• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اس دنیا میں علم کے کیسے کیسے غنی ہیں کہ اپنی دلیل کا ا ٓغاز دوسروں کو جاہل کہنے سے کرتے ہیں۔ سر تسلیم خم ہے جو مزاج یار میں آئے۔ کہنے کو تو یہ بھی عرض کیا جا سکتا تھا کہ صاحب ، اخبار میں آپ جیسے عالموں سے تو کلام نہیں کیا جاتا۔ اخبار تو سادہ انسانوں سے ابلاغ کرتا ہے جو فہم عامہ سے بہرہ ور ہیں اور اس زمین کے مسائل حل کرنے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ مسائل اس زمین پر بہت ہیں ۔ ابھی پچھلے ہفتے جب ہمارے ہندو ہم وطن موسم بہار کا تہوار ہولی منانے کی تیاریاں کررہے تھے، لاڑکانہ میں اچانک فساد کے شعلے بھڑک اٹھے۔ مبینہ طور پر ایک ہندو نوجوان پر مقدس اوراق کی بے حرمتی کا الزام تھا۔ پولیس اور انتظامیہ نے مذکورہ نوجوان کو حراست میں لے لیا لیکن مشتعل ہجوم نے ہندو برادری پر حملے شروع کردئیے ۔ ایک دھرم شالہ جلا دی گئی۔ مرکزی مندر کو نقصان پہنچا۔ بلوچستان کے ملحقہ علاقوں میں بھی کشیدگی پھیل گئی۔ اوستہ محمد میں ہندو ہم وطنوں کی دس دکانیں نذر آتش کردی گئیں۔ہولی کی خوشیاں کجلا گئیں۔ خیر گزری کہ مقامی انتظامیہ نے مستعدی کا مظاہرہ کیا اور فریقین سے مشاورت کر کے حالات پر قابو پا لیا۔ اس سے بھی اچھی خبر یہ کہ سیاسی قیادت نے بروقت اور درست اقدامات کیے۔ وزیراعظم نواز شریف کے پیغام میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے درست خطوط کی نشاندہی کی گئی۔ ایم کیو ایم کے سربراہ الطاف حسین نے اقلیتی شہریوں کی ڈھارس بندھائی۔ بلاول بھٹو زرداری نے کمشنر لاڑکانہ سے رابطہ کیا ۔ہندو پنچایت حیدرآباد کے سربراہ ایم پرکاش نے بتایا ہے کہ اگر یہ سیاسی رہنما بروقت مداخلت نہ کرتے تو حالات انتہائی خراب ہو سکتے تھے۔ پرکاش پرانے سیاسی رہنما اور انسانی حقوق کے کارکن ہیں ۔ درد مند اور معاملہ فہم شخصیت رکھتے ہیں۔ ان سے یہ توقع نہیں کی جاتی کہ محض خوشامد میں حقیقت پر پردہ ڈال دیں۔ اس واقعے کے حقائق تو زیر تفتیش ہیں اور ان پر رائے زنی کرنا مناسب نہیں۔ تاہم یہ سوال تو کیا جا سکتا ہے کہ اس طرح کے کسی واقعے میں کسی فرقے کی عبادت گاہوں اور املاک پر حملے کرنے کا کیا جواز ہے۔ایسے عناصر کی نشان دہی بھی ہونی چاہئے جو اشتعال انگیزی کی چنگاریوں پر ہاتھ سینکنا چاہتے ہیں۔
ہمارے فاضل بھائیوں کو قائداعظم کے اقوال اور حالات کی روشنی میں سیاسی اصول بہتر طور پر سمجھ آتے ہیں تو آئیے دیکھتے ہیں کہ پاکستان کے ہندو شہریوں کے بارے میں قائداعظم محمد علی جناح نے ہمیں کیا ہدایت کی تھی۔ قیام پاکستان کے بعد ملک کے طول و عرض میں جو فسادات ہوئے ان میں کراچی بڑی حد تک محفوظ رہا۔ تاہم بے گھر افراد کے قافلے بڑی تعداد میں دارالحکومت پہنچ رہے تھے۔ دوسری طرف ہندوستان نقل مکانی کرنے والے بہت سے افراد بھی کراچی بندرگاہ کے راستے سفر کررہے تھے۔ پنجاب کے سکھوں کاایک قافلہ بحری جہاز کے انتظار میں کراچی ٹھہرا ہوا تھا۔ جنوری کے پہلے ہفتے میں اس قافلے پر حملہ کردیا گیا۔ جلد ہی کراچی میں فساد پھیل گیا۔ قائداعظم نے جنرل اسکندر مرزا کو فسادات پر قابو پانے کے لئے خصوصی ہدایات جاری کیں۔ 9جنوری 1948ء کو کراچی کے فسادات سے متاثرہ علاقے کے دورے کے موقع پر قائد اعظم محمد علی جناح نے ’’ہندو ہمسایوں کو بچائو‘‘ کے عنوان سے ایک پیغام اہل کراچی کے نام جاری کیا ۔ مناسب ہو گا کہ اس پیغام کے متن پر ایک بار پھر نظر ڈالی لی جائے۔
’’ایک دفعہ پھر میں تمام مسلمانوں کو تاکید کرتا ہوں کہ وہ قانون شکن، غدار اور سازشی لوگوں کے خلاف، جو اس تمام بدامنی کے ذمہ دار ہیں، سرکار اور اس کے عملے کے ساتھ ہندو ہمسایوں کو بچانے میں بھرپور تعاون کریں۔ پاکستان میں غدار، سازشی اور بے ہنگم ہجوم کی بجائے باضابطہ آئینی سرکار کی حکمرانی ہوگی۔ حکومت ِ پاکستان ایسے مجرموں کے خلاف ہر ممکن اقدامات کرے گی اور اُن سے سختی سے نمٹا جائے گا۔ مجھے ہندوئوں کے ساتھ مکمل ہمدردی ہے جن میں اکثر کو پروپیگنڈے کے ذریعے ورغلایا گیا۔ درحقیقت مقصد اُن کو سندھ سے نکالنا تھا نتیجتاً بہت سارے ہندوئوں کو دکھ اٹھانے پڑے۔ ابھی تک ان لوگوں کا پتہ نہیں چل سکا جو سکھوں کو سندھ کے ذمہ دار افسر، ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ یا پولیس کو اطلاع دئیے بغیر کراچی لے آئے اور گوردوارے میں ٹھہرا دیا۔ تاہم اس معاملے کی پوری تحقیق کی جائے گی‘‘۔
کیا یہ قائد اعظم محمد علی جناح کا سیاسی بیان تھا؟ کیا وہ سیاستدانوں کی اسی ’ کھوکھلی لفاظی‘ سے کام لے رہے تھے جس کا نام لے کر اس ملک میں عشروں سے سیاسی عمل اور سیاست دانوں کو مطعون کیا جاتا رہا ہے۔ آئیے اس پر لیفٹیننٹ جنرل (ریٹائرڈ)گل حسن سے شہادت لیتے ہیں۔ گل حسن قائد اعظم کے اے ڈی سی تھے اور مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد چند ماہ کے لئے پاکستانی فوج کے سربراہ بھی رہے۔ برسبیل تذکرہ بتاتے چلیں کہ لیفٹننٹ جنرل (ر)گل حسن کا شمار لیفٹننٹ جنرل (ر) صاحبزادہ یعقوب علی خان اور جنرل محمد شریف جیسے مرنجاں مرنج فوجی رہنمائوں میں نہیں ہوتا تھا۔ پاکستان میں سیاسی قیادت پر فوجی بالادستی کی جو کاٹھی ڈالی گئی ،جنرل گل حسن اس کھیل کے نمایاں کرداروں میں سے ایک تھے ۔ ان کی خود نوشت میں جہاں کسی سیاست دان کا ذکر آیا ہے، ان کے ٹھیٹھ فوجی لہجے کی برخود غلط حقارت چھپائے نہیں چھپتی۔ اپنی کتاب ’’آخری کمانڈر انچیف‘‘ میں لکھتے ہیں،
’’اے ڈی سی کی حیثیت سے میری ڈیوٹی کے آخری ایام تھے کہ کراچی میں فرقہ وارانہ فسادات بھڑک اٹھے۔ ان دنوں قائد اعظم بے حد فکر مند دکھائی دیتے تھے۔ ایک دن مجھے بلا کر انہوں نے دریافت کیا کہ کیا میں نے اپنے ایک ہندو دوست کو کھانے پینے کی چیزیں بھجوا دی ہیں۔ وہ میرے دوست کے باپ سے واقف تھے۔ میں نے اثبات میں جواب دیتے ہوئے انہیں بتایا کہ ’میرے دوست کا گھر بندر روڈ پر عین اس جگہ واقع ہے جو فسادات کا مرکز ہے۔ مجھے یقین ہے کہ وہ اور اس کے ملازمین گھر سے نکلنے کی جرأت نہیں کرسکتے‘۔ میں نے قائد اعظم کو مزید بتایا کہ میں گورنر جنرل ہائوس کی کار استعمال کرتا رہا ہوں اور ضروری اشیا کی خریداری کے لئے ڈرائیور کو اپنی جیب سے رقم دی ہے۔ انہیں یہ حقیقت بھی بتائی کہ یہ سارا سامان اس وقت ہندو دوست کے گھر بھیجا جب رات کو کرفیو نافذ ہوتا تھا۔ انہوں نے میری طرف غور سے دیکھتے ہوئے کہا، ’مجھے تم پر فخر ہے۔ پاکستان کے لوگ جب بھی مصیبت میں مبتلا ہوں، ان کی مدد کرنی چاہئے‘‘۔ دیکھیے ، قائد اعظم نے کہا ، ’’پاکستان کے لوگ جب بھی مصیبت میں مبتلا ہوں، ان کی مدد کرنی چاہئے‘‘۔ انہوں نے یہ نہیں کہا کہ ’’پاکستان کے مسلمان جب بھی مصیبت میں مبتلا ہوں، ان کی مدد کرنی چاہئے‘‘۔ پاکستان بننے کے بعد قائد اعظم کی نظر میں کسی پاکستانی شہری کی پہلی اور آخری پہچان پاکستانی ہونا تھی نہ کہ اس شہری کا عقیدہ۔
لکھنے والے کے کمرے میں برسوں سے تین تصویریں آویزاں ہیں۔ غوث بخش بزنجو ، ڈاکٹر اقبال احمد اور سوبھوگیان چندانی۔ سوبھوگیان چندانی کسی حرف تحسین سے ماورا ہیں۔ آج پاکستان کے محترم ترین بزرگ سیاسی رہنماکون ہیں، ابراہیم جوئیو، ڈاکٹر مبشر حسن، عبداللہ جمالدینی اور سوبھوگیان چندانی۔ ڈاکٹر شاہ محمد مری نے سوبھو گیان چندانی پر جو کتاب لکھی ہے اس کا عنوان ہے ’موہنجو دڑو کا جوگی‘۔بتایا گیا ہے کہ 92 سالہ سوبھوگیان چندانی لاڑکانہ کے واقعات پر دل گرفتہ ہیں۔ اہل پاکستان کو انہیں یہ پیغام بھیجنا چاہئے کہ ابھی ہمیں قائداعظم کا فرمان یاد ہے۔ ہمیں افسوس ہے کہ اس برس ہولی کے رنگ نہیں بکھر سکے مگر دیوالی کے دئیے ضرور جلیں گے۔
تازہ ترین