• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان کے لئے امید کی کرن نہیں امید کا سمندر موجود ہے، پاکستان دو لخت ہونے کے بعد بھی عالمی برادری میں اہمیت کا مرکز ہے، چاہے مثبت، چاہے منفی! پاکستان کے عوام اجتماعی خیر اور اجتماعی شر کی پہچان میں لاجواب ادراک رکھتے ہیں، وطن کا سواد اعظم اپنی اکثریتی پسند کا سو فیصد صحیح فیصلہ کرتا آیا ہے، پاکستانی قوم اپنے اجزائے ترکیبی میں جفا کشی، ذہانت، اختراع اور پیش قدمی کی ناقابل گرفت صلاحیتوں سے مالا مال ہے، پاکستانی اپنی دھرتی کے فرزندوں کے احترام اور شناخت میں کبھی بھول چوک کا شکار نہیں ہوئے الذکر ایسے اظہار میں کسی ایک عنصر نے ان کی زبانوں پہ تالے لگا دیئے یا ان کی حرکیات پر بندش عائد کر دی، ایسے میں پاکستانیوں نے اپنی نظروں کے پیغام سے اس فرزند کی ابدی حیات پر تعریفی مہر ثبت کر دی، ان نظروں سے ہی اس پر تشکر کے جذبات نچھاور کر دیئے، ان نظروں سے ہی اس کے لئے عقیدت کے نغمے تخلیق کئے، ان نظروں سے ہی اسے تاریخ کے ایوان میں عظمت کا تاج پہنا دیا، پاکستانی عجیب و غریب، حیرت انگیز، راحت افزا اور تکلیف دہ اتفاقات، تضادات، امکانات، شبہات، تعینات اور واقفیت کے جہانوں میں زندگی گزارتے ہیں، اسی ناتے پاکستان کا آسماں، پاکستان کی سرد اور گرم فضائیں، پاکستان کے یخ اور تپتے پہاڑ، پاکستان کی ہریالی اور صحرائی وادایاں، پاکستان کے خشک اور سیراب کرتی نہریں، دریا، پاکستان کا ہمیشہ پھنکاریں مارتا سمندر، اس کی بولتی خامشی، اس کے باطن کی گہرائیوں میں خالق کائنات کی یاد دلاتی تاریکیاں، پاکستان کے ماحول میں میاں محمد، شاہ حسین، بابا فرید، بلھے شاہ اور وارث شاہ کی شاعری کے بولوں اور کافیوں میں چھپی مدھر سرشاریوں پر جادوئی تانیں، پاکستان کے دیہات، چوپال، لہلہاتی فصلیں، سونا اگلتے کھیت، بھرپور جوانیوں کی رعنائیاں، بڑھاپے کی حیرت زدگیاں، وطن کی کس کس نزاکت، وطن کے کس کس حسن، وطن کی کس کس شوخی، وطن کے کس کس منظر کا تذکرہ ہو، کہانی کی خوبصورتی دوشیزہ کی دراز زلفوں کی مانند لہراتی، اٹھکیلیاں کرتی آپ کو سرشار کرتی چلی جائے گی،وہاں عبدالستار ایدھی ہی جنم لیتے ہیں، آپ اپنے وطن کے آشیاں میں ایسی ہستی کے وجود پہ آخر اچنبھا سا کیوں محسوس کرتے ہیں، یاد رکھو، یہ پاکستان کی پاک سرزمین ہے، سرسبز و بارآور بانجھ نہیں، بس اتنا ہے ہم نے فطری قانون کی روا سے پیداواری برکات کو اپنے عدم توازن سے بحران میں مبتلا کر دیا، پھر بھی پاکستان تو سارے کا سارا باغ جہاں ہے، یہاں پھول کھلے ہیں، یہاں پھول کھلتے رہیں گے، ان کی خوشبوئوں سے ہر کوئی معطر ہوا، معطر ہوتا رہے گا، عبدالستار ایدھی ہمارے لئے ایسا ہی پھول تھا جس سے سارا پاکستان مہک اٹھا!
پاکستانی قوم نے شانہ بشانہ، قلب و جاں واری کئے، اپنے اس فرزند کو خراج عقیدت ہی پیش نہیں کیا، مملکت خداداد کی فرد میں اسے تسلیم کرنے کی سلامی پیش کی گئی۔ وطن کے سربراہوں اور وطن کے محافظوں نے اپنے سر جھکا دیئے، آپ ایدھی صاحب کو عظیم انسان قرار دیں، صوفی مان لیں، عظمت و خیر کے ہر لفظ کا ان پر اطلاق ان کا استحقاق ہے!
وہ انسانیت کی اولاد تھے، انہوں نے عملی طور پر بانی پاکستان کے اس فرمان کو بطور منشور حیات کے اپنایا:
’’آپ آزاد ہیں، آپ کو آزادی ہے کہ آپ اپنے مندروں میں جائیں، آپ مساجد میں جائیں یا اپنی اور کسی بھی عبادت گاہ میں جائیں، پاکستان کی اس ریاست میں آپ کا کسی بھی مذہب یا ذات یا فرقے سے تعلق ہو سکتا ہے، یہ ریاست کا معاملہ نہیں‘‘ عبدالستار ایدھی نے بانی پاکستان کے اس نظریئے کی تمام عمر آبیاری کی، انسانوں کی خدمت، ان کی محافظت، ان کے دکھ درد دور کرنے، ان کی محرومیوں کے ازالے، ان پہ جبریت کے خاتمے، کوڑوں کے ڈھیروں سے ان کے لئے امید حیات کے سندیسے اور لاوارثوں کی تعفن زدہ لاشوں کے احترام کی خدائی تہذیب پہ اپنا ایمان رکھا اسی ایمان پہ عمل کیا!
سنا ہے عبدالستار ایدھی کو، سنا ہی نہیں پتہ بھی ہے ایدھی صاحب کو ایسے ہی دنیاوی مفادات کے ہوس پرست اور ہوس زدہ اسیروں نے ملک چھوڑنے پر بھی مجبور کیا مگر ایدھی پہ تو آج اس وطن عزیز کا ایک ایک ذرہ نثار ہو رہا ہے، یہ ذہنی لہو و لعب میں ڈوبے، جاہ و حشم کے ناقابل ذکر لالچی کہاں ہیں؟ ہے کوئی ان کا نام لیوا یا ان میں سے کوئی ایک اپنے نام کا اعلان کرنے کی جرأت کر سکتا ہے، ایدھی کو ان کی میتیں بھی اگر بے بسی کی حالت میں ملتیں وہ انہیں بھی مسلمان عقیدے کے ٹھنڈے سائبان تلے لے آتے، ایسے ہی جیسے ان بچوں کے بارے میں انہوں نے قوم سے کہا تھا ’’جسے کوئی اپنا نام نہیں دے رہا، اسے قتل نہ کرو، جھولے میں ڈال دو‘‘، ایدھی اپنے اعمال سے زندہ جاوید ہیں، ان کا مشنفیصل ایدھی کی ذات کا پابند نہیں، قوم کا یہ جواں سال فیصل ایدھی ہے، انسانیت کا یہ صدقہ جاریہ ہمیشہ جاری ہی رہے گا۔
فانٹی نیلے (FONTENELLE)نے کہا تھا:۔
’’اگر خدا آدمی کی آنکھوں کے سامنے قدرت کا پراسرار نظام فاش کر کے رکھ دے اور ان اسباب و علل کو اس پر واضح کر دے جن سے فلکیاتی نتائج مرتب ہوتے ہیں تو اسی صورت میں جب کہ آدمی کو نہ کہیں جادو نظر آئے گا نہ پراسرار ہندسے سوجھیں گے اور نہ کہیں قسمت کی ستم ظریفی دکھائی دے گی بلکہ ایک سیدھا سادھا نظام ہی نظر آئے گا، تو میرا خیال ہے کہ وہ اپنی شرمساری کے احساسات کو دبا نہ سکے گا اور مایوسی کے عالم میں پکار اٹھے گا، کیا یہی وہ سب کچھ ہے؟‘‘
اور عبدالستار ایدھی نے خدا کے اس نظام کی ابدیت کو پہچان لیا تھا، وہ پہلی ساعت ہی شرمساری کے اس حصار سے نکل گئے،
انہوں نے ابدیت کا لباس پہن لیا،
انسانیت کی خدمت کی!
تازہ ترین