• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
مجھے کہنے دیجئے کہ ہم سب قاتل ہیں ، جو اپنی آنکھوں کے سامنے ظلم و جبر ہوتا دیکھتے ہیں مگر اس کے خلاف آواز بلند کرتے ہیں نہ ظالم کا ہاتھ روکتے ہیں۔ کیا ہمیں نبی مہربان ﷺ کا فرمان بھول گیا جس کا مفہوم کچھ اس طرح ہے کہ ’’ظالم اور مظلوم دونوں کی مدد کرو، پوچھا گیا یارسول اﷲ ﷺ مظلوم کی مدد تو سمجھ میں آتی ہے ، ظالم کی مدد کیسے کی جائے؟ آپ ﷺ نے فرمایا اُس کا ہاتھ روک لو جس سے وہ ظلم ڈھا رہا ہے۔ تم اس کا ہاتھ روکنے میں کامیاب ہو گے تو وہ مزید ظلم نہ کر پائے گا اور دوزخ کی آگ سے بچ جائے گا، یوں تم ظالم کے مددگار ہوئے‘‘۔ ہم نے اس فرمان پر عمل کیا ہوتا تو پاکستان ظلم و جبر کی تاریکیوں میں یوں نہ ڈوبا ہوتا۔اچھی خبریں ہمارے معاشرے سے مفقود ہو چکی ہیں ، آئے روز دل دہلا دینے والی خبریں ہمارا مقدر ہیں،ابھی کچھ عرصہ قبل ہی تو پاکستان کے ایک شہر میں دو بچوں نے اپنے باپ کے قاتلوں کی عدم گرفتاری پر اپنے آپ کو جلا دیا تھا۔ رواں ماہ کے پہلے پندرھواڑے ہی میں دو خبروں نے دل دہلا دیا ۔ 5 مارچ کو لاہور پولیس نے 27 سالہ خاتون بسمہ اور اُس کے شوہر کو گرفتار کر لیا ۔ بسمہ نے اپنی دو سالہ منہال اور آٹھ ماہ کے یوسف کو اپنے ہاتھوں قتل کر دیا تھا۔ بسمہ نے کہا کہ تمہارا باپ نشے کاعادی اور نکٹھو ہے۔ گھر خرچ طلب کرتی ہوں تو کہتا ہے دبئی چلو ، جسم فروشی کا دھندہ کرو، تمہارے دن بھی بدل جائیں گے اور بچے بھی اچھے طریقے سے پل جائیں گے۔ بسمہ نے غیرت کا سودا نہ کیا، بچوں کو روز فاقوں مرتے نہ دیکھ سکتی تھی چنانچہ جن ہاتھوں سے مائیں اپنے بچوں کے بال سنوارتی ہیں، ان ہاتھوں نے منہال اور یوسف کے جسم کو رسیوں سے باندھ کر ان کا کام تمام کر دیا، بہت سوں کا دل نہیں مانتا محبت کا پیکر ’’ماں‘‘ ایسا کر سکتی ہے؟ ہاں یقین تو نہیں آتا مگر ایسا تو ہو گیا۔ 13مارچ کو ضلع مظفر گڑھ کی دوشیزہ کو جب یہ خبر ملی کہ پولیس کی غلط رپورٹ کے نتیجے میں اس کی آبرو ریزی کرنے والے چار افراد میں سے ایک نادر نامی شخص جس کی اس نے شناخت کی تھی کی ضمانت پر رہائی ہو گئی ہے تو اس نے اپنے آپ کو آگ لگا دی۔ 14 مارچ کو اس کے جسم و جان کا رشتہ ختم ہوا اور وہ اپنے خالق حقیقی سے جا ملی۔ چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی کے ازخود نوٹس کے نتیجے میں پولیس کے اعلیٰ افسران نے انصاف فراہم کرنے والی عدالت میں ’’حقائق‘‘ پیش کر دیئے۔ چیف جسٹس نے رپورٹ پر عدم اطمینان کرتے ہوئے ڈی آئی جی لیول کی کمیٹی بنا دی ۔کمیٹیاں تو ہمارے ہاں بنتی ہی رہتی ہیں یار لوگ کہتے ہیں جو کام نہ کرنا ہو اُسے کمیٹیوں کے سپرد کر دیا جاتا ہے۔
بحیثیت مجموعی پوری قوم کی یادداشت اچھی نہیں جس کا فائدہ یہ ہے کہ ہم غم اور دکھ کو جلد بھول جاتے ہیں ابھی 2010ء ہی میں تو ہمارے ’’شاندار نظام‘‘ نے دو خوبرو بھائیوں حافظ منیب اور مغیث کو سیالکوٹ میں بہیمانہ انداز میں قتل کر دیا تھا ۔ چیف جسٹس افتخار چوہدری کے ازخود نوٹس کے نتیجے میں بڑے بڑے پولیس افسران معطل ہوئے کچھ کو گرفتار بھی کر لیا گیا تھا پھر کیا ہوا؟ ہم بھول گئے، اکثر ہم بھول جاتے ہیں جس کے نتیجے میں ’’منصفانہ معاشرہ‘‘ دن دگنی رات چوگنی ترقی کر رہا ہے۔ معاشرتی ترقی کے نتیجے میں ہی سیالکوٹ کے ذمہ دار پولیس آفیسر جن کو معطل کیا گیا تھا ، بعدازاں ترقی پا کر پہلے دارالحکومت اسلام آباد اور اب جڑواں شہر راولپنڈی میں اہم ذمہ داریاں ادا کر رہے ہیں ۔ موجودہ چیف جسٹس صاحب کے ازخود نوٹس کا انجام کیا ہو گا؟ اِس پرکِسی رائے زنی کی ضرورت ہے؟ہرگز نہیں۔ ہم ان واقعات کو بھی بہت جلد بُھلا دیں گے۔ حکومت ، اپوزیشن ، علمائے کرام اور ہم جیسے نام نہاد دانشور اس بات پر خوش ہیں کہ ہمارے ملک کا دستور اسلامی ہے۔ انتہا پسندوں کا طبقہ کہتا ہے کہ دستور اسلامی نہیں اور وہ بندوق کے زور پر ’’اسلام نافذ‘‘ کریں گے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ پاکستان جس مقصد کے لئے وجود میں آیا تھا، علمائے کرام اور چوٹی کے سیاست دانوں کی کوششوں کے بعد قرارداد مقاصد اور بعد ازاں 1973ء میں اسلامی دستور کی صورت میں ہمیں ایک شاندار دستاویز حاصل ہوئی مگر حقیقت یہ ہے کہ جس طرح سے کتاب مقدس قرآنی کو ہم کم کم ہی ہاتھ لگاتے ہیں یا ہاتھ لگاتے بھی ہیں تو احکامات ہی پر بہت کم عمل درآمد کرتے ہیں ، ایسا ہی سلوک ہم دستور پاکستان کے ساتھ روا رکھتے ہیں، افسوسناک صورت حال یہ ہے کہ جن لوگوں کے ہاتھ میں قانون کی مُہار ہے وہ ظلم کے خلاف اقدامات کے بجائے ’’فیض و جالب‘‘ کی غزلیں پڑھ کے مظلوم طبقے کی ’’داد رسی‘‘ کر رہے ہیں ۔ ظلم کے اس نظام کی بدولت معاشرہ عدم سکون کا شکار ہے اور خود حکمران طبقہ بھی بلند و بالا فصیلوں اور سیکڑوں سیکورٹی گارڈز کی موجودگی میں بھی بے خوابی کا شکار ہے ۔ حضرت عمر ؓ کے دور خلافت میں ایران کے بادشاہ نے ایک وفد مدینہ بھیجا تھا کہ وہ جائزہ لے کر آئے کہ اسلامی ریاست میں عدل و انصاف کی کیا کیفیت ہے۔ وفد مدینہ پہنچا تو معلوم ہوا کہ حضرت عمر ؓ شہر سے باہر گئے ہیں۔شہر میں عدل و انصاف کے اقدامات کا جائزہ لینے کے بعد اراکین وفد حضرت عمر ؓ کی تلاش میں بیرون مدینہ نکل گئے، تپتے صحرا میں وفد نے دیکھا کہ حضرت عمر ؓایک درخت کی چھاؤں میں عصا ریت میں گاڑھے آرام فرما رہے ہیں اور ہلکی ہلکی خراٹوں کی آواز بھی آ رہی ہے ۔ تب وفد کے سربراہ نے تاریخی جملہ کہا کہ ’’عمر تو انصاف کرتا ہے، جس کے نتیجے میں چین اور سکون کی نیند سوتا ہے ۔ ہمارے (ایران) کے حکمران ظالم ہیں اور اِس ظلم کے نتیجے میں اُنہیں ریشم و کمخواب کے بستر پر بھی نیند نہیں آتی‘‘۔ خُدا کی ذات پریقین نہ رکھنے والوں اور غیر مسلموں نے بھی حضرت عمر ؓ کے بنائے گئے قوانین اور نظام اپنے ملکوں میں نافذ کر کے اپنے معاشروں کو آسودگی بخش دی ہے اور ہم کیسے بدنصیب ہیں کہ :
اوروں سے مانگتے پھرتے ہیں مٹی کے چراغ
اپنے خورشید پر پھیلا دیئے سائے ہم نے
مکرر عرض ہے کہ ہم نے ظلم کے ہاتھ نہ روکے تو ایک دن یہ ہاتھ ہمارے اپنے گلے تک پہنچ کر ہمیں یا ہمارے کسی پیارے کو بھی قتل کر دیں گے۔ اپنے معاشرے کو مزید اندھیر نگری کی جانب بڑھنے سے روکنے کے لئے ہم سب کو اپنا کردار ادا کرنا ہو گا اور خُدانخواستہ ہم ایسا نہ کر پائے تو ہم سب ہی ایک دوسرے کے قاتل ٹھہریں گے اور جناب محض کف افسوس ملنے سے کچھ نہیں ہو گا کیونکہ
ظلم بچے جن رہا ہے کوچہ و بازار میں
عدل کو بھی صاحب اولاد ہونا چاہئے
تازہ ترین