• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کسی بھی ادارے کو کامیابی سے چلانے کے لئے اس کی سربراہی اور کلیدی مناصب پر اہل اور دیانت دار افراد کا مقرر کیا جانا شرط ِاوّل ہے۔ ایسے ہی لوگ اداروں کو لوٹ کھسوٹ سے پاک اور وسائل کو غیرضروری مدات میں ضائع ہونے سے محفوظ رکھ کر درست اور نتیجہ خیز طور پر استعمال کرسکتے ہیں۔ پاکستان میں سرکاری ملکیت میں چلنے والے بیشتر ادارے ملک کے ابتدائی برسوں میں اسی بناء پر بہترین معیار پیش کرتے رہے اور دنیا کے بہت سے ملکوں کے لئے مثال بنے رہے کیونکہ انہیں فرض شناس اور اپنے کام سے پوری آگہی اورجواب دہی کا احساس رکھنے والے افراد کے سپرد کیا جاتا تھا۔ اس فہرست میں ہماری سرکاری جامعات اور پیشہ ورانہ تعلیمی اداروں، سرکاری اسپتالوں ، قومی ایئرلائن اور پاکستان اسٹیل وغیرہ سمیت بہت سے ادارے شامل ہیں۔ لیکن بدقسمتی سے اس کے بعد ملک میں بار بار ایسے ادوار آئے جن میں اعلیٰ ترین حکومتی ذمہ داروں سمیت پوری سرکاری مشینری اوپر سے نیچے تک کرپشن میں غرق رہی۔ بین الاقوامی اداروں کی جانب سے کرپشن کے حوالے سے پاکستان کا نام ان ملکوں میں شامل کیاجانے لگا جو مالی بدعنوانی میں سرفہرست تھے۔ اس کے اثرات پاکستان کی ساکھ کے لئے اتنے زیادہ نقصان دہ رہے کہ ملک کے آسمانی آفات کا شکار ہونے پر بین الاقوامی ادارے امدادی رقوم اور سامان سرکاری ذرائع سے متاثرین تک پہنچانے سے گریز کرنے لگے۔ موجودہ حکومت سے پہلے کے پانچ برسوں میں یہ کیفیت اپنی انتہا کو پہنچ گئی۔سرکاری تحویل میں چلنے والے تمام ادارے تباہی کے دہانے پر آپہنچے۔ ان کا مجموعی سالانہ خسارہ پانچ سو ارب روپے کے قریب ہے جو قومی خزانے کے لئے ناقابل برداشت بوجھ بن گیا ہے۔اس مسئلے سے نمٹنے کی ایک صورت تو یہ ہے کہ ان اداروں کو سرکاری تحویل سے نکال کر نجی شعبے کے سپرد کردیا جائے۔ لیکن یہ کوئی مثالی حل نہیں لہٰذا اس سے پہلے اداروں میں کلیدی مناصب پر بہتر قائدانہ صلاحیت رکھنے والے نیک نام اور فرض شناس افراد کی تقرری کے ذریعے انہیں ازسرنو پٹری پر ڈالنے کی کوشش آخری حد تک کرلی جانی چاہئے۔ یہ امر قابل اطمینان ہے کہ حکومت کی جانب سے متعدد اداروں کی تعمیر نو کے لئے عملی اقدامات شروع کردئیے گئے۔ انہیں چلانے کے لئے اہل اور دیانتدار افراد کی تلاش جاری ہے۔ وفاقی وزیر خزانہ سینیٹر اسحٰق ڈار کی صدارت میں گزشتہ روز ہونے والے چار رکنی اعلیٰ اختیاراتی کمیشن کے اجلاس میںہاؤس بلڈنگ فنانس کارپوریشن، نیشنل انوسٹمنٹ ٹرسٹ اور فرسٹ ویمن بینک کے چیف ایگزیکٹو افسران کی تعیناتی کے لئے شارٹ لسٹ کیے گئے افراد کے انٹرویو مکمل کرلئے گئے ہیں۔ بتایا گیا ہے کہ جلد ہی حتمی ناموں کو منظوری کے لئے وزیر اعظم کو بھجوادیا جائے گا۔اس موقع پر وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ افسران کی میرٹ پر تقرری سے متعلقہ اداروں کو اعلیٰ اور قابل افسران میسر آئیں گے جو خسارے میں جاتے اداروں کا رخ ترقی کی جانب موڑ سکیں گے۔انہوں نے اپنی حکمت عملی واضح کرتے ہوئے بتایا کہ ایسے ریاستی ملکیتی ادارے جن کی کارکردگی بہتر نہیں ہے،ان کی تنظیم نو اور ڈھانچے میں تبدیلی اس انداز میں کی جائے گی کہ وہ دوبارہ بہتر اور مثبت طور پر اپنی کارکردگی کا مظاہرہ کرسکیں۔بلاشبہ یہ بالکل درست حکمت عملی ہے کیونکہ بنیادی ادارے سرکاری تحویل میں عوامی مفاد کی خاطر چلائے جاتے ہیں جبکہ نجی شعبے کا واحد محرک بالعموم زیادہ سے زیادہ منافع کا حصول ہوتا ہے۔ اس کے نتیجے میں عوام کو ملنے والی خدمات اور سہولتیں مسلسل مہنگی ہوتی چلی جاتی ہیں اور اداروں میں بڑے پیمانے پر چھانٹی وغیرہ کی کارروائیوں سے بیروزگاری میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔ سرکاری تحویل میں چلائے جانے والے ادارے نجی شعبے کی اجارہ داری کو توڑکر اس کے لئے من مانا منافع کمانے سے باز رکھنے کا کام بھی کرتے ہیں۔ اس بناء پر خسارے میں چلنے والے قومی اداروں کی نجکاری کے مقابلے میں ان کی تنظیم نو کو بہرصورت فوقیت دی جانی چاہیے ۔ اس حکمت عملی کو اسٹیل مل اور پی آئی اے جیسے اداروں تک بھی وسعت دینے کے بارے میں غور وفکر کیا جانا چاہیے جن کی نجکاری کا بظاہر فیصلہ کیا جاچکا ہے کیونکہ یہ عین عوامی اور قومی مفاد کا تقاضا ہے۔

حب حادثہ
ہفتہ کے روز بلوچستان میں ضلع لسبیلہ کے قصبہ حب کے قریب آر سی ڈی شاہراہ پر دو مسافر کوچیں اور ایک پک اپ ایک آئل ٹینکر سے ٹکرا گئیں جس سے آئل ٹینکر اور کوچز کی چھتوں پر رکھے ہوئے سمگل کردہ ایرانی تیل کے ڈرموں میں ایسی آگ بھڑک اٹھی کہ بدقسمت مسافروں کو گاڑیوں سے نکلنے کا موقع بھی نہ مل سکا اور 40مسافر جن میں پاک بحریہ کے 6اہلکار بھی شامل ہیں دیکھتے ہی دیکھتے شعلوں کی نذر ہو گئے ۔
اطلاعات کے مطابق ایران سے روزانہ دس لاکھ روپے کا تیل آئل ٹینکروں اور گاڑیوں میں ڈرموں کے ذریعے کراچی، سندھ و بلوچستان کے دوسرے علاقوں میں سمگل کیا جاتا ہے اور ایک نجی ٹی وی چینل کے مطابق سمگلنگ کا یہ دھندہ پٹرول پمپ مالکان اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے افسران اور اہلکاروں کی ملی بھگت سے کیا جاتا ہے جس کا معاوضہ انہیں بھتہ کی صورت میں پوری باقاعدگی سے ادا کیا جاتا ہے جس سے قومی خزانے کو سالانہ ریونیو کی عدم وصولی کی وجہ سے کروڑوں روپے کا نقصان بھی ہوتا ہے ۔ دوسرے ممالک سے ملنے والی طویل سرحدوں کے باعث ان پر ہونے والی مختلف اشیاء کی سمگلنگ کو مکمل طور پر روکنا تو شاید ممکن نہ ہو لیکن پٹرول اور ڈیزل کی ڈرموں کے ذریعے سمگلنگ کو روکنا ممکن ہے اور اس کے لئے شرط یہ ہے کہ چیک پوسٹوں پر ایسے دیانتدار اہلکاروں کو متعین کیا جائے جو حب الوطنی کے جذبہ سے سرشار ہوں اور ہر قسم کے خطرات اور لالچ سے بالاتر ہو کر یہ فریضہ انجام دیں لیکن اس کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ اگر وہ ہتھیاروں، تیل یا دوسری قیمتی اشیاء کی سمگلنگ کی کوئی کھیپ پکڑ لیں تو انہیں فوری طو رپر ترقی اور انعامات سے بھی نوازا جائے۔ اس پس منظر میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کے بھتہ خور اہلکاروں اور سمگل شدہ پٹرول اور ڈیزل بیچنے والے پمپ مالکان کا سخت محاسبہ بھی ضروری ہے اور اس کے ساتھ ساتھ بڑی شاہراہوں پر چلنے والی گاڑیوں اور آئل ٹینکروں کی فٹنس جانچنے اور سڑکوں کی فوری مرمت کا اہتمام بھی ضروری ہے کیونکہ جان لیوا حادثات کو روکنے کے لئے ان کے تمام پہلوئوں پر نظر رکھنا ضروری ہے۔

مذاکراتی مقام پر اتفاق !
یہ امر خوش آئند ہے کہ طالبان سے براہ راست مذاکرات کے لئے وقت اور مقام کا اتفاق سے تعین کر دیا گیا ہے اور براہ راست مذاکرات دو تین روز میں ہونے کی توقع ہے۔ تاہم بات چیت کا مقام سکیورٹی وجوہ پر خفیہ رکھنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ ہفتہ کو وفاقی وزیر داخلہ کی صدارت میں حکومتی کمیٹی اور طالبان کمیٹی کا مشترکہ اجلاس ہوا جس میں تمام امور پر تبادلہ خیال کیا گیا اور براہ راست مذاکرات شروع کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ اجلاس کے بعد طالبان کمیٹی کے سربراہ مولانا سمیع الحق نے اس یقین کا اظہار کیا ہے کہ بات چیت آگے بڑھے گی۔ مذاکراتی عمل کے لئے امن زون قائم ہو گا تاکہ کوئی ناخوشگوار واقعہ نہ ہو۔ جمعیت علماء اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے بھی مذاکرات کی کامیابی کی خواہش کا اظہار کیا ہے۔ موجودہ حکومت نے برسر اقتدار آتے ہی ملک میں پائیدار امن کے قیام اور طالبان سے مذاکرات کرنے کے عزم کا اظہار کیا تھا اور اس حوالے سے آل پارٹیز کانفرنس میں تمام سیاسی جماعتوں نے اس کی تائید کی۔ اگرچہ چند سیاسی و دینی حلقوں کی جانب سے طالبان کے خلاف آپریشن کی تجویز بھی دی گئی تاہم وزیر اعظم میاں نواز شریف کا کہنا تھا کہ مذاکرات اولین آپشن ہونا چاہئیں۔ اس سلسلے میں معروف کالم نگار عرفان صدیقی کی سربراہی میں رابطہ کمیٹی قائم کی گئی اور اس کا خیر مقدم کرتے ہوئے طالبان کی جانب سے مولانا سمیع الحق کی قیادت میں کمیٹی قائم کی گئی اور دونوں کمیٹیاں حکومت اور طالبان کے درمیان براہ راست مذاکرات کی راہ ہموار کرنے میں کامیاب ہو گئیں اور اب ایک دو روز میں باقاعدہ مذاکرات کا سلسلہ شروع ہو جائے گا۔ ملک کے سیاسی اور عوامی حلقوں نے اس پیش رفت کا خیر مقدم کیا ہے اور امید ظاہر کی ہے کہ دونوں فریق کھلے دل سے مذاکرات کی میز پر آمنے سامنے ہوں گے تاکہ ملک میں دہشت گردی کا نہ صرف خاتمہ ہو سکے بلکہ امن بحال ہو سکے جس کی ملکی معاشی ترقی کے لئے بڑی ضرورت ہے !!
تازہ ترین