• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
تاریخ میں وہ سب نہیں ہوتا جو ہم چاہتے ہیں۔ تاریخ میں وہ سب ہوتا ہے جو ہو چکا ہوتا ہے۔ تاریخ میں درج ہے ہم سب کے ماضی کا ریکارڈ جو صدیوں پر محیط ہوتا ہے، ہزاروں برسوں کے حوالے ہوتے ہیں تاریخ میں۔ ہم تاریخ سے تب ڈرتے ہیں جب ماضی سے متعلق ہمارے ذہنوں میں پنپنے والے مفروضے ہمیں مستند تاریخ کے اوراق میں نہیں ملتے۔ بغیر کسی سنجیدہ مطالعے کے ہم جب تاریخی واقعات کے بارے میں مخصوص زاویوں سے اپنے ذہن میں ایک عکس بنا لیتے ہیں اور جب وہ عکس ہمیں تاریخ میں نہیں ملتا اور سب کچھ برعکس سامنے آتا ہے تب ہم تاریخ سے کانپ اٹھتے ہیں۔ تاریخ کے منکر ہو جاتے ہیں مگر کیا کریں کہ مستند تاریخ فرمائش اور فرمانوں پر نہیں لکھی جاتی اور جب لکھی جاتی ہے تو بابرنامہ اور تزک جہانگیری اور فتوحات سکندراعظم جیسی تاریخیں ہمیں پڑھنے کو ملتی ہیں جو تاریخ کم اور حاکم وقت کی ثناخوانی زیادہ لگتی ہیں۔ کبھی کبھار، بعض اوقات حاکم وقت کسی مقصد کے زیر اثر تاریخ لکھواتے ہیں اور لکھی ہوئی تاریخ میں ردوبدل اور ترمیم کراتے ہیں اور جابر ایسی ترمیم کو جائز تصحیح گنواتے ہیں۔
حالات حاضرہ کی تاریخ دو مختلف زاویوں سے لکھی جا رہی ہے۔ طالبان کی جانب سے اسکول اور کالج جاتی ہوئی بچیوں کو موت کے گھاٹ اتارنا، سائنسی علوم کو آگ لگانا، قتل و غارت گری کا بازار گرم رکھنا اور خودکش حملوں سے معاشرے کو مفلوج بنانے اور اسی طرح کے وحشیانہ عوامل کو مستند تاریخ میں دہشت گردی کا نام دیا جا رہا ہے۔ طالبان کے تاریخ نویس اس بربریت کو اسلام پھیلانے کا نام دے رہے ہیں۔ یہ کوئی نئی بات نہیں ہے، اسی طرح کی تاریخوں کی سائنسی بنیادوں پر چھان بین کرنے کے بعد ایک مستند تاریخ ہمیں پڑھنے کو ملتی ہے۔ حقائق اپنے حقیقی خدوخال کے ساتھ ہمارے سامنے آتے ہیں۔ مثلاً مخصوص مقاصد کے زیر اثر لکھی گئی تاریخ میں محمد غزنوی ہیرو ہے، اسلام کا سپاہی ہے جس نے سترہ مرتبہ ہندوستان فتح کیا اور وہاں اسلام کی شمع روشن کی۔ چھان بین اور تحقیق کے بعد سامنے آنے والے حقائق کے مطابق ایک شخص کسی ملک کو بار بار فتح نہیں کرتا۔ محمود غزنوی نے سترہ مرتبہ ہندوستان پر حملے اسلام پھیلانے کے لئے نہیں کئے تھے، اگر وہ اسلام پھیلانے کی غرض سے ہندوستان پر حملہ کرتا تو پہلے حملے کے بعد وہ پھر کبھی لوٹ کر اپنے وطن غزنی نہ جاتا۔ وہ جم کر ہندوستان میں بیٹھتا اور ہندوستان کے کونے کونے تک اسلام کی روشنی پھیلا دیتا مگر اس نے ایسا نہیں کیا۔ محمد غزنوی نے سترہ مرتبہ ہندوستان پر فوج کشی کی اور ہر بار سونا چاندی، قیمتی جواہر، کھانے پینے کی اشیاء اور آیروویدک ادویات لوٹ کر اپنے وطن جاتا رہا۔ جہاں تک اس کے بت شکن ہونے کے قصّے مشہور کئے گئے ہیں تو وہ یعنی محمود غزنوی صرف مندروں کے وہی بت توڑتا تھا جن پر سونے، چاندی اور ہیرے جواہر کے چڑھاوے چڑھائے جاتے تھے۔ وہ تو سومناتھ مندر کے سات سونے کے دروازے اکھاڑ کر لے گیا تھا۔ تقسیم ہند کے بعد یعنی 1947ء کے فوراً بعد افغانستان نے تین سونے کے دروازے پنڈت جواہر لال نہرو کو لوٹائے تھے، باقی چار دروازے انہوں نے غالباً خرچ کر دیئے تھے۔ محمود غزنوی عموماً بن یامین علاقے سے گزرتے ہوئے ہندوستان پر حملے کرتا تھا۔ بن یامین وہ جگہ ہے جہاں مہاتما گوتم بدھ کے ایک سو بیس فٹ اونچے دو مجسمے کھڑے ہوئے تھے۔ محمود غزنوی اگر بت شکن ہوتا تو پہلے مہاتما گوتم بدھ کے مجسمے تباہ کرتا۔ چند برس پہلے طالبان نے مہاتما گوتم بدھ کے دونوں مجسمے بموں اور راکٹوں سے مسمار کر دیئے تھے۔
آیئے اسی طرح کے ایک اور واقعے کے تجزیئے سے تاریخ کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ برصغیر کی تاریخ میں مہاراشٹر کا شیواجی ہم مسلمانوں کیلئے ولن، باغی اور دہشت گرد ہے، ہندوئوں کے لئے ہیرو ہے، محب وطن ہے، سائنسی بنیادوں پر تاریخ کے منصفانہ تجزیئے میں دو عقیدوں کے پیروکار رکاوٹ بن بیٹھے ہیں۔ حقائق پر مبنی تجزیئے کے مطابق مغل غیر ہندوستانی تھے۔ منگولیا اور سینٹرل ایشیا کے ممالک سے آئے تھے۔ شیوا جی نے ان کے ایک حکمران اورنگزیب کے خلاف گوریلا جنگ کا آغاز کر دیا۔ وہ اپنے وطن کیلئے ہندوستان پر قابض غیر ملکی حاکم کے خلاف پچیس برس برسرپیکار رہا۔ اگر اپنے وطن کو غیر ملکی حاکموں کے تسلط سے آزاد کرانے کی جدوجہد غداری ہے تو پھر انگریزوں کے تسلط سے ہندوستان کو آزاد کرانے کی تمام تر جدوجہد اور ان تمام جدوجہد کے رہنما بھی غداری اور غدار ہونے کے زمرے میں آتے ہیں۔ ان میں ایک نام ہمارے قائداعظم محمد علی جناح کا بھی آ سکتا ہے۔ اسی فہرست میں سرفہرست لازماً مولانا محمد علی جوہر، مولانا شوکت علی، ابوالکلام آزاد اور عبیداللہ سندھی کے نام آتے ہیں۔ شیوا جی نے پچیس برس تک اپنے وطن کی خاطر مغل شہنشاہ اورنگزیب عالمگیر کے خلاف گوریلا جنگ کی تھی۔ وہ جنگ چونکہ اس نے ایک مسلمان حاکم کے خلاف اپنے وطن کی آزادی کی خاطر کی تھی اس لئے شیوا جی ہندوستان کے اصلی رہنے والوں یعنی ہندوئوں کیلئے ہیرو تھا اور ان کی تاریخ میں وہ ان کا ہیرو رہے گا۔ شیوا جی نے چونکہ ایک مسلمان حاکم کے خلاف بغاوت کر دی تھی اس لئے وہ ہم مسلمانوں کی تاریخ میں باغی اور دہشت گرد لکھا جاتا ہے۔ مستند تاریخ نہ ہندو ہوتی ہے، نہ مسلمان ہوتی ہے اور نہ عیسائی ہوتی ہے، ایسی تاریخ میں کوئی کردار محض اپنے عقیدے کی بنیاد پر ہیرو یا اینٹی ہیرو (Antihero) یا ولن (Villain) نہیں ہوتا، وہ اپنے جائز کارناموں کی بنا پر تاریخ میں اپنے لئے معتبر مقام حاصل کر لیتا ہے۔ ہم جب بھی اپنے عقیدے کی عینک لگا کر تاریخ کی طرف دیکھتے ہیں تب ڈر جاتے ہیں۔ تاریخ محض عقیدے کی بنیاد پر کسی سے رعایت نہیں کرتی۔
محمد بن قاسم نے ملک سندھ پر حملہ کیا تھا اور ملک پر قبضہ کر لیا تھا۔ محمد بن قاسم کا سندھ فتح کرنا جائز تھا یا ناجائز فعل تھا اس کا فیصلہ مستند تاریخ کرتی ہے مگر جب ہندو اور مسلمان اپنے اپنے عقیدے کی عینک لگا کر اس واقعے کو دیکھتے ہیں تب ہندوئوں کو راجا داہر اپنا ہیرو دکھائی دیتا ہے جس نے ملک کی خاطر عربوں کے خلاف وطن کا دفع کرتے ہوئے اپنی آل اولاد کے ساتھ اپنی جان قربان کر دی تھی مگر ہم مسلمانوں کے لئے راجا داہر ولن ہے۔
کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ معاشرے میں مرتبہ بنانے اور برتری حاصل کرنے کیلئے تاریخی حقائق کو بدل دیا جاتا ہے اور اس طرح کی تاریخ بچّوں کو بچپن سے جوانی تک پڑھائی جاتی ہے مثلاً تقسیم ہند کے وقت پورے ہندوستان میں فسادات کی آگ بھڑک اٹھی تھی، وحشیانہ قتل و غارت گری کا بازار گرم ہوا تھا جس میں لاکھوں مسلمان، ہندو اور سکھ مارے گئے تھے، لاکھوں ہندو، مسلمان اور سکھ عورتیں اغواء ہوئی تھیں۔ بے حرمتی کرنے کے بعد ایسی کئی عورتوں کو موت کے گھاٹ اتارا گیا تھا لیکن ہماری مسخ شدہ تاریخ میں فسادات میں ہندو، مسلمان اور سکھوں کے قتل عام کا ذکر تک نہیں ہے بلکہ لکھا ہے کہ تقسیم ہند کے وقت ہم مسلمانوں کے آبائواجداد نے جانوں کی قربانی دی تھی۔ تقسیم ہند کے وقت سندھ میں فسادات نہیں ہوئے تھے۔ میرے آبائو اجداد کسی قسم کے فساد میں مارے نہیں گئے تھے، اس لحاظ سے انہوں نے قیام پاکستان کیلئے کسی قسم کی قربانی نہیں دی تھی۔ ایسی تاریخ پڑھنے کے بعد میں اور میرے بچّے خود کو دو نمبر کا پاکستانی سمجھتے ہیں۔
تازہ ترین