• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
یہ کوئی چالیس برس یا اس سے بھی پہلے کی بات ہے، میں سیالکوٹ گئی۔ کچھ مقامی دوستوں کے ساتھ علامہ اقبال کا گھر تلاش کرتی ہوئی، اندرون شہر گئی۔ ملبے کی صورت میں ایک عمارت تھی۔ جس کی سمت اشارہ کرکے بتایا گیا کہ یہاں علامہ اقبال پیدا ہوئے تھے۔ کچھ ملال ہوا کہ اتنے بڑے شاعر کے مقام پیدائش کو کس عالم میں رکھا گیا ہے۔ اس وقت اس بلڈنگ کا نہ کوئی ولی نہ وارث تھا۔ افسوس کرتی ہوئی واپس آئی۔ ابھی تک وہی منظر میرے ذہن میں تھا۔ اس دفعہ گجرات یونیورسٹی کے سیالکوٹ کیمپس میں ڈاکٹر انوار احمد نے خواتین کے عالمی دن کے حوالے سے طالبات اور طالب علموں سے بات چیت کرنے کو بلا لیا۔ نشست ختم ہوئی تو ڈاکٹر انوار نے کہا کہ علامہ اقبال کا گھر دیکھنا ہے۔ میں نے منع کرتے ہوئے کہا کہ مجھے ڈپریشن نہیں کرنا، مجھے وہ ٹوٹا پھوٹا گھر نہیں دیکھنا۔ ڈاکٹر انوار نے ہنستے ہوئے کہا ’’آپ کو کس نے کہا وہ ٹوٹا پھوٹا گھر ہے، آپ نے کب دیکھا تھا‘‘۔ میں نے کہا کوئی چالیس، پینتالیس سال پہلے، کہا ’’اب دیکھیں تین منزلہ ریڈ برک گھر اتنا خوبصورت ہے‘‘۔میرے ساتھ ڈاکٹر فاطمہ حسن اور ڈاکٹر ستیہ پال آنند بھی تھے۔ ڈاکٹر انوار کی وضاحت سن کر، سب تیار ہوگئے۔ ڈاکٹر انوار نے وارننگ دی کہ چونکہ یہ گھر اندرون شہر ہے، پیدل چلنا پڑے گا۔ ہم سب بخوشی تیار ہوگئے۔ راستہ بالکل اندرون لاہور جیسا۔ بیچ کی مختصر جگہ پر جان بچا کر خواتین و حضرات چل رہے تھے کہ ہمارے بچے بہت تیز موٹر سائیکل چلاتے ہوئے دائیں سے بائیں اور بائیں سے دائیں نکل رہے تھے۔ ادھر ادھر کچوریوں، سموسوں اور گول گپوں کی دکانیں۔ علامہ اقبال کا گھر آیا تو میرا منہ حیرت سے کھلے کا کھلا رہ گیا۔ تین منزلہ سرخ رنگ کی عمدہ عمارت، اتفاق سے ہم لوگ بدھ کو گئے اور بدھ کو وہ عمارت بند ہوتی ہے۔ ہمیں خالی کمروں کی عمارت دیکھنے کا شوق بھی نہ تھا۔ باہر سے دیکھ کر ہی سیر ہو گئے اس عمارت کی اوپر کی منزل پر، ناظم عمارت کا گھر تھا اور باقی عمارت عوام کے دیکھنے کے لئے کھلی رہتی ہے۔ ہم چونکہ باہر سے ہی دیکھ کر خوش ہوگئے تھے واپس لوٹنے لگے تو ڈاکٹر انوار نے بتایا کہ کسی بزرگ نے بتایا تھا کہ قریبی قبرستان میں علامہ کے والدین کی قبریں ہیں مگر ہزار تلاش کے باوجود صحیح پتہ نہ چل سکا۔
یونیورسٹی کیمپس سیالکوٹ، ہر چند چھوٹی عمارت میں ہے مگر نوجوانوں کے جذبہ شوق کو دیکھ کر اور اساتذہ کی لگن سمجھا رہی تھی کہ یہ عمارت بہت جلد وسعت اختیار کرے گی۔ اساتذہ سے فرداً فرداً ملاقات کی تو پتہ چلا کہ کسی نے کنیرڈ سے انگلش میں ایم فل کیا ہے تو کسی نے ماس کمیونی کیشن میں۔ تمام استاد لڑکیاں بہت شوق سے کام کررہی ہیں اور جیسا کہ ڈاکٹر انوار نے وضاحت کی کہ بہت جلد وسیع عمارت تعمیر ہوجائے گی جہاں دیگر مضامین کے سیکشن کھولے جائیں گے اور کمپیوٹر سائنس کا مکمل سیکشن اسی عمارت میں وسعت کے ساتھ کام کرتا رہے گا۔
ویسے تو مختلف یونیورسٹیوں کے اساتذہ سے ملاقات ہوتی رہتی ہے مگر سیالکوٹ کیمپس کی نوجوان خواتین نے تو محمد حنیف، مسعود حامد، کاملہ شمسی اور ندیم اسلم سب کو ہی پڑھا ہوا تھا۔ مجھ سے باقاعدہ بحث کی اور تمام لکھنے والوں کا تجزیہ بھی پیش کیا۔ اسی طرح پروفیسر حضرات، انیسویں اور بیسویں صدی کے لکھنے والوں کا تجزیہ کر رہے تھے۔ کوئی تکلف نہیں تھا کہ عورت الگ اور مرد الگ خانوں میں تقسیم ہوں۔ بہت اچھا لگ رہا تھا کہ سارے پروفیسر اپنے اپنے گھروں سے ایک ایک ڈش بنا کر لائے تھے، جسے سب نے مزے لے کر کھایا۔
واپس یہ مولانا ظفرعلی خاں کی قبر پہ فاتحہ پڑھتے ہوئے میں سوچ رہی تھی کہ کتنے عظیم صحافی تھے جو انگریز سامراج کے خلاف نہ صرف لڑے بلکہ ہندوستان کے مسلمانوں کو سکھایا کہ کس طرح وطن پرستی کے جذبے کو فروغ دیا جاسکتا ہے۔ پھر سوچا کہ ہمارے نصاب میں بچوں کو تو مولانا محمد علی جوہر اور مولانا ظفر علی خاں کے بارے میں پڑھایا ہی نہیں جاتا ہے۔ تمام اساتذہ کو بھی شکایت تھی کہ تحریک پاکستان کے حوالے سے انگریزوں کے خلاف تحریک کے بارے میں کم اور ہندو دشمن کے بارے میں زیادہ سکھایا جاتا ہے۔ اب جبکہ ہندوستان والے پاکستان آئیں اور پاکستانی وہاں جائیں تو ایک جیسی زبانیں بولتے دیکھتے اور ہاتھ سے دال چاول کھاتے دیکھ کر یہ حیرانی ہوتی ہے کہ اتنے سارے معاشرتی عوامل ملتے ہیں تو پھر یہ ایک دوسرے سے نفرت کا سبق کیوں سکھایا جاتا ہے۔
گجرات یونیورسٹی کے کیمپس یوں پھیلتے ہوئے دیکھ کر یہ اچھا لگتا ہے کہ سرکاری سطح پر نہیں تو پرائیویٹ سطح پر نئے زاویوں سے تعلیمی میدان میں وسعت کے نئے نقشے نظر آرہے ہیں۔ پورے شہر سیالکوٹ میں چنگچی بہت تھیں، رکشہ بھی تھے مگر ٹیکسیوں کا نام و نشان بھی نہیں تھا۔ خیر سے امیر لوگوں کے شہر میں کسی چوک میں ٹریفک لائٹ نہیں تھی کہ جب اور جس جگہ وہ لوگ چاہیں سڑک کو گودام کی طرح استعمال کرلیں۔ سڑکیں بہرحال صاف ہیں۔ اسلام آباد کی طرح فٹ پاتھ کو بھی دکان بنانے کا طریقہ نہیں ہے۔ ایک زمانہ تھا کہ سیالکوٹ کو فٹ بال بنانے کے حوالے سے دنیا بھر میں بہت بڑا مرکز سمجھا جاتا تھا۔ جس دن بچوں سے مشقت لینے کے قانون پر عملدرآمد شروع ہوا اسی دن سے سیالکوٹ کے افق پر بادل چھا گئے۔ آج بھی چھریاں چاقو سے لے کر، کھلاڑیوں کی یونیفارم اور کٹ بنانے کے لئے کسی ملک کو ضرورت ہو تو رخ، سیالکوٹ ہی کی طرف کرتا ہے۔ ایک زمانے میں پریس کلب سیالکوٹ بہت آباد ہوا کرتا تھا۔ اب تو سنا یہ ہے کہ آپس کی گروہ بندیوں کے باعث وہ لطف دوستاں ہی نہیں رہا۔ اسی طرح سیالکوٹ سے کئی اخبار نکلا کرتے تھے۔ اب نامہ نگار بہت ہیں وہ بھی میڈیا چینل کے۔ سیالکوٹ جاکر مجھے خالد حسن بہت یاد آیا۔ اس نے تو سیالکوٹ پر اپنی کتاب کا پورا ایک باب لکھا تھا۔ نورجہاں اس کو منڈا سیالکوٹیا ہی کہتی تھیں۔ سیالکوٹ سے لے کر اسلام آباد تک، جگہ جگہ کینوئوں کی ڈھیریاں لگی ہوئی تھیں۔ کسی کولڈ اسٹوریج میں رکھ لیں تو یہ ہزاروں کینو خراب ہونے سے بچ جائیں گے۔
تازہ ترین