• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
بات صرف عوام کی محنت کی کمائی جیب سے نکلوا کر اجاڑنے تک محدود نہیں، بلکہ یہ بے حسی، بلکہ سنگدلی ہے جسے دیکھ کر کلیجہ منہ کو آتا ہے ۔ آپ عارضہ ٔ قلب کی ایک شکایت، جو آج کل بہت عا م ہے ، لے کر لندن جارہے ہیں، جو بذات ِخود اپنی جگہ پر قابل ِ مذمت ہے ، چاہے آپ کو اس کا احساس ہو یا نہ ہو، کیونکہ اس کی وجہ سے آپ کے ملک کی بدنامی ہوئی ہے ۔ اس سے تاثر جاتا ہے کہ آپ یہاں کے معالجوں اور شفاخانوں کو اپنے علاج کے قابل نہیں سمجھتے ۔ تاہم بات یہیںتک محدود نہیں، آپ نے خود نمائی کرتے اور اس ملک، جس نے آپ کو منتخب کیا ، کے زخموں پر نمک پاشی کرتے ہوئے محض اپنے آرام کے لئے پی آئی اے کا ایک بہت بڑا طیارہ منگوایا۔ یہ طیارہ، جس کا اصل مقصد ریونیو حاصل کرنا تھا،پاکستان سے خالی لندن گیا تاکہ عزت ماب وزیر ِاعظم اور ان کے اہل ِخانہ کو آرا م سے پاکستان لا سکے ۔یہ اسراف نہ آپ کے ضمیر پر گراں گزرا نہ حکومت پر ،جس کی قیادت آپ کے ہاتھ ہے ۔
یہ ہے وہ بے حسی جو محض ذاتی سہولت کے لئے مہذب رویوں کی پامالی بھی روا رکھتی ہے ، لیکن معاملہ صرف بے حسی کانہیں، ایسے رویے کے اظہار کے لئے آپ کو معقول حد تک حماقت کی دولت سے بھی مالا مال ہونا پڑتا ہے ۔ یہاں یہ با ت فراموش نہیں کرنی چاہئے کہ ایسا اُس وقت ہوا جب انسان نما فرشتے ،عبدالستار ایدھی کی آخری رسومات ادا کی جارہی تھیں۔ جب قوم اپنے سب سے محبوب انسان کی رحلت پر غمزدہ تھی، تو ہمارے مغل نما حکمران تزک و احتشام سے اس دھرتی پر قدم رنجا فرما رہے تھے ۔ کیا کوئی تضاد اس سے بھی زیادہ نمایاں ہوسکتا ہے ؟ ایدھی صاحب انتہائی سادگی، ایثار اور انسان دوستی کی ایک روشن مثال، تو دوسری طرف ملک کے منتخب شدہ لیڈرریاست کے بے پناہ وسائل اپنے آرام پر پانی کی طرح بہارہے تھے ۔ دنیا کے کسی بھی خطے میں یہ حرکت ناقابل ِ معافی قرار دی جاتی۔ کچھ اخبارات میں اس سفر کے اخراجات تیس کروڑ روپے بتائے گئے ہیں، کچھ کا اندازہ چالیس کروڑ کا ہے ۔ اگر اس ملک، جو بہت طمطراق سے خود کو اسلام کا قلعہ کہلاتا ہے ، میں انصاف نام کی کوئی رمق بھی ہوتی تویہ رقم ان کی جیب سے نکلوائی جاتی ۔
اُن کی جیب بھاری ہے ، وہ اپنے لئے طیارہ کرائے پر لے سکتے تھے ، اور ہم کہتے کہ یہ اُنھوں نے ایک اچھی مثال قائم کی ہے کہ اپنے ذاتی معاملات کا عوام پر بوجھ نہیں ڈالا۔ لیکن نہیں، کبھی پتھر بھی پانی پر تیرے ہیں؟یہ بھی ہوسکتاتھا کہ وہ پی آئی اے کی ایک باقاعدہ پرواز میں سفر کرلیتے ۔ چونکہ پی آئی اے کا معیار سب جانتے ہیں تو کوئی بات نہیں، وزیر ِاعظم صاحب کے لئے خصوصی مینو بن جاتا۔ لیکن ان سے اس رویے کی توقع عبث ہے ۔ کیا وہ صرف مہذب بننے کے لئے عام شہریوں کے درجے پر اتر آتے ؟ ہر گز نہیں۔ چنانچہ ہمیں ایسے ہی منظر دیکھنے کو ملیں گے، کہ حکمرانوں ، ان کے اہل ِخانہ اور احباب کو لانے اور لے جانے کے لئے بڑے بڑے طیارے چارٹر کئے جاتے رہیں گے ۔ اس مہنگے سفر کی وضاحت، اگر کوئی تھی، تو وزیر ِاعظم کے دفتر کو پیش کرنی چاہئے تھی لیکن اس کا بار بھی پی آئی اے کو اٹھانا پڑا ۔ وضاحتوں کے پیچ وخم سے گزرتے ہوئے اس نے قوم کو باور کرانے کی کوشش کی کہ پہلے تو وزیر ِاعظم کی علالت کے دوران اُن کے ’کیمپ آفس ‘ کو لندن شفٹ کیا گیا تاکہ وہاں سے امور ِ مملکت چلائے جاسکیں، اب صحت یابی کے بعدتمام ، بلکہ ’’بھرپور کیمپ آفس‘‘ کو واپس باقاعدہ فلائٹ پر وطن واپس لانا مشکل تھا۔ سیٹوں وغیرہ کا مسئلہ ہوجاتا۔ قو م سے توقع کی جارہی ہے کہ اس وضاحت کو کافی سمجھتے ہوئے مطمئن ہوجائے۔
اے خدا، ہم جانتے ہیں کہ ہم گناہ گار ہیں، تسلیم کہ ہم سے غلطیاں اورکوتاہیاں سرزد ہوئی ہیں، لیکن کیاہم اس سزا کے مستحق ہیں؟ کیا پاکستان کسی کی ذاتی جاگیر ہے کہ اس کے ساتھ جو چاہے سلوک کرلے ؟ مغل حکمرانوں نے اپنے لئے قلعے اور تاج محل بنوائے لیکن وہ فاتح تھے۔ اُنھوں نے اپنے بازوئوں کی قوت سے ہندوستان کو فتح کیا اور اپنی سلطنت قائم کی۔ شاہجہاں نہ صرف محلات اور یادگار عمارتوں کا معمار تھا بلکہ جنگجو بادشاہ بھی تھا۔ درحقیقت تمام عظیم مغل بادشاہ ( بابر سے لے کر اورنگ زیب تک) جنگجو ہی تھے ۔ اُنھوں نے جو کچھ بھی کیا، اُس کا جواز تلوار کی دھار اور حالات فراہم کردیتے ہیں۔ لیکن ہمارے ان ’شاہجہانوں‘ نے کون سا پہاڑ سرکیا ہے کہ قومی وسائل کو ذاتی جاگیر سمجھ کراجاڑتے پھریں؟اور یہاں خادم ِاعلیٰ ، جنہیں فنکار ِاعلیٰ کہا جانا چاہئے ، کا کہنا ہے کہ ایدھی صاحب نے انہیں غریبوںکے ساتھ کھڑے ہونا سکھایا۔ اﷲ اکبر !ایسے غیر معمولی، گویا عقل وغیرہ سے ماورا، اظہارپرانہیں داد دینی بنتی ہے ۔ اگرچہ آج کل عادت کچھ موقوف کردی لیکن موصوف حبیب جالب کی انقلابی شاعری سے عوام کے دلوں کو گرمایا کرتے تھے ۔کہاں دولت کی دھن میں مست اور کہاں انقلابی شاعری۔ یہ تو ایسے ہی ہے جیسے راک فیلر سرمایہ داری کے خلاف نعرے لگاتا اٹھ کھڑا ہو۔ اگر وہ حبیب جالب کی شاعری کو اپنا سکتے ہیں تو میرا خیال ہے کہ بوئنگ 777 کو ’ کیمپ آفس ‘ کی شفٹنگ کے لئے لاہور سے لندن منگوانا تو ان کے لئے ایک معمولی سا کام ہے ۔
موجودہ حکمرانوں نے عوامی وسائل صرف کرنے کے تمام ریکارڈ توڑ ڈالے ہیں۔ جاتی امرا کی طرف جانے والی سڑک پر نظر دوڑائیں یا نجی رہائش گاہ کے گرد ستر کروڑ روپے مالیت سے تعمیر ہونے والی بم پروف دیوارکا بھاری پتھر اٹھائیں، عوام حیران ہیں کہ یہ کون سا طرز ِ حکومت ہے ؟ہم اسے جمہوریت کہتے ہیں، لیکن جمہوریت میں تو ایسی شاہی عادات ناممکن ہیں۔ اگر انڈیا میں نریندر مودی عارضہ ٔ قلب کا علاج کرانے لندن جاتے اور پھر واپس آنے کے لئے پورابوئنگ بک کراتے تو اُن پر ہر طرف سے تنقید کی توپوں کے دہانے وا ہوجاتے ۔ لوک سبھا اور میڈیا میں ایک ہنگامہ برپا ہوجاتا۔ نریندر مودی پیدا ہونے والی صورت ِحال کو شاید سنبھال نہ پاتے ، لیکن یہاں پاکستان میں سب کچھ معمول کے مطابق چل رہا ہے ۔ پارلیمنٹ خاموشی کی چادر تانے سو رہی ہے ، اور میڈیا حکومت پر تنقید کرنے والوں اور حکومت کی ستائش کرنے والوں کے درمیان بٹا ہواہے ۔ ہر روز جب اخبارات آتے ہیں( اور میں ان میں پانچ اخبارات ضرور پڑھتا ہوں) تو اُن میں ایسی کہانیاں اور تبصرے ہوتے ہیں کہ ’’پروادا‘‘(کمیونسٹ پارٹی کی ترجمانی کرنے والا سوویت دور کا اخبار)بھی انہیں شائع کرتے ہوئے ندامت محسوس کرے ۔
اس بات پر ذرا غور کریں کہ یہ صرف بے حسی اور حماقت نہیں، یہ کلچر بھی ہے ۔ ہمارے سیاسی طبقے ، بلکہ تمام حکمران طبقے کی ذہنی سطح بہت پست ہے ۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ موجودہ حکمرانوں کا تعلق پانچ دریائوں کی عظیم سرزمین، پنجاب سے ہے ۔ یہ درست ہے کہ اس دھرتی نے شاہ حسین، بلھے شاہ، وارث شاہ، غلام فرید اور میاں محمد بخش جیسے صوفی شاعر پیدا کئے ، لیکن میرے جیسا ایک مبتدی بھی جانتا ہے کہ اس شاعری کا اس سرزمین سے تعلق رکھنے والی اشرافیہ پر کوئی اثر نہیں ہوا۔ ایک حکمران، اور وہ واحد حکمران مہاراجہ رنجیت سنگھ تھے، کے سوا شاعری اور رومانس کی خو شبو میں بسی اس سرزمین سے زیادہ تر سیاسی یا ثقافتی طور پر کند ذہن اور غبی اشرافیہ ہی آگے آئی ہے ۔ 1857 ء میں انڈیا میں فسادات پھوٹ پڑے تو کرنل نکولسن، جن کی یادگار آپ کو ٹیکسلا میں دکھائی دے گی، نے مسلمان اور سکھ بٹالینز کے ذریعے اس شورش کو کچل دیا۔ ہمیں اپنی اس تاریخ کو فراموش نہیں کرنا چاہئے ۔ آپ اسے بدقسمتی یا ہمارا المیہ کہہ لیں کہ آج کے پاکستان کی قیادت پنجاب کے ہاتھ میں ہے کیونکہ یہی صوبہ آبادی اور وسائل کے اعتبار سے بالا تر ہے ۔ تاہم آج کاپنجاب وہ ہے جس نے خود اپنی زبان کو دیوار سے لگا دیا، اپنے عظیم شاعروں کی روح پرور شاعری سے کان بند کرلئے تواس میں حیرت کی کوئی بات نہیں کہ اس کی فکری صلاحیتیںکند اوراس کے دماغ جمالیاتی ذوق سے عار ی ہوچکے ہیں ۔ موجودہ حکمرانوں اور ان کے ولی عہدوں کو دیکھیں، ان کے بے بصر چہروں پر نگاہ ڈالیں، اور پھر دکھاوے کی شوکت ملاحظہ کریں تودل میں سوچ اٹھتی ہے کہ اگر یہی بہترین ہے تو بدترین کیا ہوگا؟
تازہ ترین