• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
گزشتہ ایک ہفتے تمام ٹی وی چینلز، اخبارات، حکومتی مشینری اور بزنس کمیونٹی کے حلقوں میں حکومت کی بہتر معاشی کارکردگی کی وجہ سے روپے کی قدر میں استحکام موضوع بحث بنا رہا۔ 15 مارچ کو اسٹیٹ بینک کی مالیاتی پالیسی کا آئندہ 2 ماہ کے لئے اعلان ہوا، توقع کی جارہی تھی کہ افراط زر میں کمی (7.9%) اور روپے کی قدر 6%مستحکم ہونے کے پیش نظر اسٹیٹ بینک 10%ڈسکائونٹ ریٹ کی شرح میں کم از کم 0.5% کمی کرے گا لیکن اسٹیٹ بینک نے خلاف توقع اپنے ڈسکائونٹ ریٹ کی شرح میں کمی نہیں کی۔ اسٹیٹ بینک کے مطابق گزشتہ چند ماہ کے دوران تقریباً تمام معاشی اشاریوں میں بہتری آئی ہے۔ افراط زر یعنی مہنگائی میں کمی ہوئی ہے اور شرح نمو مضبوط رہی ہے اور امید کی جارہی ہے کہ سال کے آخر تک یہ 4.4% تک رہے گی۔ اسی طرح مالی سال کی پہلی ششماہی میں مالی خسارے میں کمی ہوئی اور حکومت کا رواں مالی سال 6% اور آئندہ 3 سالوں میں اسے 4% تک لانے کا ہدف ہے۔ نجی شعبے کے قرضوں میں اضافہ ہوا ہے جو مالی سال کی پہلی ششماہی میں 53 ارب روپے سے بڑھ کر 231 ارب روپے تک پہنچ گئے ہیں۔ ملکی زرمبادلہ کے ذخائر 7.59 بلین ڈالر سے بڑھ کر 9.37 بلین ڈالر تک پہنچ گئے ہیں جس میں اسٹیٹ بینک کے 4.6 ارب ڈالر شامل ہیں۔ وزیر خزانہ کے مطابق 31مارچ کے آخر تک یہ 10 بلین ڈالر تک ہوجائیں گے جس کی وجہ سے امریکی ڈالر کی نسبت روپے کی قدر میں 6%اضافہ ہوا ہے۔ بڑے پیمانے کی صنعتوں میں 4% ہدف کے مقابلے میں 6.3%گروتھ ہوئی ہے، مشینری کی امپورٹ میں 26% اضافہ ہوا ہے۔ ایف بی آر نے گزشتہ مالی سال کے مقابلے میں رواں مالی سال کے پہلے 8 ماہ میں 1.3 کھرب روپے ریونیو وصول کیا ہے جو گزشتہ سال کے مقابلے میں 17.7% زیادہ ہیں۔کراچی اسٹاک ایکسچینج 27000 کی ریکارڈ سطح تک پہنچ چکا ہے جو ملکی و غیر ملکی سرمایہ کاروں کے اعتماد کا مظہر ہے۔ بیرون ملک سے بھیجی جانے والی ترسیلات زر میں بھی ریکارڈ اضافہ ہوا ہے جو رواں مالی سال کے اختتام تک 15 بلین ڈالر تک پہنچنے کی توقع ہے۔
اسٹیٹ بینک کی مالیاتی پالیسی کی جائزہ رپورٹ کے مطابق حکومت کو کئی چیلنجوں کا سامنا ہے جسے دور کرکے ہی مطلوبہ گروتھ حاصل کی جاسکتی ہے۔ اسٹیٹ بینک نے بیرونی قرضوں کی ادائیگی اور اسٹیٹ بینک سے لئے گئے حکومتی قرضوں پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ اسٹیٹ بینک نے حکومت کو تجارتی خسارے میں کمی کرنے کی تجویز دی ہے۔رواں مالی سال کی چوتھی سہ ماہی میں حاصل ہونے والے غیر ملکی فنڈز کے حصول میں بہتری کا امکان ہے جو ہمیں وقتی طور پر قرضوں کی ادائیگی کے لئے سہولت فراہم کرسکتا ہے لیکن طویل المدتی استحکام کے لئے ہمیں ایک مربوط حکمت عملی کے تحت اپنے غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر کو مسلسل بڑھانا ہوگا۔ رواں مالی سال کے پہلے 7 ماہ کے دوران آنے والی خالص سرمایہ جاتی اور مالی رقوم جو 428 ملین ڈالر تھیں انہیں ابھی تک اِسی مدت میں ہونے والے بیرونی جاری کھاتے کے خسارے 2055 ملین ڈالر سے کم سمجھا جارہا ہے۔
فیڈریشن آف پاکستان کے صدر ذکریا عثمان اور کراچی چیمبرکے صدر عبداللہ ذکی نے اپنے بیانات میں بزنس کمیونٹی کے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے اسٹیٹ بینک کے ڈسکائونٹ ریٹ میں کمی نہ کرنے پر مایوسی ظاہر کی ہے۔ میری اپنی رائے بھی یہی ہے کہ افراط زر میں کمی اور روپے کی قدر میں استحکام کو دیکھتے ہوئے اسٹیٹ بینک کو اپنے ڈسکائونٹ ریٹ میں کمی کرنا چاہئے تھی۔ میں اپنے کئی کالموں میں یہ لکھ چکا ہوں کہ ایک اچھی مانیٹرنگ پالیسی کے مقاصد میں افراط زر کو کنٹرول کرنے کے ساتھ ساتھ ملکی گروتھ کو بھی برقرار رکھنا ہوتا ہے۔ پاکستان میں بیروزگاری اور غربت میں کمی کے لئے ہمیں آئندہ 5 سالوں میں 6% سے 7% اوسط گروتھ حاصل کرنا ہو گی جس کے لئے بینکوں کے قرضوں کے شرح سود میں کمی ضروری ہے تاکہ ملک میں سرمایہ کاری اور صنعتی عمل جو موجودہ حالات میں جمود کا شکار ہے، کو فروغ ملے لیکن اس کے لئے ہمیں ملک میں توانائی اور امن و امان کی صورتحال کو بہتر بنانا ہوگا۔ گزشتہ ہفتے وزیراعظم میاں نواز شریف نے کراچی میں KCCI ایکسپورٹ ٹرافی ایوارڈ میں انہی دونوں اہم ایشوز پر بات کرتے ہوئے بتایا کہ اُن کی حکومت چین سے بجلی پیدا کرنے کے 1100 میگاواٹ کے 3 پلانٹس پر مذاکرات کررہی ہے جس سے مجموعی طور پر 3300 میگاواٹ بجلی حاصل ہوگی۔ اس کے علاوہ 1200 میگاواٹ کے ایک پلانٹ سے اضافی بجلی نیشنل گرڈ پر منتقل کی جائے گی جبکہ پورٹ قاسم پر کوئلے سے چلنے والے 600 میگاواٹ کے 2 پلانٹس سے مجموعی 1200 میگاواٹ بجلی حاصل ہوگی۔ اس کے علاوہ گڈانی میں 10 پاور پروجیکٹس پر کام شروع ہونے والا ہے جبکہ چین نے تھر میں کوئلے سے چلنے والے 10بجلی گھر تعمیر کرنے کا اعلان کیا ہے۔ وزیراعظم کے مطابق پاکستان میں 65 سالوں کے دوران مجموعی طور پر 17000 میگاواٹ بجلی نیشنل گرڈ میں منتقل کی گئی جبکہ موجودہ حکومت 21000 میگاواٹ اضافی بجلی نیشنل گرڈ کو فراہم کرے گی۔ اضافی بجلی نیشنل گرڈ میں منتقل کرتے وقت حکومت کو چاہئے کہ وہ اپنے انرجی مکس میں تبدیلی لائے اور فرنس آئل سے مہنگی بجلی پیدا کرنے کے بجائے متبادل ذرائع جس میں ہائیڈرو، کوئلے، ونڈمل، سولر اور نیو کلیئر سول انرجی شامل ہیں سے زیادہ سے زیادہ سستی بجلی پیدا کرکے بجلی کی اوسطاً پیداواری لاگت میں کمی لائے جس کیلئے ہائیڈرو پاور کے اہم منصوبوں دیامیر، بھاشا، داسو اور بن جی ڈیمز کو پایہ تکمیل تک پہنچانا ضروری ہے۔ کوئلے اور ہائیڈرو سے آئندہ 5 سالوں میں بجلی پیدا کرنے کیلئے ہمیں تقریباً 25 سے 30 بلین ڈالر سرمایہ کاری کی ضرورت ہے تاکہ ملک میں بجلی کی طلب اور رسد کا فرق ختم کیا جاسکے۔ بجلی کی کمی کو پورا کرنے کیلئے ہمیں 2018ء تک ہر سال تقریباً 3500 میگاواٹ اضافی بجلی پیدا کرنا پڑے گی۔ چین پاکستان میں 20 ارب ڈالر کے توانائی اور انفرااسٹرکچر کے مختلف منصوبوں میں سرمایہ کاری کا اعلان کرچکا ہے۔ اس وقت صرف چین پاکستان کو سول نیوکلیئر انرجی سے بجلی پیدا کرنے کی ٹیکنالوجی فراہم کررہا ہے۔ چین کے چشمہ I اور چشمہ II کے سول نیوکلیئر کے 2 پلانٹ پاکستان میں کامیابی سے 600 میگاواٹ بجلی پیدا کررہے ہیں جبکہ چین نے مجموعی 680 میگاواٹ کے چشمہ III اور چشمہ IV کے لئے پاکستان سے معاہدہ کیا ہے۔ وزیراعظم پاکستان نے چین کے ساتھ کراچی میں سول نیوکلیئر انرجی کے 2,117میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کے K-2 اور K-3 پروجیکٹس کا بھی اعلان کیا ہے جو 2016-17ء تک مکمل ہو جائینگے۔ چین اس پروجیکٹ کیلئے پاکستان کو 6.5 بلین ڈالر قرضہ فراہم کرے گا جو 20 سالوں میں ادا کیا جاسکے گا۔ ملک میں انرجی کی کمی کو پورا کرنے کیلئے موجودہ حکومت ہنگامی بنیادوں پر قطر سے 400MMCFT ایل این جی گیس امپورٹ کرنے کا ارادہ رکھتی ہے جس کیلئے پورٹ قاسم میں ایل این جی ٹرمینل کی تعمیر کا ٹھیکہ بھی دیا جا چکا ہے۔ ایران سے 700MMCFT گیس حاصل کرنے کے پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبے پر عالمی پابندیوں کے باعث کوئی خاص پیشرفت نہیں ہورہی جبکہ امریکہ کی خواہش ہے کہ پاکستان، ترکمانستان گیس پائپ لائن منصوبے (TAPI) جو ایک طویل المدتی منصوبہ ہے، سے اپنی گیس کی ضروریات پوری کرے۔ پوری دنیا کے معاشی ماہرین پاکستان کے پوٹینشل کے بارے میں مثبت رائے رکھتے ہیں۔
حال ہی میں معاشی ماہرین نے پیش گوئی کی ہے کہ پاکستان جو عالمی درجہ بندی میں اس وقت دنیا کی 44 ویں بڑی معیشت ہے، 2050ء تک دنیا کی 18ویں بڑی معیشت بن جائے گا۔ ملک میں امن و امان کے لئے حکومت طالبان سے مذاکرات کررہی ہے۔ میری دعا ہے کہ یہ مذاکرات کامیاب ہوں تاکہ ملک میں امن و امان قائم ہو اور ملک صنعتی و معاشی طور پر مضبوط ہو۔ آج کے کالم میں، میں نے ملکی معاشی کارکردگی کا جائزہ لیتے ہوئے مستقبل میں معاشی ترقی کے راستے میں حائل دو بڑی رکاوٹوں توانائی کے بحران اور امن و امان کی صورتحال جیسے اہم مسائل پر روشنی ڈالی ہے اور ان حکومتی اقدامات کا ذکر کیا ہے جن پر عملدرآمد کرکے ہم یقینی طور پر مطلوبہ معاشی ترقی حاصل کرسکتے ہیں۔
تازہ ترین