• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
حکومت پاکستان اب ایک نئی انتظامی پالیسی وضع کرنے جارہی ہے جس کا مقصد مبینہ طور پر زنگ آلود انتظامی مشینری کو فعال و مستعد بنانا ہے۔ میں اپنے گزشتہ کالموں میں یہ بات واضح طور پر لکھتا رہا ہوں کہ حقدار کو اس کا حق ملناچاہئے۔کسی بھی ریاست کا تصور ایک فعال انتظامی مشینری کے بغیر محال ہے۔نوآبادیاتی نظام کی بات کرنے والے یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ اگر سول سروس کی جڑیں غیر منقسم برطانوی دور میں تلاش کی جاسکتی ہیں تو بعینہ ہمارے دیگر شعبے مثلاً مسلح افواج، عدلیہ بھی اسی دور کی پیداوار ہیں۔ خود جمہوریت بھی اسی دور میں ہی متعارف ہوئی۔یہ درست ہے کہ سرکاری افسران اور سول سرونٹ ایک منظم اور پیشہ ورانہ نظام کی بنیاد فراہم کرتے ہیں جو کسی بھی ملک کا انتظام و انصرام سنبھالنے کیلئے لازم ہے مگر بدقسمتی سے ماضی کی مختلف حکومتیں نے اس نظام کو بہتر بنانے کے بجائے اپنی مشق ستم کے ذریعے الٹا اسے نقصان ہی پہنچاتی رہی ہیں۔ مارشل لا کے دور میں 303اور پھر ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں 1200سول سرونٹ ملازمت سے نکالے گئے۔ بھٹو صاحب کی سول سروس ریفارمز نے وہ آئینی گارنٹی جو سول سرونٹس کو آئینی تحفظ مہیا کرتی تھی یکسر ختم کر دی۔ جس کا مقصد واضح تھا کہ نوکری کرنی ہے تو اطاعت و فرمانبرداری کو اپنا شعار بنائؤ۔ اب میاں صاحب نے اس ضمن میں بہتری کی ٹھانی ہے تو انہیں یاد رکھنا ہو گا کہ یہ نازک کام وہ جن لوگوں کے سپرد کرنے چلے ہیں۔ شاید وہ خود کسی دور میں اعلیٰ ملازمتوں کے امتحان میں شامل ہوئے ہوں اور مقررہ استعداد نہ ہونے کے باعث کامیاب نہ ہوئے ہوں ۔ان کی ذاتی رنجش یقینًا اس معاملے میں کارفرمارہے گی۔ یاد رہے کہ آپ سے پہلے جس آمر نے اس ملک کو نقصان پہنچایا اس نے بھی اپنے ایسے مشیروں کے زیر اثر اس ملک کی انتظامی مشینری تحلیل کی اور پھر اس کا نتیجہ سب نے دیکھا کہ مہنگائی، بدانتظامی کا جن بوتل سے ایسا باہر آیا ہے کہ اب واپس جانے کا نام نہیں لے رہا۔ افسران ایک وضع کردہ طریقے کے تحت پبلک سروس کمیشن کے امتحان کی کڑی آزمائش کے بعد چنے جاتے ہیں ۔جن کو مختلف مدارج صرف صلاحیت ،تعلیم اور کارگردگی کے بل بوتے پر طے کرنا ہوتے ہیں۔ اس سارے عمل میں قوم کا زرکثیر صرف ہوتا ہے۔اسی وجہ سے ہندوستان میں انڈین ایڈمنسٹریٹو سروس کے افسران کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ کبھی ریٹائر نہیں ہوتے ،بلکہ ریٹائرمنٹ کے بعد بھی اپنے ملک و قوم کے لئے خدمات انجام دیتے ہیں۔آزادی کے بعد کانگریس کے بعض زورآزما اس حق میں تھے کہ ہندوستان سے آئی سی ایس افسران کا خاتمہ کردیا جائے کہ یہ دور غلامی کی یاد ہیں۔ مگر ولبھ بھائی پٹیل نے اس خیال کی مخالفت کی اور کہا کہ ہم ان افسروں کو اپنے ملک کے لئے استعمال کریں گے اور وقت نے ثابت کیا کہ یہی انڈین ایڈمنسٹریٹو سروس کے افسران ایسا آہنی فریم ثابت ہوئے جس نے ہندوستان کو تقسیم ہونے سے بچایا۔جواہر لال نہرو جنہوں نے تحریک آزادی کے بعد ہندوستان کی وزارت عظمیٰ سنبھالی خود سول سروس کا امتحان پاس نہ کر پائے تھے مگر اس کے باوجود انہوں نے سول افسران کو عزت دی اور کہا کہ انہوں نے وہ کیا ہے جو وہ خود نہیں کر پائے مگر ایک ہم ہیں جس کو دیکھو لٹھ اٹھائے سول افسران کے پیچھے پڑا رہتا ہے۔ بھئی اگر ان کی کارکردگی اچھی نہیں تو اس کی کیا وجوہات ہیں۔کبھی اس کی طرف بھی غور کیا ہے۔یہی سول افسران بھی اسی عزت کے حقدار ہیں جس کا کوئی دوسرا ہو اور ان کو ہر بات پر معتوب قرار دینامناسب نہیں۔اگر آپ کبھی قانون ،آئین کو بنیاد بنائیں اور ہر آدمی اپنے فرائض اس کے مطابق سر انجام دے تو کبھی کسی کو شکایت کا موقع نہ ملے۔سول افسران پر بھی بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ کسی بھی ناجائز حکم پر عمل نہ کریں کیونکہ قائداعظم محمد علی جناح کا سول افسران کے لئے واضح پیغام موجود ہے جو سول سروس اکیڈمی میں پڑھائے جانے کے ساتھ ساتھ دفاتر کی دیواروں پر بھی چسپاں ہے کہ آپ ریاست کے ملازم اور عوام کے خادم ہیں ۔آپ نے پولیٹیکل ماسٹر نہیں بننا۔ ایسے میں ہی اے کے لودھی اور عبداللہ صاحب جیسے بیوروکریٹ یاد آجاتے ہیں جنہوں نے صحیح معنیٰ میں سول سرونٹ بن کر دکھایا۔اب بھی ملک میں ایسے ایماندار ومحنتی افسران موجود ہیں جن کا کوئی جوڑ نہیں۔تاریخ گواہ ہے کہ افسران کی تعیناتیاں وطن عزیز میں میرٹ اور استعداد کی بنیاد پر نہیں بلکہ سیاستدانوں کی ذاتی پسند اور ناپسند کی بنیاد پر کی جاتی ہیں ،جس کا نتیجہ سب کے سامنے ہے۔ کیا ہی اچھا ہوتا اگر حکومت اپنے ان افسران پر اعتماد کرے۔ جس طرح ہم مسلح افواج کے افسران پر اور عدلیہ کے ارکان پر اعتماد کرتے ہیں۔ میں نہیں سمجھتا کہ ہمارے سول افسران حب الوطنی میں کسی سے پیچھے ہیں۔ اس قحط الرجال میں بھی پاکستان میں اچھے لوگوں کی کمی نہیں ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ جناب وزیراعظم اپنے مشیروں کے علاوہ خود وقت نکال کر ان افسران کی انفرادی کارکردگی کا جائزہ لیں اور اپنے لئے ایک مستعد ٹیم منتخب کریں۔ گنتی کے سینئر افسران کا جناب وزیراعظم کی سہولت کے مطابق انٹرویو کرلیا جائے۔ان کی ماضی کی کارکردگی اور صلاحیتیں سب جناب وزیر اعظم کے علم میں ہوں گی اگر وہ روزانہ دو یا تین افسران سے مل لیں تو دس پندرہ دن میں سارے سینئر افسران ان کے سامنے ہوں گے تو یقینی طور پر کسی وزارت یا محکمے کے لئے اہل افسران کا انتخاب خود کر سکیں گے۔ بجائے اس کے کہ وہ ان لوگوں کی رائے پر انحصار کریں جو ان سے مخلص نہیں۔ ماضی کی حکومتوں سے اگر مسلم لیگ ن کی حکومت کا موازنہ کیا جائے تو بجا طور پر کہا جاسکتا کہ حالیہ دور میں بہتر افسران کو موقع فراہم کیا گیا ہے۔ اہم عہدوں پر تعینات افسران پر بلاشبہ کرپشن یا اپنی ذمہ داری سے غفلت برتنے کا کوئی الزام نہیں ہے مگر اب بھی بہتری کی بہت گنجائش ہے۔بہت سی اہم اسامیاں خالی پڑی ہیں جن کے لئے اہل افسران کی اشد ضرورت ہے۔سرکاری افسران کی تنخواہ و مراعات واضح ہیں ،کسی بھی افسر کو مارکیٹ بیس تنخواہ کی نوید سنانا زیادتی ہو گی۔ بھلا قوم کیوں اپنے خزانے سے کسی ایسے افسر کو زیادہ تنخواہ دے جو پہلے اپنی تنخواہ لے رہا ہے۔ایسے اچھے افسر کیلئے اپنا کام درست وقت پر سرانجام دینا ہی باعث اعزاز ہے۔کسی بھی ایسی پالیسی کانفاذ مستقبل میں اچھے نتائج نہیں دے سکتا۔ میں نہایت اخلاص سے یہ بات واضح کرتا چلوں کہ گڈگورننس کا خواب تبھی پایہ تکمیل تک پہنچے گا جب آپ صحیح لوگوں کو صحیح مناصب تفویض کریں گے۔ از روئے قانون اور ازروئےشریعت حکمران اس بات کے مکلف ہیں کہ حق دار کو اس کا حق دیں۔ یاد رہے کہ جب ہم رب ذوالجلال کے حضور پیش ہوں گے تو ہم سے ہمارے اعمال کی پرسش ہو گی۔ فصلی بٹیرے عاقبت نا اندیش لوگ کس طرح آنکھیں بدلتے ہیں ہمارے وزیراعظم کو بھی اس کاذاتی طور پر مشاہدہ کرنے کا موقع مل چکا ہے اوران سے بہتر ان لوگوں کو شاید ہی کوئی جانتا ہو۔
خدارا ان ابن الوقت لوگوں کی باتوں میں آنے کے بجائے ان گزارشات پر توجہ فرمائیں اور آپ سے قوم، سول سوسائٹی اور سول افسران سب بجا طور پر توقع رکھتے ہیں کہ آپ جمہوری طریقے سے اپنے تمام فیصلے اپنی عقل سلیم کے مطابق کریں گے تو اس کا فائدہ یہ ہو گا کہ کل ہمیں کسی اور شرمندگی کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔
تازہ ترین