• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ایک مدت بعد عظیم شاعر باقی صدیقی کی طرح چھوٹی بحر میں نہایت پُرتاثیر غزلیں پڑھنے کا موقع ملا۔ جناب کرامت جعفری کا ’’جزیرۂ خواب‘‘ اُن کا چھٹا شعری مجموعہ ہے جس میں ہمارے حالات کی عکاسی ایک منفرد انداز میں کی گئی ہے۔ میں اُن کا حرفِ آغاز پڑھتا اور اپنا دامن گوہرِ معانی سے بھرتا رہا۔ وہ لکھتے ہیں ’’اُردو لکھنے، پڑھنے ، بولنے اور سننے والے میری قوت ہیں ، یونیسکو کی رپورٹ کے مطابق اُردو اِس وقت دنیا کی دوسری بڑی بولی (spoken)اور تیسری بڑی لکھی (written)جانے والی زبان ہے۔ اتنی بڑی زبان سے منسلک رہنے والا تخلیق کار اکیلا کیسے ہو سکتا ہے اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ بعض پیشوں کو اختیار نہ کرنے پر آپ کو اختیار نہیں ہوتا۔ اگرچہ لکھنا میرا پیشہ نہیں اور نہ ہی عادت ، یہ میری سرشت میں شامل ہے۔۔۔ غصہ ، غیبت ، حرص ، لالچ ، نفرت ، حسد ، عداوت، حُبِ مال، طلبِ جاہ ومنصب یہ روحانی بیماریاں ہیں ،اُن کا علاج صرف اور صرف صوفی کے پاس ہے اور صوفی اِس کی اصلاح شاعری سے کرتا ہے ۔شاعری سے مؤثر ذریعۂ اظہار اب تک وجود میں نہ آ سکا۔ صرف غزل ایسی صنف ِسخن ہے جس میں ہمہ وقت الاؤ دہکتا رہتا ہے‘‘۔
جزیرۂ خواب کا ہر ورق دامنِ دل اپنی طرف کھینچتا ہے اور ایسے اشعار کی تعداد بہت زیادہ ہے جو سازِ دل پر مضراب کا کام کرتے ہیں اور ہمارے اردگرد ماحول کو بہت گہرا کر دیتے ہیں۔ منتخب اشعار سے آپ بھی لطف اُٹھائیے۔
سرابوں کا سہارا مل گیا ہے
خسارے میں خسارہ مل گیا ہے
کہیں کھویا نہیں غم کا خزانہ
مجھے سارے کا سارا مل گیا ہے
اے ربِ سخن حرف کو تاثیر عطا کر
تاثیر کو پھر عزت و توقیر عطا کر
ظلمت ہے بہت تیرہ و تاریک فضا ہے
تنہائی کے لمحات کو تنویر عطا کر
آنکھوں کی بصارت میں بصیرت کا ہو جلوہ
ہر خواب کو خوش رنگ سی تعبیر عطا کر
دنیا سے کروں خواہشِ خلعت نہ کبھی میں
عاشق ہوں مجھے عشق کی پوشاک عطا کر
یہ پانی میری آنکھوں کے وضو کا
نہ بن جائے کہیں قطرہ لہو کا
ستم ایجاد ہوتا جا رہا ہے
یہ گھر برباد ہوتا جا رہا ہے
گماں کی زد پہ آ پہنچی ہے بستی
یقین الحاد ہوتا جا رہا ہے
گھروں میں گھر گئے ہیں گھر کے باسی
سکوں برباد ہوتا جا رہا ہے
مجھے لگتا ہے تندو تیز آندھی
مرے گھر کو گرا دینے لگی ہے
اِک ستارا سفر کے ساحل پر
روز کرتا ہے انتظار مرا
تمہاری یاد کا لے کر سہارا
تمہی کو بھول جانا چاہتا ہوں
ہر اِک دل کا غم ہے مرے دل کا غم
ہر اِک دل پہ ہے حکمرانی مری
زخم کھا کر جو دعا کرتے تھے
ایسے بھی لوگ ہوا کرتے تھے
سب کو آسانیاں دے کر پھر بھی
خود وہ مشکل میں رہا کرتے تھے
ہاں وہی چاک گریباں والے
ہاں وہی لوگ وفا کرتے تھے
چلے آو کہ گھر کے راستے کو
مثالِ کہکشاں رکھا ہوا ہے
آسانی بھی مجھ کو مشکل جیسی ہے
مشکل ہے اِس مشکل کا بتلانا بھی
وہ جو تنہائی میں تنہا کر دیں
ایسے لمحات سے ڈر لگتا ہے
قدروں کی ناقدری ہو
اتنا بھی آزاد نہ بن
دل کی باتیں دل سے کہہ کر
عقل کو عقل کی بات سکھاؤ
جو راہِ حق کا جوئندہ رہے گا
وہ مر کے بھی یہاں زندہ رہے گا
فنا ہو جائیں گے ظلمت کے دھارے
فقط اِک عہدِ آیندہ رہے گا
حفاظت جن کی ، کی ہے آندھیوں نے
وہ نقشِ پا ہی پائندہ رہے گا
دیر تک دو کہیں
رویا کوئی مجبور کہیں
دب گیا بوجھ تلے
ایک مزدور کہیں
خود سے انجان ہو گیا ہوں میں
کیسا انسان ہو گیا ہوں میں
کب سے رکھا ہوا ہوں کمرے میں
گھر کا سامان ہو گیا ہوں میں
ستم دیکھیے گا کہ آ کر مجھی کو
مرا ہی فسانہ سناتی ہے دنیا
جنوں کی پُر فضا وادی میں آ کر
خرد مندوں سے وحشت ہو گئی ہے
تصور سے ہٹ کر زمانے سے بچ کر
ترے پاس آنے کو جی چاہتا ہے
یہ ہولناک اندھیرا یہ گہرا سناٹا
تمام گھر کے دریچوں میں پل رہا ہے دکھ
کام کرنے آئے تھے
کام ہی نہ کر پائے
دل سے شامل نہ ہو اگر راہی
کارواں کارواں نہیں ہوتا
کتنا گہرا ہے زیست کا دریا
اِس کے پاتال میں اُترنا ہے
آج خلوت میں خدا یاد آیا
پھر مجھے حرفِ دعا یاد آیا
جب کہیں پھول مہکتے دیکھے
پھر ترا بند قبا یاد آیا
یاد آئی تیرے چہرے کی چمک
ظلمتِ شب میں دیا یاد آیا
پیاس میں جب ہوئی پانی کی طلب
واقعۂ کرب و بلا یاد آیا
لپٹ کر روئے تھے دیوار و در سے
نکالے جب گئے تھے اپنے گھر سے
صدا آئی یہ سناٹے میں کیسی
کوئی آنسو گرا ہے چشمِ تر سے
کدھر چلے ہیں کہاں جا رہے ہیں کیا معلوم
نہ کوئی راہنما ہے نہ مدعا معلوم
ہوا خلافِ سمندر مہیب طوفاں سخت
شکستہ کشتی و توفیقِ ناخدا معلوم
وہ مرے ہم رکاب ہو کر بھی
ایسے لگتا ہے ہم رکاب نہیں
اب کے برس تبدیلی موسم نے سب کچھ تبدیل کیا
سیرت بدلی صورت بدلی ،صورت گر بھی بدلے
دشمن و دوست کی تخصیص نہ تھی
وقتِ رحلت ہمیں سب یاد آئے
گزشتہ جمعے کی بات ہے کہ میں صبح دم ’’جزیرۂ خواب‘‘ سے لطف اُٹھا رہا تھا کہ اخبارات آ گئے اور میری نظر روزنامہ جنگ میں جناب جبار مرزا کے کالم ’’ذہنوں کی قحط سالی‘‘ پر جا کر ٹھہر گئی اور اُسے پڑھ کر میرے ہاتھ سے اخبار نیچے گر پڑا۔ اِس میں جناب کرامت حسین بخاری کی بپتا درج تھی جو آڈٹ اینڈ اکاؤنٹس میں ڈائریکٹر جنرل ہیں، مگر اُن پر ترقی کے دروازے بند چلے آ رہے ہیں اور اُنہیں ایک سال میں سات بار تبدیل کیا گیا ہے۔ وہ اپنے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کے خلاف لاہور ہائی کورٹ کے ملتان بینچ میں گئے جہاں سے انصاف ملا ،مگر محکمے نے اِس کے احکام پر عمل درآمد نہیں کیا اور اُن کی تنخواہ بھی روک دی۔ بخاری صاحب نے رمضان کے مہینے میں اسلام آباد ہائی کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا ، وہاں سے تنخواہوں کی ادائیگی کے احکام صادر ہوئے جن پر آڈیٹرجنرل کے دفتر سے بہ امر مجبوری عمل کیا ، مگر ترقی کا عمل روک دیا۔ میں ایک طرف اُن کی بپتا پڑھ رہا تھا اور دوسری طرف اُن کے اعلیٰ و ارفع اور پاکیزہ خیالات کی خوشبو سونگھ رہا تھا جو جزیرۂ خواب سے مہک رہی تھی۔ میں اُنہیں دو عشروں سے جانتا ہوں اور اُن کی دیانت اور فرض شناسی کی شہرت دور دور تک پھیلی ہوئی ہے۔ میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ ہمارا ملک جس میں نظم و نسق بھی قائم ہے ، عدالتیں بھی کام کر رہی ہیں ، خیر سے وزیراعظم اور صدرِمملکت کے منصب بھی موجود ہیں ،تو بے انصافی کے ایسے روح فرسا واقعات کیسے وقوع پذیر ہو رہے ہیں۔ کیا آڈیٹر جنرل جن کا حلف لینے سے پاکستان کے چیف جسٹس جناب افتخار محمد چوہدری نے انکار کر دیا تھا، اُن کی بازپرس کا کوئی آئینی راستہ موجود نہیں؟ یہ اِس قدر اندھیر نگری کیوں ہے؟ مجھے یقین ہے کہ جناب وزیراعظم نوازشریف اپنی بے پناہ مصروفیتوں میں سے وقت نکال کر جناب کرامت بخاری کے زخموں پر مرہم رکھنے کے ساتھ ساتھ اذیت پہنچانے والوں کا کڑا محاسبہ بھی کریں گے اور اہل اور فرض شناس افسروں کو مکمل تحفظ دیں گے۔ ہمیں خوش فہمیوں کے سرابوں سے باہر آنا اور یہ تاثر قائم کرنا ہو گاکہ پاکستان میں باضمیر اور دانش مند اعلیٰ افسروں کی قدر کی جاتی ہے۔
تازہ ترین