خوشنونت سنگھ کی موت کی خبر ملی تو میں کراچی میں تھا۔ کچھ پاکستانی ٹی وی چینلز نے ان کی موت کی خبر نشرتو کی لیکن ٹی ٹونٹی ورلڈ کپ میں پاکستان اور بھارت کا کرکٹ میچ میڈیا کی توجہ کا مرکز تھا لہٰذا خوشنونت سنگھ کی 99 سال کی عمر میں موت کو زیادہ اہمیت نہ ملی۔ خوشونت سنگھ صرف ایک سکور سے اپنی سنچری مکمل نہ کرسکے۔ پاکستان اور بھارت کے کرکٹ میچ کے ہنگامے میں خوشونت سنگھ میرے ذہن پر مسلسل سوار رہے۔ مجھے ان سے کئی دفعہ ملنے اور ان کا انٹرویو کرنے کا موقع ملا۔ وہ اس عہد کے ان چند صحافیوں اور ادیبوں میں شمار ہوتے تھے جن کی میں دل کی گہرائیوں سے عزت کرتا ہوں۔ کچھ لوگوں کے لئے وہ ایک پاگل بڈھا اور بدتمیز لکھاری تھا لیکن ایک قار ی کی حیثیت سے خوشونت سنگھ کی اکثر کتابیں میرے لئے علم کا خزانہ ثابت ہوئیں۔ پاکستان میں اکثر لوگ ان کے بارے میں صرف اتنا جانتے ہیں کہ وہ خوشاب کے علاقے ہڈالی میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے’’ٹرین ٹو پاکستان‘‘ کے نام سے تقسیم ہند پر کتاب لکھی اور 1984ء میں اندرا گاندھی کے حکم پر امرتسر کے گولڈن ٹمپل پر فوجی آپریشن ہوا تو خوشونت سنگھ نے بھارت کا ایک بڑا قومی اعزاز پدما بھوشن واپس کردیا۔ پاکستانیوں کے لئے یہ تعارف کافی نہیں۔خوشونت سنگھ کو بھارت میں پاکستان کا بہت بڑا دوست نہیں بلکہ پاکستان کا ایجنٹ بھی سمجھا جاتا تھا۔ ان کے پاکستان میں بہت سے اچھے دوست تھے۔ اپنے ان دوستوں کی وجہ سے وہ پاکستان سے پیار کرتے تھے۔ جب منظور قادر اور فیض احمد فیض سمیت ان کے کئی پاکستانی دوست ا س دنیا سے چلے گئے تو پھر کہا کرتے تھے’’ اوئے یارو! اس پاکستان کا خیال کیا کرو یہاں ہمارے دوستوں کی قبریں ہیں، پورے ملک کو تو قبرستان نہ بنائو‘‘۔ خوشونت سنگھ نے اپنی زندگی میں ایک سو کے قریب کتابیں اور ہزاروں کالم لکھے۔ موت ان کا ہمیشہ محبوب موضوع رہی۔ انہوں نے اپنی موت پر پہلی تحریر 1947ء سے بھی پہلے لکھی تھی لیکن انہوں نے بہت لمبی عمر پائی۔ ہم سب میں بہت سی خامیاں اور تضادات پائے جاتے ہیں لیکن ہم ان کا اعتراف نہیں کرتے۔ خوشونت سنگھ اپنی خامیوں اور تضادات کا اعتراف بھی کرتے اور اپنا مذاق بھی اڑایا کرتے، جب میری ان سے پہلی ملاقات ہوئی تو میں نے بڑے فخر سے بتایا کہ سر میں بھی آپ کی طرح راوین ہوں۔ ہنسنے لگے کہا کہ تمہاری عمر میں ہم بھی اپنے بزرگوں پر راوین ہونے کا رعب جماتے تھے لیکن برخوردار گورنمنٹ کالج لاہور میں پڑھ لینا کوئی اعزاز نہیں وہاں جو پڑھا ہے اس پر عمل بھی تو کرکے دکھائو۔ یہ سن کر میں خاموش ہوگیا،خوشونت سنگھ پھر ہنسنے لگے، کہا اقبال اور فیض بھی راوین تھے ان کی پہچان گورنمنٹ کالج نہیں ان کی شاعری ہے آج گورنمنٹ کالج ان پر فخر کرتا ہے تم بھی زمانے میں اپنی پہچان پیدا کرو تاکہ گورنمنٹ کالج تم پر فخر کرے۔
2003ء میں پاکستان اور بھارت کے تعلقات سخت کشیدہ تھے۔ دونوں ممالک میں فضائی رابطے منقطع ہوچکے تھے۔ میں کولمبو کے راستے نئی دہلی پہنچا اور بھارتی وزیر خارجہ یشونت سہنا کا جیو ٹی وی کے لئے انٹرویو کیا۔ خوشونت سنگھ اس انٹرویو پر بہت خوش ہوئے کیونکہ اس انٹرویو سے پاک بھارت روابط کی بحالی کا آغاز ہوا۔ پنجابی کی معروف ادیبہ اجیت کور اور ان کی بیٹی ارپنا کور کے ذریعہ مجھے پیغام بھیجا کہ شام کو گھر آجانا۔ اجیت کور نے مجھے صاف صاف بتادیا کہ شام کو سردار خوشونت سنگھ کے دربار میں پینے پلانے والوں کی محفل لگے گی جانا ہے تو شوق سے جائو لیکن اگر پاک صاف ملاقات کرنا چاہتے ہو تو کل یا پرسوں میرے ساتھ صبح کے وقت چلے چلنا۔ میں نے صبح کی ملاقات کو مناسب سمجھا اور اپنے دہلی میں قیام میں توسیع کردی۔ اگلے دن اجیت کور اور ارپنا کے ہمراہ خوشونت سنگھ کے پاس حاضر ہوا تو انہوں نے ایک دفعہ پھر مسکراہٹوں اور قہقہوں کا انبار لگادیا۔ انہیں اردو زبان سے بہت محبت تھی۔ کہنے لگے کہ سیکولر بھارت میں اردو ختم ہورہی ہے یہ صرف بوڑھے مسلمانوں کی زبان بن کر رہ گئی ہے۔ وہ خدا کو نہیں مانتے تھے لیکن خدا سے بہت ڈرتے تھے۔ اپنے آپ کو سیکولر کہتے تھے لیکن بھارتی سیکولر ازم کی ناکامی پرThe end of India(بھارت کا خاتمہ) کے نام سے کتاب لکھ ڈالی۔ اس کتاب میں بھارت کے مسلمانوں اور مسیحیوں کے ساتھ ہندو انتہا پسندوں کے ظلم و ستم اور کانگریس کی منافقتوں پر زبردست تنقید کی۔ اندرا گاندھی نے بھارت میں ایمرجنسی لگائی تو خوشونت سنگھ نے اس ایمرجنسی کی حمایت کی۔ اسی اندرا گاندھی نے گولڈن ٹمپل میں آپریشن کیا تو خوشونت سنگھ نے پدما بھوشن واپس کردیا۔ ایک دفعہ میں نے پوچھا کہ آپ کسی مذہب کو نہیں ماتنے لیکن آپ کا حلیہ سکھوں والا ہے آپ گوردوارے بھی نہیں جاتے لیکن گولڈن ٹمپل پر کارروائی ہوئی تو بڑا غصہ دکھایا کیا یہ کھلا تضاد نہیں؟ جواب میں کہا تم ٹھیک کہتے ہو لیکن یہ کیوں بھول گئے کہ میں آخر کو ایک سکھ ہوں اور اکثر سکھ ایسے ہی ہوتے ہیں۔ یہ کہہ کر خود بھی ہنسے اور مجھے بھی ہنسا دیا۔
خوشونت سنگھ نے 1971ء کے سقوط ڈھاکہ کے بعد اہل پاکستان پر ایک بڑا احسان کیا۔ سب سے پہلے تو انہوں نے بھارت کے پاس موجود 90 ہزار پاکستانی قیدیوں کی رہائی کا مطالبہ شروع کیا۔ پھر وہ پاکستان آئے اور وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کو ملے۔ انہوں نے بھٹو اور اندرا گاندھی میں رابطوں کے ذریعہ شملہ مذاکرات کا راستہ ہموار کیا اور پھر شملہ معاہدے کے بعد پاکستان کے قیدی رہا ہوگئے۔ خوشونت سنگھ پاکستان اور بھارت کے درمیان ویزے کی پابندیوں کے خلاف تھے۔ وہ کہا کرتے کہ مستقبل قریب میں یہ پابندیاں ختم ہوتی نظر نہیں آتیں لیکن ایک وقت آئے گا کہ دونوں ممالک ایک دوسرے کے پرامن ہمسائے نہیں بلکہ اچھے دوست بھی بن جائیں گے۔ وہ مسئلہ کشمیر کی اہمیت سے کبھی انکار نہیں کرتے تھے لیکن کہتے کہ وادی کشمیر کے پاکستان سے الحاق کے نتائج بھارت کے کروڑوں مسلمانوں کے حق میں اچھے نہیں ہونگے بہتر یہ ہوگا کہ پاکستان اور بھارت مذاکرات کے ذریعہ وادی کو اقوام متحدہ کی نگرانی میں خود مختاری دیدیں۔خوشونت سنگھ کا ایک بہت بڑا کارنامہ یہ تھا کہ انہوں نے علامہ اقبال ؒکے شکوہ جواب شکوہ کا انگریزی میں ترجمہ کیا۔ بھارت میںگوپی چند نارنگ اور جگن ناتھ ا ٓزاد نے بھی اقبالؒ پر بہت کام کیا ہے لیکن خوشونت سنگھ اپنے انگریزی کالموں اور کتابوں کے ذریعہ اقبالؒ کاپیغام پھیلاتے رہے۔ وہ اقبالؒ کو رابندر ناتھ ٹیگور سے بڑا شاعر مانتے تھے۔
ان کا وجود بھارت میں اقلیتوں کے لئے کسی نعمت سے کم نہ تھا۔ بہت سال پہلے انہوں نے گستاخ رسولؐ سلمان رشدی کی کتاب کی بھارت میں اشاعت کا راستہ روکا بلکہ جب یہ کتاب برطانیہ میں شا ئع ہوگئی تو خوشونت سنگھ نے اس کتاب پر بھارت میں پابندی لگانے کا مطالبہ کیا۔ سلمان رشدی کی کتاب شیطانی آیات کا مسودہ ایک اشاعتی ادارے پینگوئن نے مشورے کے لئے خوشونت سنگھ کے پاس بھیجا اور پوچھا کہ اسے شائع کریں یا نہ کریں؟ خوشونت سنگھ نے کہا کہ یہ کتاب شائع نہ کی جائے کیونکہ اس سے مسلمانوں کے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچے گی۔ یہ کتاب بھارت کی بجائے برطانیہ میں شائع ہوئی تو خوشونت سنگھ نے لکھا کہ سلمان رشدی مسلمان گھرانے میں پیدا ضرور ہوا لیکن اسے اسلام کا کچھ پتہ نہیں۔16 فروری 2008ء کو خوشونت سنگھ نے دی ٹیلی گراف میں نبی کریم حضرت محمد ؐ کی شان میں ایک کالم لکھا اور مسلمانوں کے پیارے نبی ؐ کے خلاف بولنے والوں کو مشورہ دیا کہ وہ محمدؐ پر کیرن آرمسٹرانگ کی کتاب پڑھیں۔ یہ بھارتی جمہوریت کا حوصلہ ہے کہ ہندوئوں کے اکثریتی ملک میں خوشونت سنگھ کو برداشت بھی کیا گیا اور انہیں عزت بھی دی گئی۔ پاکستانیوں کو اپنے ارد گرد کوئیخوشونت سنگھ تلاش کرنا چاہئے جو پاکستان میں رہ کر پاکستان کی مذہبی اقلیتوں کے حقوق کیلئے ا ٓواز اٹھا سکے۔ کیا ہم پاکستان میں کسی خوشونت سنگھ کو برداشت کرسکیں گے۔