• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار نے کئی ایسے معاملات کی وضاحت کی ہے جن پر ذہنوں میں سوالات اٹھ رہے تھے۔جمعہ کے روز نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے تحریک طالبان سے مذاکرات کی صورت حال ، جنگ بندی نہ کرنے والے گروپوں کے بارے میں حکمت عملی اور نادرا کے معاملات پر روشنی ڈالی۔طالبان کی جانب سے ایک ماہ کی جنگ بندی کے اعلان کی مدت ختم ہونے کے قریب پہنچ جانے کے باوجود اب تک باقاعدہ اور براہ راست مذاکرات کا آغاز تو کجا، اس کے مقام تک کا طے نہ ہونا قوم کے اندر بجا طور پر اضطراب کا باعث بنا ہوا ہے۔ ان حالات میں حکومت کی جانب سے قوم کو اعتماد میں لیا جانا ضروری تھا۔ وزیر داخلہ نے اس ضرورت کو پورا کرتے ہوئے بتایا ہے کہ طالبان کے ساتھ مذاکرات کے حوالے سے مقام کا کوئی ایشو ہے نہ کوئی ڈیڈ لاک پیدا ہوا ہے۔ انہوں نے پورے اعتماد کے ساتھ دعویٰ کیا کہ آئندہ ایک آدھ دن میں سب کچھ سامنے آجائے گا۔ وزیر داخلہ کی جانب سے مذاکرات کے عمل کے خاموشی سے آگے بڑھنے کی ضرورت اور اس معاملے میں بیان بازی سے گریز پر زور دیا گیا جس کے درست ہونے سے اختلاف نہیں کیا جاسکتا۔ اب تک غیرضروری طور پر ہر بات کے منظر عام پر آجانے سے مذاکراتی عمل کو نقصان پہنچا ہے اس لئے کم از کم اب اس غلطی کا اعادہ نہیں ہونا چاہئے۔نیز آنے والے ایک دودنوں میں مذاکراتی عمل کے باقاعدہ آغاز کے دعوے کو بہرصورت حقیقت بنایا جانا چاہئے ورنہ اس پورے عمل کے حوالے سے شکوک و شبہات اور بے اعتمادی کے احساسات کو پھیلنے سے روکا نہیں جاسکے گا۔ وزیر داخلہ نے جنگ بندی اور مذاکرات پر تیار نہ ہونے والے مسلح گروپوں کے بارے میں بھی حکومتی موقف کی وضاحت کی۔ انہوں نے دوٹوک الفاظ میں کہا کہ مذاکرات کو سبوتاژ کرنے والے مخالف گروپ ہمارے نشانے پر ہیں،وہ اپنی حرکتوں سے باز نہ آئے تو ان کے خلاف کارروائی ہوگی۔بلاشبہ ملک میں ایک عشرے سے جاری خوں ریزی اور دہشت گردی کو پرامن بات چیت کے ذریعے ختم کرنے کی دوطرفہ کوششوں کو سبوتاژ کرنے والے عناصر ناقابل معافی ہیں۔ حکومت کو اپنے طور پر حسب ضرورت ان کے خلاف کارروائی کے ساتھ ساتھ تحریک طالبان سے بھی ان کے خلاف مؤثر اقدامات کا مطالبہ کرنا چاہیے اور خود طالبان کو بھی قیام امن کے اپنی کوششوں کو ناکام بنانے کے عزائم رکھنے والوں کو کنٹرول کرنے کے لئے نتیجہ خیز تدابیر اختیار کرنی چاہئیں۔ نادرا کے حوالے بھی وزیر داخلہ نے اہم معلومات فراہم کیں جن سے حکومت کی جانب سے اس محکمے میں بہتری لانے کی کوششوں کی تفصیلات منظر عام پر آئیں۔ غیرضروری اخراجات کے خاتمے کے لئے ڈائرکٹر جنرلز کی تعدادکا 36 سے24 کیا جانا، ملازمین کی بائیو میٹرک تصدیق اور361 گھوسٹ ملازمین کی تنخواہوں کی بندش، غیرقانونی شناختی کارڈوں کے اجراء میں ملوث اورجعلی ڈگریوں والے ملازمین کی برطرفی اور ریجنل دفاتر کے آڈٹ کا اہتمام جیسے اقدامات ، اس اہم محکمے کی اصلاح کے حوالے سے یقینا قابل اطمینان ہیں۔ ان کے مثبت نتائج بھی ظاہر ہورہے ہیں اور ان میں سب سے نمایاں اس محکمے کا خسارے سے نکل کر منافع میں آجانا ہے۔ ملک کے دارالحکومت کی حیثیت سے اسلام آباد کی حفاظت کے خصوصی انتظامات ایک قومی ضرورت ہیں۔ ماضی ہی میں نہیں موجودہ دورمیں بھی کئی ایسے واقعات پیش آچکے ہیں جن سے اس شہر کے حفاظتی انتظامات کے نقائص بہت کھل کر سامنے آئے ہیں۔ اس پس منظر میں وزیر داخلہ نے بتایا کہ ان کی وزارت کی طرف سے اسلام آباد سیف سٹی منصوبے کی منظوری دے دی گئی ہے جس پر پیر کو باضابطہ معاہدہ ہوجائے گا۔ وزیر داخلہ کے مطابق شہر کو محفوظ بنانے کے لئے سنٹرل کمانڈ سسٹم سے کام لیا جائے گا۔ حکومت کی جانب سے کئی اہم معاملات پر کی جانے والی یہ وضاحتیں بروقت ہیں۔ امید ہے کہ ان سے شکوک و شبہات ختم ہوں گے نیز حکومت بھی انہیں حتی الامکان کم سے کم وقت میں عملی جامہ پہنانے کی ہر ممکن کوشش کرے گی۔
کرکٹ ،پوری تیاری سے کھیلیں !
آئی سی سی ورلڈ ٹی 20میں پاکستان کا بھارت کو ہرانے کا خواب شرمندہ تعبیر نہ ہو سکا۔ قومی ٹیم کی بیٹنگ لائن باعزت اسکور کرنے اور بائولر بھی اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کرنے میں ناکام رہے۔ اگرچہ پاکستان کی ٹیم ہارٹ فیورٹ تھی لیکن جمعہ کو بنگلہ دیش کے میر پور میں شیر بنگال اسٹیڈیم میں سات وکٹوں سے ہار گئی۔ اب قومی ٹیم نے اتوار کو آسٹریلیا سے مقابلہ کرنا ہے۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان میچ دیکھنے کے لئے کراچی، اسلام آباد، لاہور سمیت مختلف شہروں میں خصوصی انتظامات کئے گئے تھے جہاں شائقین نے روایتی جوش و خروش کا مظاہرہ کیا۔ مختلف چینلوں پر خاص پروگرام نشر کئے گئے تاہم شائقین کی توقعات پوری نہ ہو سکیں۔ ان کی جانب سے شدید مایوسی کا اظہار کیا گیا اور بوم بوم آفریدی صرف آٹھ رنز بنا کر پویلین واپس چلے گئے۔ اگرچہ کھیل میں ایک ٹیم نے جیتنا اور ایک نے ہارنا ہوتا ہے اور یہی کھیل کا حسن بھی ہے لیکن کھیلنے والی ٹیموں کو مقابلہ تو بھرپور انداز میں کرنا چاہئے تھا۔ اگرچہ کرکٹ کے سابقہ کھلاڑیوں اور شائقین کو قومی ٹیم سے بڑی امیدیں تھیں اور یہی کہا جا رہا تھا کہ پاکستانی ٹیم اپنے روایتی حریف بھارت کو شکست دینے میں کامران ہو گی اور شائقین میں بڑا جوش و خروش تھا۔ مقررہ وقت پر پارکوں اور اسٹیڈیموں میں بڑی اسکرین لگا کر میچ دیکھنے کا اہتمام کیا گیا تھا۔ شکست کے بعد شائقین نے مایوسی کا اظہار کیا۔ اگرچہ ٹیم صرف 130رنز بنا سکی لیکن بائولروں سے جو امیدیں تھیں وہ بھی پوری نہ ہو سکیں۔ عمر گل ، سعید اجمل اور بلاول بھٹی صرف ایک ایک کھلاڑی کو آئوٹ کر سکے اس طرح مجموعی طور پر بیٹنگ اور بائولنگ لائن باوقار کارکردگی کا مظاہرہ کرنے میں ناکام ہو گئی۔ چاہئے تو یہ تھا کہ پاکستانی ٹیم بھرپور تیاری کر کے میدان میں اترتی اور کرکٹ میں روایتی حریف سے بھرپور مقابلہ کرتی لیکن ایسا نہیں ہو سکا۔ ورلڈ ٹی 20کے فائنل میں ابھی کئی اور اہم میچ باقی ہیں اس لئے ضرورت ہے کہ ٹیم کی کارکردگی کو بہتر بنایا جائے اور پوری تیاری کر کے آنے والے میچ کھیلے جائیں۔

اہم اقتصادی منصوبے
کابینہ کی اقتصادی کمیٹی نے وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی صدارت میں جمعہ کے روز ہونے والے اجلاس میں بعض نہایت اہم فیصلے کئے ہیں جن کے ملکی معیشت پر بہت گہرے اور دور رس اثرات مرتب ہوں گے۔ ان میں سے نجکاری کمیشن کو اسٹیل ملز کا ری سٹرکچرنگ پلان پیش کرنے ، اس کے ملازمین کو دو ماہ کی تنخواہیں ادا کرنے کے لئے 96کروڑ روپے ادا کرنے، کھاد کی پیداوار کی جانب مائل عناصر کا تعین کرنے کے لئے کمیٹی کی تشکیل اور ضبط شدہ ناقابل مرمت گاڑیاں توڑنے ایسے فیصلے شامل ہیں۔
اسٹیل ملز پاکستان میں پچھلی صدی کی ساتویں دہائی میں مکمل کئے جانے والے اہم ترین منصوبوں میں سے ایک ہے جو اپنے ابتدائی دور میں ایک انتہائی منافع بخش ، پرکشش اور ملک کی سول اور عسکری ضروریات کو پورا کرنے کے لئے سنگ میل کی حیثیت رکھتی تھی لیکن اب اس کے لئے اپنے اخراجات پورے کرنا بھی ممکن نہیں رہا اور حکومت کو اس کی نجکاری کے سوا اور کوئی راستہ دکھائی نہیں دے رہا۔ اصولی طور پر تو ایسے بڑے اداروں کی کسی صورت بھی نجکاری نہیں ہونی چاہئے ۔ لیکن اگر ہمارے معاشی ماہرین کو اتنے بڑے بڑے ادارے بیچ دینے کے علاوہ اور کوئی راستہ نظر آتا یا وہ غیرملکی قرضوں کے ساتھ منسلک جلی و خفی شرائط کے تحت ایسا کرنے پر مجبور ہیں تو پھر ان کو اونے پونے نہیں معقول قیمت پر نجی شعبے کے حوالے کرنا چاہئے ۔ اسی تعلق میں ملازمین کو ان کی رکی ہوئی تنخواہیں دینے کا فیصلہ بھی درست ہے کہ وہ اعلیٰ سطح پر کی جانے والی بدانتظامی کی سزا کیوں بھگتیں۔ ملک میں کھاد کے بحران کے کسی امکانی بحران سے بچنے کے لئے 2لاکھ ٹن یوریا کے اسٹرٹیجک ذخائر برقرار رکھنے کا فیصلہ بھی درست سمت میں اٹھایا جانے والا ایک اہم قدم ہے۔ اس طرح ضبط شدہ ناقابل مرمت گاڑیوں کو توڑنے کی منظوری دینا بھی معاشی حوالے سے سودمند ثابت ہو گا ۔
تازہ ترین