• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
انسان پانے کے خمار اور کھونے کے آزار سے بے نیاز ہو جائے تو نہ صرف اندھے راستے پُرنور ہو جائیں بلکہ سب مشکلیں کافور ہو جائیں مگر بُرا ہو اس ہوس کا جو بڑھتی ہی چلی جاتی ہے اور شوق کمال کی آرزو پوری ہو بھی جائے تو خوف زوال کا اندیشہ مضطرب کئے رکھتا ہے۔جدید سائنسی تحقیق کے مطابق جب کسی شے کو جمع کرنے کا شوق خبط کی شکل اختیار کر لے تو وہ مشغلہ نہیں رہتا بلکہ نفسیاتی بیماری میں تبدیل ہو جاتا ہے۔یہ ہوس کس قدر ظالم اور بے رحم ہوتی ہے،اس کا اندازہ گزشتہ دنوں ایک برطانوی اخبار کی خبر پڑھ کر ہوا۔ ایک خاتون جس پر اخبارات جمع کرنے کی دُھن سوار تھی،وہ ایک دن بے ترتیب کاغذات کے نیچے دب کر ہلاک ہو گئی اور جب اس کی لاش نکالنے کے لئے گھر کا دروازہ توڑا گیا تو معلوم ہوا کہ اس کے گھر میں کچن سے واش روم اور خواب گاہ تک کوئی ایک انچ جگہ بھی ایسی نہ تھی جہاں اخبارات کا ڈھیر موجود نہ ہو۔سائنسی اصطلاح میں اس خبط کو Compulsive hoarding Syndrome کہتے ہیں ۔اس نفسیاتی اُلجھن کا شکار شخص ایک یا ایک سے زائد اشیاء جمع کرنے کے جنون میں مبتلا ہو سکتا ہے۔مثلاً گزشتہ برس میٹرو پولیٹن پولیس ٹوکیو نے ایک ایسے شخص کو گرفتار کیا جسے خواتین کے استعمال شدہ سینڈل چرانے کی علت تھی اور وہ اب تک 448 جوتے چُرا چکا تھا۔امریکی ریاست Colorado میں ایک ہورڈر کی نشاندہی ہوئی جس نے 450پرندے قید کر رکھے تھے،اس میں سے 325پرندے زندہ تھے اور125 مرچکے تھے مگر وہ شخص تعفن کے باوجود ان مرے ہوئے پرندوں کو پھینکنے پر آمادہ نہ تھا۔ کیلیفورنیا سے ایک خاتون کو حراست میں لیا گیا جس نے اپنے چھوٹے سے فلیٹ میں 290 بلیاں رکھی ہوئی تھیں۔ کئی ایسے افراد کا سراغ لگایا گیا جنہیں ٹائیاں جمع کرنے کا خبط تھا۔بعض ایسے ہورڈر ہیں جو بلا ضرورت کتابوں کا ڈھیر لگاتے چلے جاتے ہیں۔مشغلے کے طور پر چیزیں جمع کرنے والے اور بیماری کے تحت ڈھیر لگانے والوں میں فرق مقصدیت اور طریقہ کار کا ہے۔ایک نارمل انسان گاہے گاہے اپنی جمع کی گئی اشیاء کا جائزہ لیتا ہے،بیکار اور فالتو اشیاکو پھینک دیا جاتا ہے اور ضروری چیزیں سلیقے ،قرینے اور ترتیب کے ساتھ رکھ لی جاتی ہیں یا پھر دان کر دیا جاتا ہے مگر ہورڈنگ سینڈروم کا شکار افراد بے ہنگم انداز میں سوچے سمجھے بغیر چیزیں جمع کرتے چلے جاتے ہیں اور اپنی جمع کی گئی اشیاء میں سے کوئی ایک شے بھی کسی قیمت پر تلف کرنے کو تیار نہیں ہوتے۔ بعض ماہرین کا خیال ہے کہ یہ نفسیاتی بیماری کسی احساس کمتری یا احساس محرومی کے سائے میں پرورش پاتی ہے اور انسان اپنی ناآسودہ خواہشات کی تکمیل کے لئے ان اشیاء کو جمع کرنے میں لگ جاتا ہے۔ یورپی معاشرے میں یہ صورتحال اس قدر گمبھیر ہے کہ وہاں نارمل افراد بھی ہورڈنگ سینڈروم سے بچنے کے لئے Clutters کی خدمات حاصل کرتے ہیں۔ کلٹرز وہ ماہرین ہوتے ہیں جو آپ کی بے ترتیب اور بے تحاشا کولیکشن کا جائزہ لیکر یہ بتاتے ہیں کہ ان میں سے کونسی اشیاء کو ڈسٹ بن میں ڈال دیا جائے اور کون سی چیزوں کو سنبھال کر رکھا جائے۔ کلٹرنگ اچھا خاصا کاروبار ہے اور ایک پیشہ ور کلٹر اپنی ماہرانہ رائے کے عوض کم از کم 200ڈالر فی گھنٹہ معاوضہ وصول کرتا ہے۔اس طرح کی سہولت دستیاب ہونے کے باوجود ان متمدن اور ترقی یافتہ معاشروں میں ہورڈنگ سینڈروم نامی نفسیاتی مرض بہت تیزی سے بڑھ رہا ہے۔امریکہ میں ایسے خبطی افراد کی تعداد 20لاکھ بتائی جاتی ہے جبکہ برطانیہ کے سرکاری اعداد و شمار کے مطابق وہاں ہورڈنگ سینڈروم میں مبتلا افراد کی تعداد 30 لاکھ سے زائد ہے۔
جب ہم اس طرح کی خبریں سنتے ہیں تو فوراً سر دھنتے ہیں اور نہایت تندہی سے مغربی تہذیب کے عیب چنتے ہوئے اپنی کامیابی کے خواب بنتے ہیں۔ میں خود تہذیب مشرق کا ثناء خوان ہوں اور اپنی اقدار و روایات کو سرمایہ افتخار سمجھتا ہوں مگر مغرب کی گوشمالی کرنے سے پہلے ہم اپنی بدحالی کے اسباب بھی معلوم کر لینے چاہیں ،ان کے زوال پر شادیانے بجانے کے بجائے اپنی پستی پر شرمانے اور غیرت کھانے کا اہتمام کر لیں تو یہ ٹوٹا ہوا تارا پھر سے مۂ کامل بن سکتا ہے۔ان کے ہاں تو جوتیاں ،ٹائیاں ،کتابیں،اخبار،پرندے،بلیاں اور کتے جمع کرنے کا خبط ہے،ہمارے ہاں تو قارون بننے کا جنون ہے،دَھن سمیٹنے کی دُھن ہے،ڈالر جمع کرنے کا خبط ہے اور وہاں تو چند لاکھ افراد ابنارمل ہیں ،یہاں تو اس ’’شمع فروزاں ‘‘کے دیوانے ہزاروں اور لاکھوں نہیں ،کروڑوں ہیں۔ اقتدار کے رسیا اوردولت کے پجاریوں کی فہرست بنانے بیٹھیں تو حساب کتاب تتر بتر ہو جائے۔
ان خبطیوں کی فہرست میں صرف حکام نہیں، عوام بھی شامل ہیں۔ کیا وہ سیٹھ ہورڈنگ سینڈروم کا شکار نہیں جن کے بنک اکائونٹس میں پڑی رقوم کا کوئی شمار نہیں،جائز ناجائز طریقے سے کمائی دولت کا یہ عالم ہے کہ کئی نسلیں بیٹھ کر کھا سکتی ہیں مگر پھر بھی ڈرائیور ،خانساماں،مالی اور چوکیدار کی تنخواہ دیتے ہوئے دل دھک دھک کرتا ہے،اپنے دفتر کے ملازمین کے مشاہرے میں اضافہ کرنے سے گھبراتے ہیں؟کیا میری وہ بہنیں اسی قسم کے نفسیاتی مرض میں مبتلا نہیں جن کی وارڈ روب میں اس قدر سوٹ اور جوتے ہیں کہ روزانہ بھی نیا لباس پہنیں تو کئی ماہ تک دوبارہ پہننے کی نوبت نہ آئے مگر گھر میں کام کرنے والی ماسی کو کچھ دان کرنا ہو تو ہاتھوں میں لغزش محسوس ہوتی ہے؟ کیا وہ لوگ اسی نوعیت کے نفسیاتی مریض نہیں ،جن کے فریج میں پڑے فروٹ گل سڑ جاتے ہیں،کچن میں موجود غذائی اجناس ضائع ہو جاتی ہیں مگر ضرورت سے زائد اشیاء کسی غریب کے گھر بھجوانے کو دل نہیں کرتا؟ کیا وہ اصحاب علم و عرفاں ہورڈر نہیں جو اپنا فیض عام کرنے اور علم تقسیم کرنے کو تیار نہیں؟
یونیورسٹی آف کیلی فورنیا میں ہورڈنگ سینڈروم سے متعلق تحقیق کے لئے ایک ڈیپارٹمنٹ قائم کیا گیا ہے جس کی سربراہ Sanjaya Saxentہیں۔انہوں نے ایسے مریضوں پر تحقیق کے لئے اپنی زندگی کے کئی سال وقف کئے ہیں۔جب ان سے پوچھا گیا کہ لوگ اس نفسیاتی عارضے کا شکار کیوں ہوتے ہیں اور کیا اس کا علاج ممکن نہیں،تو انہوں نے بتایا کہ یہ رویہ احساس محرومی کے نتیجے میں پنپتا ہے۔ چونکہ ہورڈنگ سینڈروم میں مبتلا افراد سے سب دور بھاگتے ہیں اس لئے احساس محرومی بڑھتا جاتاہے اور ان کا علاج نہیں ہو پاتا۔ ڈاکٹر سنجایا سیکشنٹ کی ماہرانہ رائے پر غور کریں تو پاکستان سے اس بدنظمی کو ختم کرنے کا ایک ہی طریقہ ہے۔ اگر آپ کسی شے کو جمع کرنے کے جنون میں ہیں تو اپنی اس کمزوری پر قابو پائیں تاکہ احساس محرومی کے نتیجے میں مزید ہورڈرز پیدا نہ ہوں اور اگر آپ نارمل ہیں،اس ڈس آرڈر میں مبتلا نہیں تو ان ہورڈرز سے نفرت نہ کریں کیونکہ یہ لوگ نفرت نہیں ہمدردی اور پیار کے مستحق ہیں۔یہ جو ہمارے ہاں ہر شے کی قلت ہے تو اس کی وجہ یہی ہورڈنگ کی علت ہے۔ جس دن جمع کرنے کی یہ ہوس ختم ہو گئی ،اس دن ڈالر کا ریٹ نیچے لانے کے لئے کسی سے خیرات لینے کی ضرورت پڑے گی نہ آٹے، چینی، بجلی سمیت کسی شے کا بحران ہو گا۔
تازہ ترین