• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
قوم کو مبارک ہو کہ پاکستان کی کرکٹ ٹیم پہلا ٹی ٹونٹی ہار گئی ہے ۔ میں نے مبارک جان بوجھ کر دی ہے کہ جس ٹیم کے لئے آپ نے ڈھیروں کے حساب سے دعائیں کیں، جس کے لئے گیت گائے، جس کو نیوز بلیٹن میں پہلی خبر کا درجہ دیا وہ ٹیم بھارت سے باآسانی ہار گئی۔ بھارت کو ایسے محسوس ہو رہا تھا جیسے اس کے سامنے افغانستان یا ہانگ کانگ کی ٹیم ہو۔ ہانگ کانگ سیاحت کے حوالے سے خاصا معروف ہے جبکہ افغانستان کی شہرت کا حوالہ صرف جنگ و جدل ہے۔ ایک زمانے میں افغانستان بڑا دلکش ہوا کرتا تھا۔ آپ اس کا اندازہ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ سابق وفاقی وزیر انور سیف اللہ نے ہنی مون کابل میں منایا تھا پھر کچھ سالوں بعد کابل کو نظر لگ گئی اور وہ رہنے کے قابل بھی نہ رہا۔ ہانگ کانگ لوگ شوق سے دیکھنے آتے ہیں۔ ایک پاکستانی انیس باجوہ نے ہانگ کانگ میں ہوٹلنگ کی دنیا کو فتح کر رکھا ہے۔ باجوہ صاحب خوبصورت پاکستانی ہیں مگر دیکھنے والے انہیں آسٹریلوی دانشور سمجھتے ہیں۔
بات کرکٹ سے شروع ہوئی تھی پھر کرکٹ پر آ جاتے ہیں۔ پاکستانی ٹیم نے اپنے پہلے میچ میں انتہائی گندی فیلڈنگ ، گندی بیٹنگ اور ناقص بائولنگ کا مظاہرہ کیا۔ پاکستانی ٹیم اسے ٹی ٹونٹی نہیں ٹیسٹ میچ سمجھ کر کھیلی۔ شعیب ملک نے سسرال سے دوستی نبھائی۔ ہو سکتا ہے وہ ٹپ ٹپ نہ کرتے تو گھر جاتے ہی ثانیہ سے لڑائی ہو جاتی۔ پروفیسر حفیظ کے کلیے پرانے ہو چکے ہیں۔ اب انہیں چاہئے کہ اپنے پرانے نسخوں سمیت سرگودھا واپس چلے جائیں اور ان نسخوں سے نئی مٹھائیاں تیار کریں۔ ہو سکتا ہے وہ مٹھائیوں کے میدان میں ہلدی رام کو شکست دے دیں۔
جہاں تک قوم کا تعلق ہے قوم بے چاری دعائیں کرتی رہتی ہے۔ جیت ہار کھیل کا حصہ ہے مگر ہارنا لڑ کر چاہئے۔ پاکستانی ٹیم اپنا پہلا میچ بغیر لڑے ہاری، جس کا قوم کو دکھ ہے۔ پاکستانی کھلاڑیوں کو احساس کرنا چاہئے کہ ان کے پول میں تمام ٹیمیں بڑی خطرناک ہیں۔ آج کل سری لنکن ٹیم چھائی ہوئی ہے انہوں نے اپنے پہلے میچ میں جنوبی افریقہ کو شکست دی ہے اس کی واحد وجہ یہ ہے کہ لنکن کھلاڑی ٹی ٹونٹی کو ٹی ٹونٹی سمجھ کر کھیلتے ہیں۔
افسردہ خبریں ختم نہیں ہو رہیں۔ حب میں آئل ٹینکر اور مسافر کوچوں کے ٹکرائو سے کئی قیمتی جانوں کا نقصان ہوا ہے۔ اب اس پر کوئی نہ کوئی تفتیشی کمیٹی بن جائے گی۔ میں اپنے بچپن سے دیکھ رہا ہوں کہ جس کام کے لئے کوئی کمیٹی بنتی ہے پھر اس کام کا ستیاناس ہو جاتا ہے۔ آج تک جتنی کمیٹیاں بنی ہیں ان کا کوئی فائدہ سامنے نہیں آ سکا۔ اوجڑی کیمپ کے حادثے پر بھی ایک کمیٹی بنی تھی۔ کئی کاموں کیلئے کمیٹیاں بنتی ہیں مگر یہاں کمیٹی بننے کا مطلب کمیٹی ڈلنا ہے ۔اس ملک میں کمیٹیوں پر کمیٹیاں بنتی دیکھی ہیں مگر رزلٹ زیرو رہا ہے۔ یہی صورتحال کمیشن سے متعلقہ ہے۔ اس ملک میں آج تک جتنے بھی کمیشن بنے ہیں ان کی کارروائیاں بے نتیجہ ثابت ہوئی ہیں۔ کمیشن کو کمیشن تو مل جاتا ہے مگر جس مقصد کے لئے کمیشن بنتا ہے، وہ مقصد حاصل نہیں ہوتا۔ آپ کو یاد ہوگا ایک کمیشن حمود الرحمن کے نام سے بنا تھا، سنا ہے اس کی رپورٹوں کو دبا دیا گیا تھا جن رپورٹوں کو چھپا چھپا کر رکھا گیا تھا انہیں دشمن ملک نے بے نقاب کردیا۔ ایک کمیشن ایبٹ آباد سے متعلقہ بنا تھا اس کے اجلاس ہوتے رہے مگر نتیجے کی خبر نہیں۔ اسی طرح کے بے شمار کمیشن بنے ان کمیشنوں نے قوم کا وقت ضائع کیا، قوم کے لئے کچھ نہ کیا۔
ایک اور لفظ میں اپنے بچپن سے سنتا آرہا ہوں جب بھی کوئی واقعہ ہوتا ہے تو ہمارے حکمران بڑھک مارتے ہیں کہ مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے گا۔ میں سوچتا ہوں کہ آخر یہ’’کیفر کردار‘‘ کونسی منزل ہے جس کا سفر طے ہی نہیں ہورہا۔ آج سے برسوں پہلے وزیر آباد میں بے حرمتی کا ایک انوکھا واقعہ پیش آیا تھا، حکمرانوں کی بڑھک تھی کہ مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے گا ۔پھر برسوں بعد مختاراں مائی کا واقعہ ہوا تو یہی بڑھک تھی کہ ذمہ داروں کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے گا مگر ایسا نہ ہوسکا۔ عرصہ بعد پھر مظفر گڑھ میں طالبہ نے خود سوزی کی تو بڑھک پرانی ہی تھی۔ چنیوٹ میں واقعہ ہوا تب بھی پرانی بڑھک سے کام لیا گیا۔ ہماری روزمرہ زندگی میں روزانہ ایسے واقعات ہورہے ہیں جن پر حکمران یہی کہتے ہیں کہ مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے گا مگر افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ یہ منزل ہنوز بہت دور ہے۔
جہاں تک گڈ گورننس کا تعلق ہے تو حالت یہ ہے کہ صرف لاہور شہر میں 41 سرکاری سکولوں پر مافیا کا قبضہ ہے۔ سنا ہے کہ پندرہ سکول واگزار کروالئے گئے ہیں باقی سکولوں کی کوئی خبر نہیں کہ قبضہ گروپ انہیں چھوڑتا ہے یا نہیں۔ اس صورتحال میں غالب کا ایک مصرع ہی کافی ہے کہ ؎
تجھے ہم ولی سمجھتے جو نہ بادہ خار ہوتا
تازہ ترین