• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
یوں تو مقبوضہ وادی کشمیر کا کوئی ایسا گھرانا نہیں جہاں کوئی نہ کوئی شہید نہ ہو مگر جب برہان وانی کے اپنے بھائی کو بھارتی فوج نے نہایت درندگی کے ساتھ شہیدکیا تو اس کشمیری نوجوان کا درد و الم غم و غصے میں ہی نہیں عزم صمیم میں بھی ڈھل گیا۔ 22؍سالہ وانی نے یونیورسٹی کی تعلیم کو خیرباد کہہ دیا اور دل میں ٹھان لی کہ اب وہ جہاد کشمیر کو ایسا رخ دے گا کہ جس کے بعد ظلم و بربریت کی سیاہ رات ایک روشن صبح آزادی میں بدل کر رہے گی۔ کشمیری نوجوان نے یہ فیصلہ بھی کرلیا کہ بیرونی سہاروں کو مکمل طور پر خیرباد کہہ دیا جائے۔ برہان وانی کے ایک قریبی ذریعے نے مجھے گزشتہ روز بتایا کہ اس نے تہیہ کرلیا تھا اب آزادی کشمیر کے لئے جو کچھ کرنا ہے وہ اپنے اور اپنے خدا کے بل بوتے پر کرنا ہے اور سرحد پار کسی امداد کے لئے نہیں دیکھنا۔
کئی برس پہلے شروع ہونے والی برہانی تحریک نے آزادی کشمیر کی 25سالہ جدوجہد میں ایک انقلاب برپا کردیا ہے۔ برہان وانی نے چند دوستوں کے ساتھ مل کر کئی ہفتوں تک سوچ بچار کی اور وہ سب مل کر اس نتیجے پر پہنچے کہ جہاں مجرم ہی منصف ہوں اور جہاں ہندوستانی و عالمی سیاسی ادارے مظلوم کا نہیں ظالم کا ساتھ دے رہے ہوں وہاں تنگ آمد بجنگ آمد کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ وانی نے اپنے ہم خیال دوستوں کے ساتھ مل کر یہ فیصلہ بھی کیا کہ ہم جہاد کشمیر کو ایک نیا رخ دیں گے اور آج کے دور کا ایک انتہائی اہم اسلحہ کہ جو سوشل میڈیا کا اسلحہ ہے، کا بھی بھرپور استعمال کریں گے۔ اس ’’اسلحہ‘‘ کی بدولت وانی کو زبردست کامیابی نصیب ہوئی اور آزادی کشمیر کی جدوجہد ہر کشمیری نوجوان کے دل کی دھڑکن بن گئی۔ اس تحریک کی کامیابی کا اس بات سے اندازہ لگالیں کہ حزب المجاہدین سے تعلق رکھنے والے اس مجاہد کے جنازے میں شرکت کے لئے کم از کم ساڑھے چھ لاکھ کشمیری ان کے گائوں گئے۔ جہاں جگہ کم پڑ گئی اور برہان وانی کی نماز جنازہ 40مرتبہ ادا کی گئی۔
گزشتہ چار پانچ روز سے مقبوضہ کشمیر میں جگہ جگہ جلوس نکل رہے ہیں۔ نوجوان بھارتی بندوقوں اور توپوں کا سینہ تان کر سامنا کررہے ہیں۔ اس وقت تک 35کشمیری شہید ہوچکے ہیں اور زخمیوں کی تعداد ایک ہزار سے اوپر ہے جن میں بہت سے ایسے زخمی ہیں جن کی حالت نہایت تشویش ناک ہے۔ ان احتجاجی جلوسوں میں ایک بات بڑی واضح ہے کہ پاکستان کی سرد مہری کے باوجود کشمیری یکسو ہوچکے ہیں کہ اب وہ صرف اور صرف پاکستان سے الحاق کریں گے۔ وانی کے جنازے میں ساڑھے چھ لاکھ کشمیریوں کی شمولیت سے بڑا اور کون سا ریفرنڈم ہوگا۔ بھارتی مظالم اور درندگی دیکھ کر کٹھ پتلی کشمیری وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی کی سنگ بستہ رگ اشکبار بھی نمناک ہوگئی ہے۔ پاکستانی وزیر اعظم اور وزارت خارجہ کی طرف سے ایک ڈرا اور سہما ہوا احتجاج سیکرٹری خارجہ نے بھارتی ہائی کمشنر کو بلاکر اس کے سامنے پیش کیا۔ اس احتجاج کے جواب میں وہی پرانا بھارتی ردعمل سامنے آیا کہ مقبوضہ کشمیر میں جو کچھ ہورہا ہے۔ یہ بھارت کا داخلی مسئلہ ہے اور اس میں کسی کو دخل اندازی کا حق نہیں۔ کشمیر ایک متنازع ریاست ہے۔ اس لئے یہ بھارتی ردعمل بالکل بے وزن ہے۔
بھارتی قائدین کا مسلمانوں سے متعلقہ سیاسی معاملات میں ہمیشہ رویہ غیر دانشمندانہ رہا ہے۔ اب بھی نریندر مودی نے دہشت و بربریت کا جو بازار کشمیر میں گرم کر رکھا ہے اس کے نتیجے میں عسکریت پسند کشمیریوں کی ایک نئی جنریشن وجود میں آرہی ہے۔ بھارت اگر افہام و تفہیم اور دانشمندی کا راستہ اختیار کرتا تو اسے سات لاکھ بھارتی فوج کو وادی کشمیر میں اتارنے کی ضرورت پیش نہ آتی۔ بھارت دانش مندی کے بجائے ہٹ دھرمی سے کام لے کر بھارتی آئین کے آرٹیکل 370کو ختم کرنا چاہتا ہے جو مقبوضہ کشمیر کی منفرد حیثیت کو تسلیم کرتا ہے۔ گزشتہ چار پانچ روز میں جو کچھ ہوا وہ بغیر کسی فورم کے ہوا اور نہ کسی منصوبہ بندی یا تحریک کے ہوا۔ وانی کی ماورائے عدالت ہلاکت کے بعد کشمیریوں کے جذبات بھڑک اٹھے اور ازخود کشمیری سڑکوں پر نکل آئے۔ جب بھی وادی کشمیر میں حق خودارادیت کے لئے احتجاج کی لہر اٹھی ہے تو بھارت اسے توپ وتفنگ سے کچلنے کی کوشش کرتا ہے اور آگ و خون کا بدترین کھیل شروع کردیتا ہے۔ بھارتی قائدین کو معلوم ہونا چاہئے کہ ظلم جتنا بڑھتا ہے اتنا ہی کشمیریوں میں آزادی کا جذبہ بھڑکتا ہے۔
مقبوضہ کشمیر میں تو یہ سارا ردعمل ازخود سامنے آیا اور یہ احتجاج ازخود بے پناہ زور پکڑتا جارہا ہے۔ آل پارٹیز حریت کانفرنس کے سینئر ترین رہنما سید علی گیلانی نے اپنی نظربندی کے باوجود یہ بیان دیا ہے کہ کشمیریوں کو بھارتی فوج کے ظلم استبداد کے ساتھ دبایا نہیں جاسکتا۔ ادھر پاکستان کی سیاسی جماعتیں ٹی او آرز کی لاحاصل بحث میں الجھی ہوئی ہیں جبکہ آزاد کشمیر کی سیاسی جماعتیں 21؍جولائی کو ہونے والے انتخابات کی مہم میں مگن ہیں اور انہیں فرصت ہی نہیں کہ وہ آنکھ اٹھا کر دیکھیں کہ سرحد پار ان کے بھائیوں پر کتنی خوفناک قیامت گزر رہی ہے۔ میں نے اس تشویش ناک صورت حال کا اندازہ لگانے کے لئے امیر جماعت اسلامی آزاد کشمیر جناب عبدالرشید ترابی سے رابطہ کیا۔ ترابی صاحب ایک صاحب بصیرت اور درد منددل رکھنے والی شخصیت ہیں۔ میں نے جب ان سے پاکستان کی سیاسی و دینی جماعتوں کی کشمیر کاز سے بے رغبتی اور بے حسی کے بارے میں اپنی تشویش کا اظہار کیا تو انہوں نے کہا کہ بڑی حد تک آپ کی تشویش بجا ہے۔ اہل کشمیر کے ساتھ یک جہتی کا تقاضا تو یہ تھا کہ جیسے مقبوضہ کشمیر میں ازخود ایک بھرپور احتجاجی تحریک اٹھی اور اس نے 2010ء کے بعد تحریک آزادی کشمیر کی جدوجہد میں ایک نئی روح پھونک دی یہی کچھ پاکستان اور آزاد کشمیر میں ہونا چاہئے تھا مگر بدقسمتی سے یہاں ایسا کچھ نہیں ہوا۔ انہوں نے مجھے بتایا کہ جہاں تک جماعت اسلامی کا تعلق ہے اس نے آزاد کشمیر میں اپنی انتخابی مہم کو مقبوضہ کشمیر کے بھائیوں کے انسانی حقوق کی پامالی کے خلاف احتجاجی تحریک میں بدل دیا ہے۔ جناب عبدالرشید ترابی نے یہ بھی بتایا کہ 13؍جولائی کو انہوں نے سارے آزاد کشمیر میں مقبوضہ کشمیریوں کے ساتھ اظہار یک جہتی کے لئے احتجاجی مظاہرے کی کال دی ہے۔
آج تک میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ پاکستان کی ہر حکومت سیاسی لین دین اور سودے بازی کے لئے کشمیر کمیٹی کے چیئرمینی جناب مولانا فضل الرحمٰن کے حوالے کیوں کر دیتی ہے۔ مولانا محض بیرونی دوروں کے لئے پارلیمانی کشمیر کمیٹی کی چیئرمینی کو لین دین کا بنیادی نکتہ ٹھہراتے ہیں۔ مولانا نے عرب و غرب میں کبھی مسئلہ کشمیر کو نہیں اٹھایا اور نہ ہی کشمیر کاز کے لئے بین الاقوامی سطح پر کوئی مہم چلائی ہے اور نہ ہی کشمیر کے موضوع پر سیمیناروں اور کانفرنسوں کا کوئی خاطر خواہ اہتمام کیا ہے۔
بھارت میں اگر کسی سطح پر سمجھ داری اور دانش مندی کا معمولی سا بھی عمل دخل ہے تو اسے دہشت و بربریت اور ظلم و تشدد کے پامال راستوں کو خیرباد کہہ کر کشمیر کے بارے میں دانشمندانہ رویہ اپنانا چاہئے اور دو طرفہ مذاکرات شروع کرکے ایک وقت مقررہ کے اندر کشمیریوں کو ان کا حق خود ارادیت مہیا کرنے کا طریق کار طے کرنا چاہئے۔ کشمیریوں کو یہی حق 5؍جنوری 1949ء کو سیکورٹی کونسل نے دیا تھا جس پر انڈیا نے ساری دنیا کے سامنے آمناََ صدقناََ کہا تھا۔ آج پھر سیکرٹری جنرل بانکی مون نے مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالی پر اپنی تشویش کا اظہار کیا ہے۔ اس تشویش کو عملی اقدام میں بدلنا چاہئے اور اقوام متحدہ کو مظلوم کشمیریوں کے ساتھ حقیقی یک جہتی کا ثبوت دینا چاہئے۔ آکسفورڈ یونیورسٹی سے فارغ التحصیل بلاول بھٹو زرداری کو وزیر اعظم نواز شریف کیلئے ’’مودی کے یار کو ایک دھکا اور دو‘‘ جیسے بازاری انداز تنقید سے اجتناب کرنا چاہئے اور سنجیدہ انداز گفتگو اختیار کرنا چاہئے۔
پاکستانی حکومت کو تمام سیاسی جماعتوں کے ساتھ مل کر مظلوم کشمیری عوام کے ساتھ بھرپور اظہار یک جہتی کرنا ہوگا۔ یہی وقت کا تقاضا ہے۔ حکومت فوری طور پر مسئلہ کشمیر سیکورٹی کونسل میں اٹھائے نیز او آئی سی کا سربراہی اجلاس بھی طلب کرے۔ اگر سربراہی اجلاس ممکن نہ ہو تو مسلمان وزرائے خارجہ کا اجلاس تو ضرور بلانا چاہئے۔ حکومت نے اپنے سفارت خانوں کو مسئلہ کشمیر اجاگر کرنے کا مراسلہ بھیجا ہے۔ اس کے بارے میں یہی کہا جاسکتا ہے۔؎
خنجر اٹھے گا نہ تلوار ان سے
یہ بازو مرے آزمائے ہوئے ہیں
اس کے برعکس پاکستانی پروفیسروں، صحافیوں اور سیاست دانوں کو عرب و غرب کے اہم دارالحکومتوں میں بھیجنا چاہئے تاکہ وہ ہر جگہ عربی و انگریزی میں مسئلہ کشمیر کی حقیقت سے دنیا کو روشناس کراسکیں۔ جہاں تک برہان وانی کی تحریک کا تعلق ہے وہ ان کی شہادت سے تیز تر ہوگئی ہے۔ برہان وانی کے خون کی لالی سے کشمیر کے لہو رنگ افق پر جو الفاظ جلوہ گر ہوئے ہیں وہ یہ ہیں کہ ؎
توہین زندگی ہے سہاروں کی زندگی
اسی لئے اب کشمیریوں نے سہاروں کو خیرباد کہہ دیا ہے۔
تازہ ترین