• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
وزیراعظم میاں محمد نوازشریف نے بعض سیاسی حلقوں اور میڈیا میں ہونے والی قیاس آرائیوں اور افواہوں کی نفی کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ سعودی عرب اور بحرین سمیت کسی بھی دوست ملک نے پاکستان سے فوج طلب کی ہے، نہ ہی ہم اپنی فوج بیرون ملک بھیجنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ میانوالی ایئربیس کو ستمبر 1965 کی جنگ کے ہیرو ایم ایم عالم کے نام سے منسوب کرنے کی تقریب سے خطاب اور بعد میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ سعودی عرب کے ولی عہد اور بحرین کے بادشاہ برسوں بعد پاکستان کے دورے پر آئے۔ اس دوران پاکستان کے مفاد میں کئی معاہدوں پر دستخط کئے گئے۔ اس طرح کے دوروں پر بعض دوسرے دوست ملکوں کے سربراہ بھی پاکستان آئیں گے۔ وزیراعظم نے کسی دوست ملک کی مدد کے لئے پاک فوج نہ بھیجنے کی دوٹوک بات کر کے اس ابہام کو دور کر دیا ہے جو ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر مستحکم کرنے کے لئے ڈیڑھ ارب ڈالر کے حصول سے لوگوں کے ذہنوں میں پیدا ہوا تھا اور میڈیا میں اس کے پس پردہ مقاصد کے حوالے سے بحث چھڑ گئی تھی۔ حکومت نے اس وقت ڈالر کی قیمت سو روپے سے نیچے لانے کو اپنا کارنامہ تو قرار دیا مگر یہ نہیں بتایا کہ ڈیڑھ ارب ڈالر آئے کہاں سے؟ لیکن میڈیا نے اپنے ذرائع سے یہ معمہ حل کر لیا اور انکشاف کیا کہ یہ خطیر رقم سعودی عرب نے تحفے کے طور پر پاکستان ڈیویلپمنٹ فنڈ میں جمع کرائی ہے۔ بعد میں حکومت نے بھی اس حقیقت کا اقرار کیا لیکن اس سے ایک اور بحث شروع ہو گئی۔ بعض عرب ممالک چونکہ اس وقت داخلی امن و امان کے حوالے سے عدم استحکام کا شکار ہیں اور بعض آپس کے اختلافات میں الجھے ہوئے ہیں اس لئے مبصرین اور ناقدین نے ان کے معاملات میں پاکستان کی فوجی مداخلت کے حوالے تلاش کرنا شروع کر دیئے۔ وزیراعظم نے واضح الفاظ میں اس تاثر کی تردید کر کے قوم کو قدرے تاخیر سے ہی سہی حقیقی صورت حال سے آگاہ کر دیا ہے۔ مگر بہتر ہوتا کہ یہ تاثر شروع ہی سے پیدا نہ ہونے دیا جاتا ۔معاملات کو اگر شفاف رکھا جائے تو حکومت کے اقدامات کے بارے میں غلط فہمیاں پیدا نہ ہوں۔ وزیراعظم کی وضاحت عالم اسلام کے متعلق پاکستان کی خارجہ پالیسی کے اس بنیادی اصول کی غماز ہے جس کا تعین قائداعظم قائد ملت اور دوسرے بانیان پاکستان نے کیا تھا۔ وہ اصول یہ ہے کہ پاکستان تمام اسلامی ممالک سے دوستی اور تعاون پر مبنی تعلقات استوار کرے اور ان کے باہمی جھگڑوں سے دور رہے۔
اسلامی ممالک کے اپنے اپنے داخلی و خارجی مفادات اور مصلحتیں ہیں۔ بعض ملکوں کی حکومتوں کو مسلح بغاوتوں کا سامنا ہے اور بین الاقوامی قوتیں وہاں کسی نہ کسی فریق کی حمایت میں سرگرم عمل ہیں۔ پاکستان ان کے جھگڑوں کو اخوت اور خیر سگالی کے جذبے سے خود ان کی خواہش پر طے کرانے میں مصالحانہ کردار تو ادا کر سکتا ہے مگر فریق نہیں بن سکتا۔ اگر بنے گا تو خود اپنے لئے مسائل اور مشکلات پیدا کرے گا۔ بانیان پاکستان کی یہی پالیسی تھی اور پاکستان اسی پالیسی پر عمل پیرا ہو کر اسلامی ملکوں میں اتحاد و یک جہتی کے فروغ میں مثبت کردار ادا کر سکتا ہے۔ وزیراعظم نے درست کہا کہ ملک کو اس وقت سنگین چیلنجوں کا سامنا ہے جن سے نمٹنے کے لئے اسے فوری اور سخت فیصلے کرنا ہونگے۔ مسلح افواج کو بہترین آلات حرب و ضرب سے مسلح کر کے ہمہ وقت تیاری کی حالت میں رکھنا حکومت کی اولین ترجیح ہے۔ پاکستان کی فوج ملک کی سلامتی اور یک جہتی کی علامت ہے۔ یہ نہ صرف پاکستان کے دفاع کی ضامن بلکہ عالم اسلام کی سب سے بڑی عسکری قوت ہونے کے ناتے مسلمانان عالم کے لئے فخر و مباہات کا باعث بھی ہے۔ اسلامی ملکوں کے باہمی تنازعات میں الجھا کر اس کا یہ شاندار امیج مجروح نہیں کرنا چاہئے۔ اس حوالے سے پاک فوج بیرون ملک نہ بھیجنے کا فیصلہ درست اور دور رس نتائج کا حامل ہے۔
مسلح جدوجہد جائز نہیں
ملک میں کئی برسوں سے جاری بدامنی اور دہشت گردی کا ایک اہم عامل اکثریتی مسلک کے بعض دینی حلقوں کا یہ موقف ہے کہ پاکستان کوئی اسلامی نظریاتی ریاست نہیں، اس کا آئین‘ پارلیمنٹ، عدلیہ اور پورا نظام حکومت غیر اسلامی ہے ، لہٰذا یہاں نفاذ شریعت کیلئے مسلح جدوجہد ضروری ہے۔اس موقف کا اظہار برملا کیا جاتا رہا ہے تاہم تحریک طالبان پاکستان کی جانب سے مذاکرات کے لیے فضا ہموار کرنے کی سنجیدہ کوششوں کے شروع ہونے کے بعد اس رائے کے اعادے سے گریز کیا جارہا ہے جو قابل اطمینان بات ہے۔اس رائے کے برعکس ملک کے تمام مکاتب فکر کے مستند اور نمائندہ علماء پاکستان میں آئین سازی کے ہر مرحلے پر پورے اہتمام سے شریک رہے ہیں۔ قرارداد پاکستان کی تیاری میں کلیدی کردار ادا کرنے کے بعد تمام مسالک کے ممتاز و معتبر علماء نے اسلامی دستور کی تیاری کیلئے بائیس رہنما اصول متعین کئے اور ملک کا موجودہ متفقہ دستور ان ہی پر مبنی ہے۔ دستور میں ضمانت دی گئی ہے کہ شریعت کے منافی کوئی قانون نہیں بنایا جائیگا اور غیراسلامی قوانین کو پارلیمنٹ اسلامی تعلیمات کے مطابق ڈھالنے کی پابند ہوگی۔ یہی وجہ ہے کہ ملک کے تمام دینی مکاتب فکر پاکستان کے اسلامی نظریاتی ریاست ہونے پر متفق ہیں ۔ وفاق المدارس پاکستان کے زیراہتمام ہونیوالی تحفظ مدارس دینیہ کانفرنس کی جانب سے گزشتہ روز جاری کئے گئے مشترکہ اعلامیہ میں یہ بات قطعی غیرمبہم الفاظ میں کہی گئی ہے۔اعلامیہ میں پاکستان میں نفاذ شریعت اور غیرملکی تسلط کے خاتمے کیلئے مسلح جدوجہد کو شرعی اعتبار سے غلط قرار دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ اس کا براہ راست فائدہ ہمارے دشمنوں کو پہنچ رہا ہے۔ اعلامیہ میں معاشرے سے برائیوں کے خاتمے کیلئے آئینی اور جمہوری ذرائع اختیار کرنے اور فرقہ منافرت کی روک تھام کیلئے تجاویز بھی دی گئی ہیں۔ وفاق المدارس جیسے نمائندہ ادارے کی اس رائے کی روشنی میں پاکستان میں نفاذ شریعت کیلئے مسلح جدوجہد کے حامیوں کو اپنا موقف تبدیل کرنے میں تردّد نہیں ہونا چاہیے نیز حکومت کو اعلامیہ میں پیش کی گئی تجاویز پر غور کرنا چاہئے اور مسلکی ہم آہنگی کیلئے انکے مطابق اقدامات عمل میں لانے چاہئیں۔

مسئلہ پانی کا
وفاقی وزیر منصوبہ بندی و ترقیات احسن اقبال نے قومی واٹر کانفرنس میں شرکت کے بعد اخبار نویسوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان کو بھارت سندھ طاس معاہدے کے مطابق اپنے حصے سے 10ملین ایکڑ فٹ کم پانی مل رہا ہے جس سے اسے پانی کی شدید قلت کا سامنا ہے اسلام آباد نئی دہلی کے ساتھ اپنا یہ تنازع مذاکرات کے ذریعے حل کرنا چاہتا ہے۔ پاکستان واٹر کانفرنس وزارت منصوبہ بندی، وزارت پانی و بجلی اور بین الصوبائی تعاون کی وزارت کے اشتراک سے منعقد کی گئی تھی تاکہ پاکستان میں زرعی مقاصد، توانائی اور پینے کے لیے پانی کی فراہمی کے لئے قومی سطح پر ایک مربوط پالیسی تشکیل دی جاسکے کیونکہ اگر وطن عزیز کو بھارت سے اپنے حصے کا پورا پانی نہ ملے تو اس کی سرسبز و شاداب اور سونا اگلنے والی زمینیں ہی بنجر نہیں ہوں گی اس کے باسیوں کو پینے کے لئے صحت مند پانی کی دستیابی بھی ممکن نہ ہوسکے گی اس حوالے سے شہری شعور کو بیدار کرنا بھی بے حد ضروری ہے جس طرح گزشتہ عشرے میں پیداوار توانائی کی طرف توجہ نہ دینے کی وجہ سے ملک میں توانائی کا بحران لوگوں کی مشکلات و مصائب میں اضافہ کا موجب بن رہا ہے اسی طرح پانی کے بارے میں ایک واضح قومی پالیسی کی عدم موجودگی وطن عزیز میں اجناس اور دیگر غذائی ضروریات کو پورا کرنے کی راہ میں بہت بڑی رکاوٹ ثابت ہوسکتی ہے۔ ان حالات میں ایک طرف تو ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم بھارت سے اپنے حصے کا پانی لینے کے لیے موثر طریقے سے مذاکرات کریں اور دوسری طرف ملک کے اندر پانی کو محفوظ کرنے نیزاس کے ضیاع اور بے جا استعمال کو روکنے کے بارے میں عوام میں شعور پیدا کرنے کے لئے سرکاری اور نجی سطح پر ٹھوس اقدامات کئے جائیں۔ نیز ذرائع ابلاغ کے ذریعے عوام کو اس حوالے سے آگاہ کرنے کے لئے بھی زور دار اور مسلسل مہم چلائی جائے۔
تازہ ترین