• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
مغربی میڈیا میں آج کل یہ سوال اٹھایا جارہا ہے کہ امریکہ کو نام نہاد دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ میں کیوں ناکامی ہوئی؟نائن الیون کے بعد بارہ برس گزرچکے ہیں۔امریکہ اور یورپی ممالک اس عالمی جنگ میں اپنے مقاصد حاصل کرنے میں ناکام رہے ہیں؟سوالیہ نشان یہ ہے کہ یہ عالمی جنگ کونسی ’’دہشت گردی‘‘ کیخلاف تھی یا پھر مسلمانوں کیخلاف محاذ جنگ کھولا گیا؟اس میں دومسلمان ممالک افغانستان اور عراق کو آخر کیوں نشانہ بنایا گیا؟شمالی کوریاسے امریکہ نے ’’یوٹرن‘‘کیوں لیا؟اس جنگ کا مقصد اگر مسلمانوں کاوسیع پیمانے پر قتل عام تھا تو یہ مقصد ضرور پورا ہوا ہے لیکن اگرامریکہ اور یورپی ممالک میں بڑھتی ہوئی اسلامی بیداری کو روکنا مشن تھا تو یقیناً امریکہ و نیٹوممالک کو اپنی تمام تر جارحیت کے باوجود اس میں سخت ناکامی کامنہ دیکھنا پڑا ہے۔ اس تناظر میں پاکستان کی سول اور فوجی قیادت کی افہام وتفہیم سے معاملات کوحل کرنے کی حکمت عملی خاصی مفید اور کارگرثابت ہو رہی ہے۔ پاکستان کو اس وقت قومی سلامتی کی سنگین صورتحال کا معاملہ درپیش ہے۔ اسلام آباد میں وزیراعظم نوازشریف کی زیرصدارت قومی داخلی سلامتی کے اجلاس میں ایک بار پھر طالبان سے مذاکرات میں ہونے والی پیشرفت پر اطمینان کا اظہار خوش آئندہے۔ سول اور عسکری قیادت کے اعلیٰ سطحی اجلاس میں اس عزم کا اعادہ کیا گیا کہ ملک کی معاشی ترقی امن واستحکام کے ساتھ جڑی ہے اور وفاقی وصوبائی حکومتیں اور تمام ادارے ملک کی داخلہ وخارجہ سلامتی کو یقینی بنانے کیلئے اپنا کردار ادا کریں گے۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ اس اہم اجلاس میں عسکری قیادت اور چاروں صوبائی حکومتوں نے بھی طالبان سے مذاکرات کی پالیسی کو تسلی بخش قرار دیا۔ سول اور فوجی قیادت کا ایک پیج پر ہونا مذاکرات کی کامیابی کیلئے ناگزیر ہے۔ واقفان حال کا کہنا ہے کہ پاکستان کی سول اور فوجی قیادت نے شمالی وزیرستان میں فوجی آپریشن کیلئے فی الحال امریکی دبائو کومسترد کردیا ہے۔عمران خان سے ملاقات کیلئے وزیر اعظم نوازشریف کاخود چل کر ان کے گھر جانا بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ہمارے سول اور عسکری حلقوں کو اس ’’خطرناک کھیل‘‘کا اندازہ ہوگیا ہے کہ قبائلی علاقوں میں فوجی آپریشن سعی لاحاصل ہے۔ملک دشمن بیرونی قوتوں کو اس سے فائدہ پہنچے گا۔ملٹری آپریشن کے نتیجے میں پاکستان مزید عدم استحکام کاشکار ہو گا لہٰذا یہ حکمت عملی طے کی گئی ہے کہ حتی المقدور آپریشن سے گریز کر کے مذاکرات کے ذریعے معاملات کو نمٹایا جائے۔ پاکستان میں امن وامان کا قیام ہو گا تو دوسرے مسائل بھی بحسن خوبی حل ہو سکیں گے۔ میں نے اپنے گزشتہ کالم میں اس جانب توجہ دلائی تھی کہ تھر کے صحرانشینوں کے بعد چولستان کے باسیوں کوبھی خشک سالی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ ایسی ہی اطلاعات چولستان سے مسلسل آ رہی ہیں۔ سندھ حکومت کی نااہلی کی تقلید کرتے ہوئے پنجاب حکومت بھی اس صورتحال سے بے خبر رہی۔اب وزیراعلیٰ پنجاب نے چولستان میں خشک سالی کا نوٹس لے لیا ہے اور اس حوالے سے ایک جائزہ کمیٹی بھی بنادی ہے۔اب دیکھنایہ ہے کہ حکومت پنجاب چولستان کے لوگوں کو قحط سے بچانے کیلئے فوری اقدامات کرتی ہے یا پھر زبانی جمع خرچ سے کام لیتی ہے؟طالبان مذاکراتی کمیٹی کے رکن پروفیسر ابراہیم نے میڈیا کوبتایا کہ حکومت کے زیر حراست تین سو عورتوں، بچوں اور عمررسیدہ افراد کی فہرست وزیر داخلہ چوہدری نثار کو دے دی گئی ہے۔پروفیسر ابراہیم کا کہنا تھا کہ وزیراعظم اور وفاقی وزیرداخلہ مذاکرات میں مخلص نظر آتے ہیں اور وہ اس بارے میں اہم اور مثبت کردار ادا کر رہے ہیں۔ حکومت اور طالبان کے مطالبات پر فریقین کو سنجیدگی سے غور کرنا چاہئے۔ بوڑھوں، عورتوں اور بچوں کی رہائی کامطالبہ معقول ہے۔ حکومت کو انسانی بنیادوں پر اس مطالبے کو پورا کرنا چاہئے۔دونوں اطراف سے تحویل میں لئے گئے افراد کوچھوڑنے سے مذاکراتی عمل کامیابی کی طرف بڑھے گا۔ امیدافزاء پہلو یہ ہے کہ حکومت اور طالبان دونوں کی طرف سے مثبت اشارے مل رہے ہیں۔ دوطرفہ سیزفائر کی مدت بڑھنے کاقوی امکان موجود ہے۔اس اہم فیصلہ کن مرحلہ میں سول وعسکری قیادت کو چوکنا اور محتاط ہونا پڑے گا کہ کوئی’’تیسری قوت‘‘ موقع سے فائدہ نہ اٹھانے پائے۔ ڈائیلاگ میں کامیابی کاجوعمل آگے بڑھ رہا ہے کہیں کسی بے تدبیری کے نتیجے میں رک نہ جائے۔ دہشت گردی کیا ہے؟ پاکستان میں دہشت گردی کے اسباب و عوامل کیا ہیں؟ کراچی اور بلوچستان میں ہونے والی وارداتوں کو کیا خیبرپختونخوا سے جوڑا جا سکتا ہے؟ یہ سب ایسے سوالات ہیں جن کا جواب تلاش کئے بغیر پاکستان میں حقیقی امن کا قیام ممکن نہیں۔ہمارے بعض سکّہ بند دانشوروں اور اینکرز کا یہ حال ہے کہ وہ دہشت گردی کی من مانی تعریف کر کے ’’سادہ لوح‘‘ عوام کو بیوقوف بناتے رہتے ہیں۔ انہیں امریکی دہشت گردی تونظر نہیں آتی بلکہ پاکستان میں ہونے والے ہر واقعے میں طالبان کاہاتھ ضروردکھائی دیتا ہے۔ امریکہ نے اپنے مفادات کی آڑ میں افغانستان اور عراق پر چڑھائی کی انسانوں کا کھلا قتل عام کیا مگر اس کے بعد بھی اسے عراق سے ناکام ہو کر جانا پڑا ہے۔ افغانستان میں بھی وہ مکافات عمل سے دوچارہے۔مغربی ممالک اگر اپنی انتہاپسندانہ روش اور استعماری عزائم سے باز آجائیں تو دنیا میں امن قائم ہو سکتا ہے۔امریکہ کل تک جن طالبان کو دہشت گردکہتاتھا آج انہی سے مذاکرات کر رہا ہے۔ امریکہ خود تو افغانستان میں مذاکرات کاراستہ اختیار کئے ہوئے ہے مگر نہ جانے کیوں پاکستان کےساتھ طالبان کے مذاکرات اسے ہضم نہیں ہو پا رہے۔ طالبان اور حکومت کے درمیان دوطرفہ جنگ بندی ایک بڑی اہم پیشرفت ہے۔ مذاکرات مخالف قوتیں جو قبائلی علاقوں میں فوجی آپریشن کی خواہاں تھیں وہ متحیر ہیں؟ یہ لوگ اب سرتوڑ کوششوں میں لگے ہوئے ہیں کہ مذاکرات کی بیل منڈھے نہ چڑھ سکے۔ان کی خواہش ہے کہ پاکستان قبائلی علاقوں میں وہ ریڈلائن بھی کراس کرجائے جو امریکہ کا مذموم ایجنڈا ہے۔جنوبی ایشیاء میں بدامنی اور دہشت گردی کی اصل وجہ امریکہ کاافغانستان میں ہونا ہے۔ امریکہ افغانستان سے نکل جائے گا تو یہ خطہ دوبارہ امن کاگہوارہ بن سکے گا۔ قبائلی علاقوں،خیبرپختونخوا میں حالات کی خرابی افغانستان میں کشیدگی سے منسلک ہے۔بلوچستان اور کراچی میں ہونے والی دہشت گردی کے اسباب اور عوامل کچھ اور ہیں؟کراچی میں بدامنی گزشتہ پچیس سال سے جاری ہیں۔روشنیوں کے شہر کراچی کاامن کس نے تباہ کیا؟سب جانتے ہیں مگر کوئی ان پر ہاتھ نہیں ڈالتا۔ قانون نافذ کرنے والے ادارے اگر بلا سیاسی امتیاز کراچی میں ٹارگٹ کلنگ میں ملوث عناصر پر ہاتھ ڈالیں تو پاکستان کی اقتصادی شہ رگ کراچی کا امن چند دنوں میں بحال ہو سکتا ہے۔ بلوچستان اور کراچی کے حالات میں گہری مماثلت ہے۔بیرونی خفیہ ایجنسیوں نے کراچی اور بلوچستان کو ٹارگٹ بنا رکھا ہے۔امریکہ آج تک نام نہاد نائن الیون کے واقعے کی حقیقت دنیا کے سامنے ثابت نہیں کرسکا۔اس نے سوویت یونین کی طرح افغانستان کاقصد کرکے کھویا ہی کھویا ہے پایا کچھ نہیں ہے۔ دنیا کو امن اور انصاف کادرس دینے والوں سے پوچھنے کی کوئی جسارت نہیں کرتاکہ افغانستان اور عراق میں انسانیت کاقتل عام کیوں کیا گیا؟ امریکہ کواس خون کاحساب ضرور دینا پڑے گا کیونکہ
ظلم پھرظلم ہے بڑھتاہے تومٹ جاتاہے
خون پھرخون ہے ٹپکے گاتوجم جائے گا
ظلم کی بات ہی کیاظلم کی اوقات ہی کیا
ظلم بس ظلم ہے آغاز سے انجام تلک
گزشتہ بارہ سالوں میں امریکی جنگ میں الجھ کرپاکستان نے خاصا جانی اور مالی نقصان برداشت کیا ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں جاری تحریک ازادی کشمیر کو اس سے سب سے زیادہ ’’دھچکا‘‘ پہنچا۔ بھارت ایک لاکھ کشمیری مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلنے کے بعد بھی مقبوضہ کشمیر میں ظلم و تشدد کابازار گرم کئے ہوئے ہے۔کشمیری مسلمان بے یارومددگار امید بھری نظروں سے پاکستان کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ بھارت سے تجارت اور دوستی کی خواہش اچھی مگر یہ بھی خیال رکھنا چاہئے کہ دوطرفہ تعلقات صرف اسی صورت مستحکم ہوتے ہیں جب قومی مفاد پر ضرب نہ پڑے۔ مسئلہ کشمیر ہمارا بنیادی ایشو ہے اسے اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل ہونا چاہئے۔ یاد رکھئے، بھارت سے دوستی مسئلہ کشمیر کو قربان کر دینے کی قیمت پر نہیں ہونی چاہئے۔ بھارت اگر واقعی پاکستان سے دوستانہ تعلقات چاہتا ہے تو وہ سلامتی کونسل کی قرار دادوں کے مطابق مقبوضہ جموں و کشمیر کے عوام کو حق خودارادیت دے اور پاکستان کیخلاف آبی جارحیت کو ختم کرے۔
تازہ ترین