• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
1954ء میں پاکستان ایئر فورس کا سولہواں جی ڈی پی کورس پاس آئوٹ ہوا تو اس میں ایک سجیلا مسیحی نوجوان مارون لیسلے مڈل کوٹ بھی تھا۔ حد درجہ بااخلاق، خوش گفتار اور شستہ مزاج مارون نے فائٹر پائلٹ کے طور پر بہت نام کمایا۔ 1965ء کی جنگ شروع ہوئی تو آپ فلائٹ لیفٹیننٹ کی حیثیت سے مسرور بیس کراچی میں تعینات تھے۔ ایک شب بھارتی فضائیہ نے کراچی پر دھاوا بولا تو دشمن کے دانت کھٹے کرنے والے پی اے ایف کے شاہینوں میں فلائٹ لیفٹیننٹ مارون بھی موجود تھے اور پلک جھپکنے میں دشمن کے دو طیارے مار گرائے تھے۔ صحافتی اور سرکاری حلقوں میں موصوف کے اس کارنامے کی خوب واہ واہ ہوئی تھی۔ کراچی والے تو خاص طور پر جذباتی تھے اور انہیں محافظ کراچی کے خطاب سے نوازا تھا۔ 1967ء میں اسکواڈرن لیڈر کے عہدہ پر ترقی پاچکے تھے اور سرگودھا میں تعینات تھے۔ آٹھ سالہ صاحبزادی لیسلی مڈل کوٹ اسکول کی تیسری جماعت کی طالبہ تھی اور تقریر اچھی کرلیتی تھی۔ سالانہ ہفتہ تقریبات کی آمد آمد تھی اور کلاس ٹیچر نے ننھی لیسلی کو حب الوطنی کے موضوع پر تقریر کیلئے منتخب کیا تھا۔ ریہرسل بہت اچھی جارہی تھی کہ مقابل کلاس فیلو کو اچھا نہ لگا۔ بولی! تم محب وطن کب سے ہوگئیں؟ یہ تو تمہارا وطن ہی نہیں۔ لیسلی تو گویا غصے سے پاگل ہوگئی۔ مخالف پر تھپڑوں کی بارش کردی۔ چلّائے جارہی تھی اور کہہ رہی تھی، یہ میرا ملک ہے۔ تمہیں یہ کہنے کی جرأت کیسے ہوئی کہ یہ میرا ملک نہیں۔ باپ دفتر سے واپس آیا تو ماں نے سارا قصہ کہہ سنایا۔ باپ نے بڑی شفقت سے بیٹی کو پاس بٹھایا اور کہا بیٹا! اس طرح کی بات کرنے والے سے لڑتے نہیں، بلکہ درگزر کرتے ہیں اور اپنے اخلاق اور کردار کو اتنا بلند کرلیتے ہیں کہ اس طرح کی آوازیں ہمارے کانوں میں نہ پڑیں اور چھوٹی باتوں میں ہماری طاقت اور توانائی ضائع نہ ہو۔ دوسری بات یہ کہ یہ ملک ہمارا کیوں نہیں ہے۔ پاکستان کا جھنڈا تو دیکھو۔ یہ سبز حصہ تمہاری اس دوست کا ہے جس کی تم نے پٹائی کی اور یہ سفید حصہ تمہارا ہے اور تمہارے سفید حصے میں وہ پول ہے جس کے سہارے یہ فضا میں لہراتا ہے، لہٰذا ہمیں اس سفید حصے کو مضبوطی سے تھامے رکھنا ہے تاکہ اس کا سبز حصہ آزاد فضائوں میں ہمیشہ لہراتا رہے۔
1971ء کے اوائل میں ہی آپ ونگ کمانڈر کے عہدہ پر ترقی پاچکے تھے۔ پشاور میں پوسٹنگ تھی کہ اردن میں ڈیپوٹیشن ہوگیا۔ وہاں بھی ملک و ملت کیلئے عزت ہی نہیں کمائی حکمران شاہ حسین کے دل میں جگہ بھی بنائی۔ 1971کی جنگ چھڑتے ہی وطن لوٹےاور اہم فضائی معرکوں میں حصہ لیا۔ ایسے ہی ایک مشن سے کامیاب لوٹ رہے تھے کہ ان کا جہاز دشمن کے میزائل کا نشانہ بن گیا۔ جہاز سمیت گہرے سمندر میں جاگرے اور مادر وطن پر زندگی نچھاور کردی۔ ان کی شہادت پر ان کی بیوہ جین مڈل کوٹ کے نام شاہ حسین کا خط لکھا ہوا تھا ان کی بیٹی کے پاس آج بھی محفوظ ہے جس میں والی اردن نے لکھا تھا: بہن! شہید کا چلے جانا آپ کا اور پاکستان کا ہی نہیں میرا بھی ذاتی نقصان ہے۔ ان کے جسدخاکی کو بے شک پاکستانی پرچم میں لپیٹ کر سپرد خاک کیا جائے، مگر ان کے سر کے نیچے اردن کا پرچم رکھنا نہ بھولئے گا۔ جو ہماری طرف سے ان کی خدمات کا ادنیٰ سا اعتراف ہوگا۔ سرزمین پاکستان سے عشق کی حد تک لگائو تھا۔ زیادہ تر رشتہ دار بیرون ملک مقیم تھے۔ بیوی نے ایک بار اظہار کیا کہ کیوں نہ ریٹائرمنٹ لے کر ہم بھی اپنے پیاروں کے پاس چلے جائیں۔ موصوف نے بیوی اور بچی کو سامنے بٹھا کر اپنے مخصوص نرم اور مضبوط لہجے میں کہا تھا۔ یہ نہیں ہوسکتا۔ میں نے یہاں جنم لیا۔ سو یہاں سے جانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ بیگم نے یہ سبق مضبوطی سے پلے باندھ لیا۔ شوہر کی زندگی میں تو کجا، اس کے بعد بھی پاکستان سے چمٹی رہیں اور اسی دھرتی میں دفن ہوئیں۔ تب سے شہید کی اکلوتی بیٹی لیسلی پر دور دیسوں میں بسنے والے رشتے داروں کا دبائو بڑھ گیا ہے کہ اب ادھر کون ہے؟ اب تو چلی آئو۔ مگر اس کا ایک ہی جواب ہے کہ میرا تو سب کچھ ہی ادھر ہے۔ میں نے پاپا کے حکم کے مطابق پاکستانی پرچم کا پول سنبھالا ہوا ہے۔ناردرن لائٹ انفنٹری کے شہید میجر سرمس رئوف (تمغہ بسالت) کی داستان شجاعت بھی خون گرمانے والی ہے۔ ان کی یونٹ 12 این ایل آئی نے کارگل کی جنگ عجب کیف دستی میں لڑی تھی اور دو نشان حیدر پائے تھے۔ کیپٹن کرنل شبیر خان شہید نشان حیدر اور حوالدار لالک جان شہید نشان حیدر، میجر سرمس ان کی قسمت پر رشک کرتے کہ وہ سبقت لے گئے اور مرتبہ شہادت پر فائز ہوگئے مگر انہیں بھی زیادہ انتظار نہیں کرنا پڑا۔ شدت پسندوں کے ساتھ ایک معرکے میں اس بے جگری سے لڑے کے جان جان آفرین کے سپرد کردی۔ پیشہ وارانہ ذمہ داری کے حوالے سے میجر سرمس کی حساسیت ضرب المثل تھی۔ جہاں دھرتی ماں بیچ میں آگئی۔ وہیں خونی رشتے بے معنی ہوگئے حتیٰ کہ عزیز ترین ہستیوں کے جنازوں کو کندھا دینے کیلئے وقت بھی نہ نکال سکے۔ والدہ محترمہ فوت ہوئیں تو وہ محاذ پر تھے۔ اس سے پہلے دادی جان کی آخری رسومات بھی ان کے بغیر ہی ادا کی گئی تھیں۔ ایک اور مسیحی افسر لیفٹیننٹ عطارد نے جام شہادت نوش کیا تو ان کی عمر انیس سے ذرا ہی اوپر تھی۔ مشرقی پاکستان میں سلہٹ کے محاذ پر شدید زخمی ہو کر اسپتال پہنچے تو جسم کا سارا خون نچڑ چکا تھا مگر جذبہ ناقابل شکست، آپریشن ہوا تو سینے سے تین گولیاں نکلیں۔ سانس اکھڑ رہی تھی اور وہ سرجن سے التجا کررہے تھے کہ جناب! میری ماں ہمیشہ دلیری سے لڑنے کا سبق دیا کرتی تھی۔ یہ گولیاں اسے اس پیغام کے ساتھ پہنچادینا کہ تمہارے بیٹے نے تمہارے کہے کا مان رکھا اور یہ گولیاں اس کے سینے سے برآمد ہوئی ہیں۔حب الوطنی کسی کی میراث نہیں۔ یہ دیس، پیارا پاکستان ہم سب کا ہے اور ہم سب کو عزیز ہے۔ اور یہ بھی حقیقت ہے کہ اس دھرتی کے ساتھ وفا کا حق سب نے نبھایا ہے اور بلاتعریف مذہب، جرأت و جذبہ کی ایمان افروز داستانیں رقم کی ہیں مادر وطن کو جب بھی ضرورت پڑی، افواج پاکستان میں شامل دھرتی کے مسیحی بیٹوں نے بھی اپنے مسلمان بھائیوں کے شانہ بشانہ جانوں کا نذرانہ دیا ہے۔ شہادتوں کا یہ سلسلہ 1948ء کے جہاد کشمیر سے شروع ہوا۔ اور آج تک جاری ہے۔ جی ایچ کیو سے جاری ہونے والی فہرست کے مطابق مادر وطن پر جان نچھاور کرنے والے مسیحی فوجیوں کی تعداد 60کے لگ بھگ ہے۔ جن میں ونگ کمانڈر مارون (ستارہ جرأت) میجر سرمس رئوف (تمغہ بسالت) کیپٹن مائیکل ولسن اور لیفٹیننٹ ڈینیل عطارد جیسے جری آفیسرز شامل ہیں۔ اپریل 2012ء کو سیاچن میں برفانی تودے کے نیچے دب کر شہید ہونے والے 139 شہیدوں میں سے چار کا تعلق مسیحی برادری سے تھا۔
الحمدللہ مذہب کے معاملہ میں ہم تنگ دل نہیں اور اس فراخی اور وسعت کا درس ہمیں اللہ اور اس کے رسولﷺ نے دیا ہے۔ نجران کا مسیحی وفد حضور جناب رسالت مآبﷺ سے ملنے آیا تو آپﷺ نے اپنی مسجد میں ہی عبادت کی اجازت مرحمت فرمادی تھی۔ دفاع کے علاوہ وطن عزیز کے مسیحی بیٹوں نے دیگر شعبوں میں بھی بہت نام کمایا۔ جناب کارنیلس سپریم کورٹ کے چیف جسٹس تھے اور لوگ آج بھی ان کا نام احترام سے لیتے ہیں۔ ایک اور مسیحی آئی سی ایس افسر ایس ایم برق کسی وجہ سے مستعفی ہوگئے تو قائد اعظم نے ان کا استعفیٰ منظور نہیں کیا اور بہ نفس نفیس انہیں ملک کی نوزائیدہ فارن سروس میں انڈکٹ کیا۔ مسیحیوں پر ہی کیا موقوف وطن عزیز میں سب مذاہب کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے۔ چند برس پہلے ایک سکھ نوجوان کو فوج میں کمیشن ملا تو پورے ملک نے اظہار مسرت کیا تھا۔ پہلا ہندو لڑکا سی ایس ایس کرکے فارن سروس میں آیا تو اس کی پذیرائی بھی دیدنی تھی، لاہوریوں کو وہ سکھ سارجنٹ بھی یاد ہوگا، شہر کی سڑکوں پر جس کا سواگت اس والہانہ پن سے ہوتا کہ بچارے کو ڈیوٹی کرنا مشکل ہوجاتا تھا۔
تازہ ترین