئی ٹیموں کو دبئی لے جاکر ’’ہوم سیریز‘‘ منعقد کرلیتے ہیں۔ یہ کوئی مسئلہ ہی نہیں ہے۔
تازہ ترین