• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
بھارت میں انتخابات کے بعد پاکستان اور بھارت کے تعلقات کن خطوط پر استوار ہوں گے؟ آیا بھارت میں انتخابی نتائج دونوں ممالک کے مابین تعلقات کو معمول پر لانے کا عمل سست روی کا شکار ہو گا یا اس میں تیزی آئے گی؟ اسلام آباد کیلئے سب سے اہم بات یہ ہے کہ آیا نئی دہلی میں آئندہ حکومت 2013ء کے اوائل میں معطل ہونے والے جامع مذاکرات کی بحالی پر رضامند ہو گی بھی یا نہیں؟ یا پھر یہ ایسا طرز فکر اپنائے گی جس کے تحت معاملات کو دوبارہ استوار کرنے کیلئے بھارت کی ترجیح کے معاملات کو مذاکرات کا محور بنا کر انہیں کم کیا جائے؟
ظاہر ہے کہ اس حوالے سے واضح جوابات ملنے کا امکان انتخابات کے بعد ہی ہے، پاکستان آئندہ بھارتی حکومت کے ساتھ نتیجہ خیز مذاکرات کیلئے احتیاط کے ساتھ حکمت عملی مرتب کرے گا، جس سے دونوں ممالک کے درمیان مستحکم تعلقات کی راہ ہموار ہو سکے۔ فی الوقت بھارت کے ساتھ تنازعات اور تصفیہ طلب امور تعطل کا شکار ہیں۔ دونوں ملکوں میں آزادانہ تجارت تعلقات کو مستحکم کر تو سکتی ہے لیکن اس طریقے کو ابھی تک آزمایا نہیں گیا ہے۔ اگر نواز شریف حکومت بھارتی انتخابات سے قبل بھارت کو پاکستان سے بلاتعصب تجارت کی اجازت دے دے (جس کی سیاسی طور پر ایک زیادہ قابل قبول اصطلاح پسندیدہ ترین قوم کا درجہ،ایم این ایف ہے) تو یہ بات یقینی نہیں کہ اس حوالے سے آئندہ بھارتی حکومت کا ردعمل کیا ہوگا اور آیا کیا یہ اقدام جامع مذاکرات کی بحالی میں عمل انگیز کردار ادا کرے گا،جس کا اسلام آباد کافی عرصے سے متمنی ہے۔ کئی بھارتی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ بھارت میں چاہے جو بھی جماعت انتخابات جیتے لیکن اس کی پاکستان کے حوالے سے بنیادی پالیسی تبدیل نہیں ہوگی، ہوسکتا ہے کہ یہ خیال درست ہو لیکن نئی حکومت کی حالت، کردار اور استحکام کا انحصار اس بات پر ہے کہ دہلی پاکستان کے ساتھ کس طرح کے تعلقات استوار کرتا ہے۔ انتخابات کے نتیجے میں زیادہ تر نئی پالیسی کے بجائے مضبوط قیادت سامنے آتی ہے لیکن پھر بھی انتخابات کا اثر دہلی کے پاکستان کیلئے اپنائے گئے موقف پر ہو گا۔ اس لئے انتخابات کے ممکنات پر غور کرنا بھی کار آمد ہو سکتا ہے۔ کانگریس کے انتخابات میں کامیابی کے امکانات سب سے کم ہیں کیونکہ اس کا دور حکومت بدعنوانیوں کے اسکینڈلوں، معاشی سست روی اور غیرمستحکم قیادت سے داغدار ہے، بھارت میں موجودہ حکمرانوں کے خلاف بڑھتے ہوئے اظہار نفرت کی وجہ سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ کانگریس تاریخی شکست کی جانب گامزن ہے، اگر یہ پارٹی کرشماتی طور پر ایوان اقتدار میں واپس آبھی جائے اور اتحادی حکومت قائم بھی کر لے تو بھی اس کی حکومت اتنی کمزور ہو گی کہ اس میں اہم پالیسی اقدامات لینے کی صلاحیت نہیں ہوگی۔ پھر پاکستان ماضی کی طرح ہندوستان کے ساتھ سفارتی رابطوں کے چلنے اور معطل ہونے والے سلسلے کا تسلسل دیکھے گا، تجارتی امور پر پیشرفت کے نتیجے میں دونوں ممالک کو منقسم کرنے والے دیرینہ حل طلب مسائل پر کوئی پیشرفت نہیں ہوگی اور اس کے باعث ماضی قریب میں آزادانہ تجارت تعطل کا شکار ہوئی۔ رائے عامہ کے جائزوں کے مطابق بھارتیہ جنتا پارٹی کے سب سے بڑی پارٹی کے طور پر ابھر کر سامنے آنے کا امکان ہے، اس کی انتخابی مہم پر اس کے وزارت عظمیٰ کے متنازع امیدوار نریندر مودی چھائے ہوئے ہیں لیکن اسے543 رکنی لوک سبھا میں 272 نشستوں پر مبنی اکثریت ملنے کا امکان نہیں ہے۔ بی جی پی کی قیادت میں مخلوط حکومت اس وقت بن سکتی ہے جبکہ اسے تقریباً 175نشستیں ملیں، اگر بی جے پی کو 200 نشستیں مل گئیں تو وہ علاقائی سطح پر چھوٹی سیاسی جماعتوں سے اپنی شرائط پر اتحاد کرے گی۔ اگربی جے پی 150 سے کم نشستیں جیتے گی تو اسے علاقائی اتحادی جماعتوں کو اقتدار میں زیادہ حصہ دینا پڑے گا جنہیں مودی کے ماضی کے ریکارڈ اور شخصیت پر شدید خدشات ہیں اور وہ چاہیں گے کہ ان کے علاوہ کوئی اور رہنما مخلوط حکومت کی سربراہی کرے۔
مودی کی قیادت میں بھارتی حکومت کے پاکستان کے ساتھ تعلقات پر کیا اثرات مرتب ہوں گے؟ بعض مبصرین یہاں ایک دلیل پیش کرتے ہیں پاکستان کو ماضی میں بھی بی جے پی کی حکومت سے تعلقات استوار کرنے کا تجربہ رہا ہے تو اس جماعت کی حکومت کے پاکستان کیلئے بھارت سے تعلقات استوار کرنا قدرے آسان ہوگا کیونکہ یہ جماعت دائیں بازو سے تعلق رکھتی ہے، داخلی سطح پر پاکستان کے حوالے سے پالیسی کے بارے میں اس کی پوزیشن مدافعانہ نہیں ہے جبکہ یہ جماعت سفارتی سمجھوتوں کی اہل بھی ہے لیکن مودی کے حوالے سے یہ واضح نہیں کہ آیا وہ اس رجائیت پسندانہ خیال کی حمایت کریں گے بھی یا نہیں کیونکہ وہ ملک کے ایک تقطیبی رہنما ہیں اور ان کی خارجہ پالیسی کی ٹیم کے حوالے سے بھی کچھ معلوم نہیں ہے۔
اگر ملک کی معاشی ترجیحات مودی کو پاکستان کے ساتھ معاشی تعلقات استوار کرنے پر قائل کر بھی دے، اس وقت بھی ان کی مضبوط قومیت پرستانہ شخصی شہرت انہیں خصوصاً مسئلہ کشمیر جیسے تنازع پر سخت موقف اپنانے پر مجبور کرے گی۔ مودی کی قیادت میں بظاہر آسانی سے طے پاجانے والے سرکریک جیسے امور پر بھی کم ہی پیشرفت ہو گی۔ بھارت میں انتخابات کے بعد حکومت سازی کے حوالے سے تیسرا ممکنہ راستہ علاقائی جماعتوں کا ابھرنا ہے، اس ضمن میں 11 جماعتوں پر مبنی تیسرے محاذ(جس میں بائیں بازو اور علاقائی جماعتیں شامل ہیں) کی مخلوط حکومت تشکیل پانے کے امکانات ہیں، یہ مخلوط حکومت نہ ہی بی جے پی اور نہ ہی کانگریس کی سربراہی میں تشکیل پائے گی، یہ ایک ایسی حکومت ہو گی جیسے 1996ء میں دیوگوڑا اور بعدازاں آئی کے گجرال کی تھی۔ حالانکہ اس سیاسی محاذ میں نتیش کمار جیسے رہنما بھی موجود ہیں تاہم اس کی جانب سے خاطر خواہ نشستیں جیتنے کا امکان نہیں ہے تاہم اگر اس مخلوط حکومت کو کانگریس کی حمایت حاصل ہوگی تو پھر اس کی طاقت میں توازن پیدا ہو سکتا ہے پھر بھی یہ اتحاد حکومت اتنا نازک ہوگا کہ تادیر قائم نہیں رہ سکے گا۔ ایسی متزلزل حکومت سے کوئی خاص پیشرفت اور پاک بھارت تعلقات کے حوالے سے کوئی غیرمعمولی پیشرفت ہونے کا امکان نہیں ہے۔ یہ تمام ممکنات اسلام آباد کو محتاط سفارتی ردعمل اختیار کرنے کی راہ پر گامزن کریں گے لیکن زیادہ بنیادی چیلنج اس کے آگے ہے اور وہ یہ ہے کہ اگر نئی حکومت ایک ایسا طرز عمل اختیار کرے جیسا کہ دہلی نے حالیہ برسوں میں اختیار کیا یعنی 8مسائل پر ہمہ گیر مذاکرات(جامع مذاکرات) کی بحالی کو مسترد کرکے بھارت کے انتخاب کردہ مخصوص ترجیحی امور پر مذاکرات پر آمادگی ظاہر کرنا ہے۔ وزیراعظم نواز شریف کی جانب سے کئی مثبت اشارے دیئے جانے اور جامع امن عمل کی جلد بحالی کے مطالبے کے باوجود 2013ء اور اس کے بعد بھی بھارت کے طرزعمل میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوئی۔ دہلی کی جانب سے سفارتی تعلقات کی وسعت کو کم کرنے کیلئے جامع مذاکرات کی راہ سے بالاتر ہوکر ملاقاتوں پر آمادگی کا اظہار کیا گیا، جیسا کہ گزشتہ ماہ دونوں ممالک کے وزرائے تجارت کی ملاقات ہوئی۔ دوسرے لفظوں میں دہلی دونوں ممالک کے مابین تعلقات ہمہ گیر طور پر نہیں بلکہ جزوی طور پر معمول پر لانے کیلئے رضامند ہے۔ پاکستان اس جذبے کے ساتھ اس طرز فکر کے ساتھ لے کر آگے بڑھا کہ کم از کم اس سے تعلقات کو معمول پر لانے کا تحرک برقرار رہے، لیکن دہلی میں نئی حکومت تعلقات کو دوبارہ استوار کرنے کا موقع فراہم کرے گی، اسلئے اگر بھارت کی جانب سے چند امور پر مذاکرات کے بدلے میں جامع مذاکرات کی جانب کوئی پیشرفت نہ کی جائے تو پاکستان کو اس حوالے سے چند امور پر مذاکرات کی طرز فکر کا دوبارہ جائزہ لینا ہوگا۔
ٹریک دوم سفارت کاری کے تحت گزشتہ دنوں سابق بھارتی افسران سے ہونے والی ملاقاتوں میں ان کی جانب سے یہ تاثر سامنے آیا کہ ان کی پالیسی کمیونٹی میں جامع مذاکرات کی بحالی کی جانب کوئی جھکاؤ نہیں پایا جاتا بلکہ اس کے بجائے بھارت کے ترجیحی چند امور پر مذاکرات کئے جانے کو ترجیح دکھائی دیتی ہے۔ مذاکرات ،جی ہاں ، تعلقات معمول پر لانا، جی ہاں، لیکن بھارت کی شرائط پر ترتیب دیئے جائیں۔ تجارت کی جانب پیشرفت بہتر ہوگی ایسے ہی جیسے دہشت گردی اور لائن آف کنٹرول پر امن برقرار رکھنے کے لئے مذاکرات ہونے چاہئیں لیکن ان مسائل کو انفرادی طور پر حل کرنا چاہئے اور اسے تعلقات کو معمول پر لانے کے ہمہ گیر طریقہ کار میں شامل نہیں ہونا چاہئے۔کچھ لوگ یہ دلیل دیں گے کہ عارضی طور پر معاملات کی بہتری کچھ نہ ہونے سے بہتر ہے تو پھر کیوں نہ اسے مزید آگے بڑھاتے ہوئے تجارت کو بحال رکھا جائے جس کے فائدے پاکستان کو ہی ہوں گے ۔ یہ نقطہ نظر تجارت کی قدر و قیمت کو مزید بڑھاتا ہے جو انفرادی طور پر بھی ایک اسٹریٹجک ماحول میں امن عمل میں بہتر کردار ادا کرسکتا ہے جو ہمیشہ ہی کشیدہ رہتا ہے۔ یہاں بہت سے سوالات جنم لیتے ہیں کہ کیوں بے ربط مذاکرات کبھی بھی حقیقی اور دیرپا امن قائم نہیں کر سکیں گے اور اس کے ذریعے سے تعلقات کو کسی سیدھے راستے پر لایا جائے۔ اس میں سب سے بنیادی اور اہم چیز مستقل مزاجی ہے۔ ماضی کے تجربے سے یہ عیاں ہوتا ہے کہ تجارت کو بڑھانے کا عمل اکثر و بیشتر لائن آف کنٹرول پر ہونے والے تجارت کے مخالف واقعات کی وجہ سے تعطل کا شکار ہوا جس کی حالیہ مثال کشمیر ہے۔ مستقل مزاجی اور معاشی تعلقات استوار کرنا دونوں ممالک کے درمیان تنازعات کا باعث بننے والے مسائل کو دور کرنے کے لئے بھی ضروری ہے جو وقتاً فوقتاً کشیدگی کو دعوت دیتے ہیں اور تعلقات کی بہتری کے عمل کو واپسی کی طرف لے جاتے ہیں۔
اسی طرح تجارتی تعلقات بھی اس وقت تک موثر ثابت نہیں ہوسکتے جب تک کہ کئی معاملات میں موجود اختلافات کو اس کے ساتھ ساتھ دور نہ کیا جائے ۔ تعلقات کی بحالی کے لئے عارضی یا بے ربط عمل شروع کرنا ایک غلطی ہوگی 8 معاملات پر مشتمل مربوط اور ایک جامع ڈھانچہ 1997ء میں وزیر اعظم نواز شریف کی دوسری حکومت میں قائم کیا گیا تھا جو دیرپا رہا کیوں کہ اس میں دونوں ممالک کے خدشات کو ترجیح میں رکھا گیا تھا۔ یہ عمل 2004ء سے 2008ء تک اور پھر اس کے بعد 2011ء سے 2012ء تک بھی جاری رہا۔اس کے ذریعے سے مختلف امور پر مذاکرات اور کئی وزراء کے درمیان رابطوں کے مواقع ملے۔ اگرچہ جامع مذاکرات میں کوئی خاطر خواہ نتائج نہیں نکلے اور اس سے صرف کسی حد تک اعتماد سازی کے اقدامات دیکھنے میں آئے لیکن اگر اس طریق کار کو بھی زائل کردیا جاتا تو پھر اس کے تحت ہونے والی تھوڑی بہت پیشرفت سے بھی ہاتھ دھونا پڑجاتے۔ دونوں ممالک کے مابین اختلافات کو دور کرنے اور باہمی اتفاق کے امور جامع مذاکرات کی بحالی سے ہی سامنے لائے جاسکتے ہیں۔ مذاکرات کو ایک طرفہ باہمی امور تک محدود کرنے سے نہ ہی پائیدار تجارتی تعلقات قائم ہوں گے اور نہ ہی دیرینہ تنازعات کا حل سامنے آسکے گا۔
تازہ ترین