• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ایدھی صاحب کی بات مکمل ہوئی تو میں نے آگے بڑھ کر اُن کے ہاتھوں کوا پنی بھیگی آنکھوں سے لگا کر انہیں ایک زور کی جپھی ڈالی اور پھر گندہ نالہ ، نالے پر جھاڑیوں اور جنگلی گھاس میں گھرا ایدھی ہوم ، ایدھی ہوم کا مچھروں بھرا لان ،لان میں ٹوٹی2 کرسیاں اور 3ٹانگوں والا میز ، میز پر میلے کچیلے کپوں میں بے رنگ چائے اور چائے کے ساتھ کاغذ پر پڑے بسکٹ ، ایدھی صاحب سے گلے لگتے ہی نہ صرف یہ سب غائب ہوا بلکہ یقین جانئے مجھے تو اُس وقت بھی اس زمینی فرشتے سے آسمانی خوشبوئیں آ رہی تھیں ، مگر یہ تفصیل ذرا بعد میں، پہلے کچھ ذکر ایدھی صاحب سے پہلی ملاقات اور 17سالہ تعلق کا !
سال 1999ء اور گرمیوں کی ایک تپتی دوپہر ، وفاقی دارالحکومت کے ایک پرائیویٹ اسپتال سے نکل کر جیسے ہی میں سڑک پر آیا تو سڑک کے کنارے کھڑی ایدھی ایمبولینس ، ایمبولینس کے ساتھ درخت کے نیچے فٹ پاتھ پربیٹھے 3چار لوگ اور ان لوگوں کے درمیان عبدالستار ایدھی دکھائی دیئے ، قراقلی ٹوپی ، ملیشیا کی شلوار قمیض اور ربڑکی چپل پہنے گرمی، پسینے اور گاڑیوں کے دھوئیں سے بے نیاز گرم فٹ پاتھ پر بڑے سکون سے بیٹھے اپنے پسندیدہ ایدھی صاحب کے قریب پہنچ کر جب میں نے ان کے سامنے بچھے کپڑے اور کپڑے پرپڑے نوٹ دیکھے تو مجھے پتا چل گیا کہ وہ چندہ اکٹھا کرنے کی مہم پر ، میں نے ان سے ہاتھ ملایا، مشینی انداز میں اپنی جیبیں خالی کیں ،سب کچھ بچھے کپڑے پر رکھا اور پھر درخت کے نیچے وہیں فٹ پاتھ پر بیٹھ گیا ، وقفے وقفے سے آتے لوگ ایدھی صاحب سے ہاتھ ملاتے ، حال احوال پوچھتے اور حسب ِ استطاعت پیسے دے کر چلے جاتے ، تھوڑی دیر بعد جب ایک خاتون پیسوں کے ساتھ جوس کے ڈبے اور پانی کی بوتلیں بھی دے گئی تو اپنے اِردگرد بیٹھے لوگوں میں پانی اور جوس تقسیم کرتے کرتے ایدھی صاحب نے جوس کا ایک ڈبہ میری طرف بھی بڑھایا ، بس پھر کیا ، میں تو اسی موقع کی تلاش میں تھا، پہلے تو میں نے جوس کا اتنی بار شکریہ ادا کیا کہ ایدھی صاحب میرا شکریہ ادا کرنے پر مجبور ہو گئے ، پھر دوچار باتوں کے بعد لوہا گرم دیکھ کر جب میں نے انہیں آہستہ سے یہ بتا یا کہ میرا تعلق صحافت سے ہے تو نہ صرف اُنہوں نے مجھ سے بات چیت شروع کر دی بلکہ ان کے لہجے میں اپنائیت آئی اور کچھ دیر بعد وہ اُٹھ کر میرے پاس ہی آبیٹھے، اب میرے سوال تھے اور ایدھی صاحب کے جواب اوران جوابوں میں طرح طرح کے قصے اور کہانیاں ، وقت کو ایسے پر لگے کہ عصر کی اذان ہونے پر معلوم پڑا کہ فٹ پاتھ پر بیٹھے بیٹھے 3گھنٹے ہو گئے اوروہ بھی دھوپ اور حبس میں ،اب میں نے جانے کی اجازت چاہی تو ایدھی صاحب بولے ’’ تمہیں یہاں کے ایدھی ہوم کا پتا ہے‘‘ میں نے کہا’’ ہاں‘‘ ،کہنے لگے ’’ کل پھا رغ (فارغ) ہو کر آجانا، میں وہیں ہو ں گا‘‘ اور پھر اگلی دوپہر ایدھی ہوم کے برآمدے میںایک معذور کے کپڑے بدلواتے ایدھی صاحب کو جب میں نے سلام کیا اور سلام کا جواب دینے کی بجائے جب اُنہوں نے کنگھی پکڑا کر مجھے اس معذور کی کنگھی کرنے کو کہا تو پھر ایدھی صاحب سے اُس تعلق اور اُس رشتے کی ابتدا ہوئی کہ جو رشتہ اور جو تعلق ہر شے پر بھاری اور پھر جس رشتے اور جس تعلق کے جھنڈے تلے ہم نے اسلام آباد کی سڑکوں پر چندے مانگے ، جھاڑو پھیرے اور صفائیاں کیں ، بکروں کی کھالیں اتاریں، بیل ذبح کئے اور مرغیاں کاٹیں، سبزیاں بنائیں ، چاول پکائے اور معذوروں کو کھانے کھلائے ، پاگلوں کو نہلایا اور گالیاں دیتے بابے بابیوں کو زبردستی دوائیاں پلائیں۔
ان گزرے 16سترہ سالوں میں انکے ساتھ بیسیوں لمبی لمبی ملاقاتیں اور درجنوں طویل نشستیں ، وہ اندر باہر سے درویش اور سر تا پاؤں عاجز، ان کی جو جلو ت تھی وہی ان کی خلو ت بھی ، ان کے جو دل میں ہوتا وہی زبان پر بھی ، انسانیت کو اپنا مذہب اور پاکستانی معاشرے کو بدچلن ،بد نیت ،ا سکینڈل باز ، چغل خوراور خود غرض کہنے والے ایدھی صاحب کو کفر کے فتوؤں سے جان سے مار دینے کی دھمکیوں تک او ر ایدھی ہوم میں ڈاکہ پڑنے سے خود بسترِ مرگ پر پڑنے تک جہاں میں نے کبھی انہیں پریشان نہ دیکھا وہاں کسی اعزاز، کسی ایوارڈ اور کسی کامیابی پر انہیں کبھی آپے سے باہر ہوتے بھی نہ دیکھا ،لیکن یہ بھی سچ کہ وہ من موجی اور موڈی اور وہ بھی ایسے کہ اپنی شادی والے دن دلہن اور باراتیوں کو چھوڑ کر محلے کی زخمی بچی کو لے کر اسپتال چلے جائیں اور ان دنوں جب وہ گلیوں اور محلوں میں ایک ایک پیسہ اکٹھا کر رہے ہوں تب انہیں کراچی کے ایک سیٹھ کا فون آئے کہ ’’میرے گھر سے 10لاکھ لے جائو ‘‘ یہ جواب دیں ’’ میں حجور کو سلام کرنے نہیں آسکتا ، اگر پیسے مجھے دینے ہیں تو اپنے پاس ہی رکھو اور اگر اللہ کو دینے ہیں تو بھجو ا دو‘‘ ۔
خاص کو کھاس ، فکر کو پھکر ، خدمت کو کھدمت ، ضعیف کو جعیف اور جھگڑے کو لفرا کہنے والے ایدھی صاحب جب موڈ میں ہوتے تو لاجواب کر دیتے ، ایک دن بولے ’’پاکستان میں اب کوئی اور ایدھی نہیں بن سکتا ‘‘ میں نے پوچھا’’وہ کیوں‘‘، کہنے لگے ’’ایدھی بننے کیلئے انسان بننا جروری (ضروری) اور یہاں کوئی انسان بننے کو تیار ہی نہیں‘‘ ۔ ایک روز میں نے کہا کہ ’’ آپ نہا کر دھلے کپڑے پہنا کریں تا کہ ہم بھی آپ کے قریب بیٹھ سکیں‘‘، جواب ملا ’’ میں ایسا اس لئے کہ تم جیسے دور رہیں‘‘، ایک بار ان سے باسی روٹی اور ڈبل باسی دال کھا کر جب میں نے کہا کہ ’’ الحمد للہ آپکے کھانے میں سب کچھ موجود سوائے ذائقے کے ‘‘ تو بولے ’’ تم نے کبھی چکھا ہی نہیں ورنہ الحمد للہ رجقِ( رزقِ) حلال کا یہی جائقہ (ذائقہ) ‘‘ ایک مرتبہ جب میں نے کہا کہ ’’آپ ہیں بڑے چالاک، ایک طرف آنکھیں عطیہ کر کے ثواب بھی کما لیا اور دوسری طرف اوپر جا کر خود نئی آنکھوں سے نئی دنیا دیکھیں گے جبکہ پرانی آنکھیں یہاں پرانی دنیا بھی دیکھ رہی ہوں گی‘‘، ہنس کر بولے ’’ میمن کبھی گھاٹے کا سودا نہیں کرتا‘‘اور پھر وہ شام تو میں بھلا ہی نہیں سکتا کہ جب ایدھی ہوم کے لان میں بیٹھے ایدھی صاحب سے میں نے پوچھا ’’ زندگی کا کوئی ایسا واقعہ جو آپ کبھی بھلا نہیں سکتے‘‘اپنے سر سے مچھر اڑاکروہ تھوڑی دیر سو چ کر بولے ’’ ایک بار مجھے پتہ چلا کہ کراچی کے ایک نالے میں بوری بند لاش پڑی ہے لیکن چونکہ نالہ ٹٹیوں اور پیسابوں (پیشابوں) والا ہے لہٰذا کوئی یہ لاش نکالنے پرراجی( راضی) ہی نہیں ہو رہا، میں ایمبولینس لے کر وہاں پہنچا ، کپڑوں اور جوتوں سمیت نالے میں اترا،ٹٹیوں ،پیسا بوں میں گلے گلے تک ڈوب کر بوری نکالی اور پھر اسے ایدھی ہوم لاکر جب کھولا تو اندر مردانہ لاش کے 50وہ ٹکڑے ملے کہ ہر ٹکڑا ایسا گلا سڑا ہوا کہ اگر ذرا سا بھی ہاتھ سخت لگ جاتا تو ٹکڑے کے مزید ٹکڑے ہونے لگتے ، خیرجس دن میں نے ان ٹکڑوں کو غسل ،کفن اور جنازے کے بعد دفنایا اُسی رات مجھے خواب آئی کہ’’ میں ایک میدان میں پیشاب اورٹٹیوں سے لتھڑا کھڑا ہوں کہ اچانک آسمان سے نورانی چہروں اور چمکتے لباسوں والی مخلوق اتری اور اس نے آتے ہی پہلے مجھے خوشبو ؤں والے پانی سے نہلایا، پھر خوشبوئوں بھرے چمکیلے کپڑے پہنا کر مجھے ایک دودھ جیسی سفید چیز پینے کو دی اور ابھی میں نے پہلا گھونٹ ہی بھر اتھا کہ میری آنکھ کھل گئی لیکن مجھے یہ اچھی طرح یاد کہ جب میری آنکھ کھلی تو نہ صرف پورا کمرہ خوشبو سے مہک رہا تھا بلکہ مجھے اپنے منہ میں اس دودھ جیسی چیز کا جائقہ (ذائقہ) بھی محسوس ہو رہا تھا۔
ایدھی صاحب کی بات مکمل ہوئی تو میں نے بے اختیار آگے بڑھ کر اُن کے ہاتھوں کو اپنے ہاتھوں میں لے کر ا پنی بھیگی آنکھوں سے لگایا اور انہیں ایک زور کی جپھی ڈالی اور پھر گندہ نالہ ، نالے پر جھاڑیوں اور جنگلی گھاس میں گھرا ایدھی ہوم ، ایدھی ہوم کا مچھروں بھرا لان ،لان میں ٹوٹی2 کرسیاں اور 3ٹانگوں والا میز ، میز پر میلے کچیلے کپوں میں بے رنگ چائے اور چائے کے ساتھ کاغذ پر پڑے بسکٹ ، ایدھی صاحب سے گلے لگتے ہی نہ صرف یہ سب غائب ہوا بلکہ یقین جانئے مجھے تو اُس وقت بھی اس زمینی فرشتے سے آسمانی خوشبوئیں آرہی تھیں۔
تازہ ترین