• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
’’ان کی وفات سے پیدا ہونے والا خلا کبھی پُر نہیں ہوگا‘‘…یہ جملہ ہمارے ہاں اکثر ایسی شخصیات کی رحلت پر بھی رواجاً کہہ دیا جاتا ہے ، جن کے دارِ فانی سے کوچ کرنے پر اول تو کوئی خلا پیدا ہی نہیں ہوتا ، اور اگر ہوتا ہے تو ایسا ’’خلا‘‘ پُر کرنے والوں کی لائنیں لگی ہوتی ہیں ۔ ایسے مواقع پر ہم رسماً ایک شعر بھی دہرا دیتے ہیں کہ
بچھڑا کچھ اس ادا سے کہ رُت ہی بدل گئی
اک شخص سارے شہر کو ویران کر گیا
حالانکہ شہر تو کجا، محلے میں بھی کوئی ویرانی نظر نہیں آتی اور زندگی کی گاڑی معمول کے مطابق رواں دواں رہتی ہے ۔ سلسلہ ء روز و شب جاری رہتا ہے اور رُت وغیرہ کو کچھ فرق نہیں پڑتا ۔ کبھی ہم مصلحتاً اول درجے کے دنیا پرستوں اور بہروپیوں کو درویش دوراں قرار دیتے ہیں ۔جبکہ حقیقت میں وہ لالچ ،جاہ پرستی اور دنیاوی آسائشوں کے دائمی اور نسلی اسیر ہوتے ہیں ۔ گاہے ہم انہیں بھی فرشتہ خصلت کہہ ڈالتے ہیں، جن کی اس’’خصلت‘‘ کی آڑ میں سفاکیت اور درندگی پھن پھیلائے کھڑی ہوتی ہے ۔ کبھی ہم مصلحت کیش اپنے کسی ایسے ممدوح کو بھی بے ریا اور کھرا کہنے سے نہیں چوکتے ، جو خلق خدا کے نزدیک مستند ریا کار اور کھوٹا ہوتا ہے ۔ اکثر ہم سادہ دل انہیں اپنے لئے چھتناور شجر سمجھ لیتے ہیں ، جو کانٹوں کی فصل کے مستقل کاشتکار ہیں ۔ جو اپنے کنوئیں سے باہر جھانکنے پر قادر نہیں ، ہم انہیں رہبر عالم تک قرار دے ڈالتے ہیں ، حالانکہ اپنے بوسیدہ افکار اور قدیم المیعاد نظریات کی بدولت ان کی ’’ ایکسپائری ڈیٹ‘‘ بھی کب کی گزر چکی ۔ یہاں خضرِ قوم انہیں مان لیا جاتا ہے جنہیں خود رات دس بجے تک عید کا چاند نظر نہیں آتا۔ ہم انہیں اپنا سرمایہ کہتے ہیں جو ہمارا سرمایہ لوٹ کر لے گئے ۔ ہم ایسی ہستیوں کو اپنا نجات دہندہ سمجھ بیٹھے ہیں ، جو نجاست دہندہ سے زیادہ کچھ نہیں ۔ ہمارے پاس ’’محسنوں‘‘کا ایک ریوڑ بھی ہے ، جس کی بھیڑوں کی غالب اکثریت کا رنگ کالا ہے ۔ کبھی ہم خالق حقیقی سے جا ملنے والی ایسی شخصیات کا مشن پورا کرنے کا عزم کر بیٹھتے ہیں ، جن کی ساری زندگی لوٹ کھسوٹ سے عبارت ہوتی ہے ۔ یہاں قوم کے خادم ایسے لوگ کہلاتے ہیں ، جو قوم کے بچوں کے منہ سے نوالہ بھی چھین لیتے ہیں ۔ گاہے ہماری تاریخ کا جھومر ایسے لوگوں کو قرار دیا جاتا ہے ، جن کے ’’کارہائے نمایاں‘‘ کی بدولت ہمارا وجود تاریخ کی دہلیز پر سوالیہ نشان ہے ۔ ہم ان کا نام تاریخ کے نگار خانے میں روشن رکھنے کی سعی کرتے ہیں جو اپنی زندگی میں فقط اندھیرے پھیلاتے رہے اور زندگی کی شمعیں گل کرتے رہے ۔ یہاں انہیں بھی محبتوں کا امین کہہ دیاجاتا ہے ، جن کی منزل طاقت اور زادِ راہ نفرت ہے ۔ ہم اپنی سادگی کے طفیل انہیں حب الوطنی کا قطب مینار سمجھتے ہیں، جو ارتدادکے نام پر کھوپڑیوں کے مینار بنانے کے متمنی ہیں ۔ ہم سے ان کی قبروں پر شبنم افشانی کی دعائیں کرائی جاتی ہیں ، جو ہمیں زندہ درگور کر گئے ۔ اس حرماں نصیب قوم کا رانجھا اسے کہا جاتا ہے ، جو ہمیں کھیڑوں کے حوالے کر کے خود فضا ہی سے رخصت ہوگیا۔
حقیقت میں ایسے جملوں ، اشعار، القابات اور اعزازات کی حرمت عبدالستار ایدھی ایسی اولوالعزم ہستیوں کی زندگی اور ان کی رحلت سے جڑی ہوئی ہے کہ:
محبت کی عمارت گر گئی ہے
کوئی ملنے پہ بیٹھا رو رہا ہے
ہوا پتوں سے سر ٹکرا رہی ہے
ترے جانے کا ماتم ہو رہا ہے
حقائق کی منہ زور لہروں کے آگے کوئی بند نہیں ٹھہر سکتا ہے ۔ بلاشبہ عبدالستار ایدھی کی وفات سے پیدا ہونے والا خلا کبھی پُر نہیں ہوگا۔ لاریب ! وہ سارے شہر تو کیا، پورے ملک کو ویران کر گیا ۔ بے شک وہ اصلی درویش صفت اور فرشتہ خصلت انسان تھا ۔ حق ہے کہ وہ فقیر منش بے ریا اور کھرا تھا ۔ بلا خوف تردید وہ اصلی محسن پاکستان تھا ۔ سچ ہے کہ وہ قوم کا حقیقی خادم اور اس کے دکھوں کا درماں تھا ، خضر قوم تھا ، ہماری تاریخ کا جھومر تھا ، ہمارا حقیقی رانجھا تھا ،ہمارا قیمتی سرمایہ تھا، پاکستان کا توانا حوالہ تھا ، شاہ شریعتم توئی ، پیر طریقتم توئی …وہ ہمارے افق پر نمودار ہونے والا کوکب ضوفشاں تھا ، جس کی خدمت شعار زندگی کا ایک ایک لمحہ اس ملک کی تاریخ کا درخشاں نوشتہ ہے ۔ اس کا انسانیت سے محبت کا مشن جاری رکھنے کی ضرورت ہے، باقی سارے مشن پیٹ کی خاطر ہیں اور قوم کی منزل کھوٹی کرنے کے مشن ہیں ۔
نام فقیر تنہاں دا باھُو ، قبر جنہاں دی جیوے ھُو …اس کی قبر سدا روشن رہے گی کہ 1951ء میں ایک دکان پر مشتمل ڈسپنسری سے شروع ہونے والا سفر آج اس کی وفات تک دنیا بھر کے سب سے بڑے خدمت خلق کے ادارے کا نیٹ ورک بن چکا ہے ۔وہ ان کے لئے ابرِ بہار تھا جن کے لئے زمین سخت اورآسمان دور ہے ۔ وہ محسن انسانیت تھا ،جس نے بلا تفریق مذہب و ملت اور رنگ و نسل دکھی مخلوق خدا کی صحیح معنوں میں بے لوث خدمت کی ۔ دھتکارے ہوئوں کو محبت دی اور بے نوائوں اور بے کسوں کے سر پر اپنا مہربان ہاتھ رکھا۔ اگر ہماری تاریخ کے میزان کے ایک پلڑے میں کل سیاسی و مذہبی اشرافیہ کی خدمات اور دوسرے پلڑے میں اس کھدر پوش ریاضت کیش کی انسانیت کے لئے خدمات رکھ دی جائیں تو وہ اکیلا ان سب پر بھاری ہے ۔ بے شمار فربہ تن و توش اور لحیم شحیم اجسام کے مقابلے میں وہ تنہا ضعیف البدن کہیں زیادہ طاقتور ہے ۔ ہم ریا کاروں اور منافقوں کی دعائیں اس کی بخشش کا کیا ساماں کریں گی کہ اس کے لا تعداد یتیم خانوں ، شیلٹر ہومز ، اولڈ ہومز ،مردہ خانوں ، میٹرنٹی وارڈز اور ایمبولینسوں کا صدقہ جاریہ خودجنت میں اس کے درجات بلند کرتارہے گا ۔ وہ خود تو بجھ گیا مگر اس کی جلائی ہوئی شمعیں ہمیشہ اجالا کرتی رہیں گی اور خود اس کا نام بھی تاریخ کے نگار خانے میں مشعل کی مانند روشن رہے گاکہ :
میں عاجز اک عرض کراں، سُن میاں سلطاناں
بھَلیاں دی بھَلیائی رہسی، ویسی گزر زمانہ
تازہ ترین