• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے امریکہ پر زور دیا ہے کہ وہ جموں و کشمیر کے معاملے میں کسی تیسری قوت کی ثالثی قبول کرنے کے لئے بھارت کو آمادہ کرنے میں اپنا کردار ادا کرے امریکی وزیر خارجہ جان کیری سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہم جب بھی مسئلہ کشمیر پر بات کرتے ہیں بھارت سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کرتا جان کیری نے پیر کو ہالینڈ کے شہر ہیگ میں وزیراعظم سے ملاقات کی تھی جو تقریباً ایک گھنٹہ تک جاری رہی اس دوران پاک امریکہ تعلقات، خطے کی صورت حال، افغانستان اور دوسرے اہم معاملات زیر غور آئے بعد میں وزیراعظم کے ہمراہ میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے امریکی وزیر خارجہ نے کہا کہ انہوں نے پاکستان کے مشیر خارجہ سرتاج عزیز سے بھی اسٹرٹیجک امور پر تفصیلی تبادلہ خیال کیا ہے ایک سوال پر انہوں نے بتایا کہ ہم مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے وزیراعظم نواز شریف کے فارمولے کی تائید کرتے ہیں ہم پاکستان کے ساتھ تعلقات مضبوط بنانے کے لئے پرعزم ہیں امریکہ کے بھی پاکستان کے ساتھ ایسے ہی مفادات ہیں جیسے پاکستان کے امریکہ کے ساتھ ہیں امریکہ پاکستان سے امن و خوشحالی کے لئے شراکت داری جاری رکھے گا خصوصاً شدت پسندوں سے لڑائی، معیشت کی مضبوطی، توانائی کے بحران اور تعلیم جیسے معاملات پرہم پاکستان سے تعاون کرتے رہیں گے امریکہ اور پاکستان کے مفادات ایک دوسرے سے وابستہ ہونے کے متعلق امریکی وزیر خارجہ کا تجزیہ درست ہے اور یہ بھی صحیح ہے کہ امریکہ معاشی بحالی سمیت متعدد شعبوں میں پاکستان کی مدد کررہا ہے مگر ایک مسئلہ جسے اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل کرانا اس کی بین الاقوامی اور اخلاقی ذمہ داری ہے وہ ریاست جموں و کشمیر کے ڈیڑھ کروڑ سے زائد عوام کے حق خود ارادیت کا معاملہ ہے اقوام عالم کو یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ جموں و کشمیر کے مسئلہ پر بین الاقوامی مداخلت کی درخواست بھارت خود اقوام متحدہ میں لے کر گیا تھا اور سلامتی کونسل نے ریاست میں کشمیری مجاہدین اور بھارتی فوج کے درمیان سیز فائر کرانے اور رائے شماری کے ذریعے کشمیریوں کو اپنے مستقبل کا فیصلہ خود کرنے کا حق دلانے کیلئے جو قرارداد منظور کی اس کی حمایت میں ایک سپر پاور کے طور پر امریکہ سب سے آگے تھا پاکستان نے اپنے مفاد میں نہ ہونے کے باوجود عالمی برادری کی یہ قرارداد منظور کی لیکن بھارت بعد میں اس سے منحرف ہو گیا اقوام متحدہ نے اس مسئلہ پر مختلف ادوارمیں کئی اور قراردادیں بھی منظور کیں ایک مرحلے پر تو ناظم رائے شماری کا تقرر بھی ہو گیا تھا لیکن بھارت کی ہٹ دھری کی وجہ سے اس عالمی ادارے کے کسی بھی فیصلے پرعملدرآمد نہیں ہو سکا پاکستان کی مختلف حکومتوں نے اپنے اپنے انداز میں مسئلے کے حل کیلئے کبھی براہ راست اور کبھی بالواسطہ بھارت سے رابطے کئے جو نتیجہ خیز ثابت نہ ہو سکے وزیراعظم نواز شریف نے اپنے پچھلے دور میں بھارتی وزیراعظم واجپائی سے مفید بات چیت کی اور اطلاعات کے مطابق ان میں بڑی حد تک مفاہمت ہو گئی تھی لیکن حکومت بدل جانے کی وجہ سے مسئلہ پھر کھٹائی میں پڑ گیا نواز شریف اب پھر یہ دیرینہ تنازع حل کرنے کیلئے سرگرم عمل ہیں اور امریکہ سے ان کا رابطہ اس سلسلے کی کڑی ہے حقیقت یہ ہے کہ جموں و کشمیر کا مسئلہ جب تک حل نہیں ہوتا برصغیر میں پائیدار امن کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا اس مسئلے پر ماضی میں چھوٹی بڑی کئی جنگیں ہو چکی ہیں کنٹرول لائن پر دونوں فوجوں میں کشیدگی بھی کسی بڑے سانحے کا باعث بن سکتی ہے کشمیری عوام اپنے حق خودارادیت کیلئے بے پناہ جانی و مالی قربانیاں دے رہے ہیں۔ پاکستان اقوام متحدہ کی قراردادوں کے علاوہ دوسرے زمینی حقائق کی بنا پر بھی اس مسئلے سے لاتعلق نہیں رہ سکتا پاکستان کے عوام بھارت سے دوستی اور تعاون کے خواہش مند ہیں لیکن وہ کشمیریوں کو بھی تنہا نہیں چھوڑ سکتے یہ مسئلہ حل ہو جائے تو دونوں ملکوں کے اقتصادی اور تجارتی تعلقات فروغ پا سکتے ہیں جس سے برصغیر کے ڈیڑھ ارب سے زائد عوام کو فائدہ پہنچے گا وزیراعظم نواز شریف نے کسی تیسرے فریق کی مداخلت کے ذریعے مسئلے کے حل کی جو تجویز پیش کی ہے وہ قابل عمل بھی ہے اور خوش آئند بھی اس حوالے سے امریکہ اور عالمی برادری کو بھارت پر اپنا اثر و رسوخ استعمال کرنا چاہئے تاکہ اس خطے کے امن کو مستحکم کیا جا سکے۔

مصر میں انتقامی کارروائیاں؟
مصر کی ایک عدالت کی جانب سے صرف دو سماعتوں کے بعد سابق اسلام پسند صدر محمد مرسی کے 529 حامیوں کو سزائے موت اور 16 افراد کو عمر قید کی سزا سنائی ہے، جسے اس شورش زدہ ملک کی تاریخ میں ایک حیرت انگیز واقعہ سے بھی تعبیر کیا جاسکتا ہے اگرچہ آئینی ماہرین کا کہنا ہے کہ اعلیٰ عدلیہ میں اپیل کے بعد اس فیصلے کے برقرار رہنے کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ جن افراد کے خلاف یہ فیصلہ دیا گیا ہے وہ ان 1200 افراد کا ایک حصہ ہیں جن پر گزشتہ سال جنوبی صوبے مینیا میں 14 اگست کو پولیس اہلکاروں پر حملہ کرنے اور سرکاری املاک پر حملہ کرنے کا الزام ہے۔ جن529 ملزمان کو سزا دی گئی ہے ان میں سے صرف 153 گرفتار ہیں جبکہ باقی ماندہ کو غیر حاضری میں یہ سزادی گئی ہے۔ اس مقدمے میں ملزمان کا دفاع کرنے والے وکیل کا کہنا ہے کہ جج نے پہلی سماعت پر ان کے اختیار سماعت کو چیلنج کرنے پر غصہ میں آکر یہ فیصلہ دیا ہے۔
معاملہ خواہ کچھ بھی کیوں نہ ہو عرب دنیا سے تعلق رکھنے والے مختلف ممالک میں حکمرانوں کے خلاف بڑے پیمانے پر جو مخالفانہ تحریکیں اٹھ کھڑی ہوئی تھیں اور جنہیں مغربی میڈیا کی جانب سے عرب بہار کا نام بھی دیا گیا تھااگرچہ اس کے پس پردہ منتخب اور غیر منتخب آمروں کے عشروں تک اقتدار پر برا جمان رہنے اور عوام کی فلاح و بہبود کے لئے کچھ نہ کرنے کےایسے اسباب ہی اصل محرکات ہیں لیکن امریکہ اوراس کے اتحادیجمہوریت آزادی مساوات اورانسانی حقوق کی پاسداری کا دعویٰ کرتے ہوئے بعض عرب ممالک میں جمہوریت کے قیام کے لئے تخت و تاج ہلانے اور اپنے علاقائی و عالمی مفاد کے لئے مصر ایسےملکوں میں منتخب جمہوری حکومتوں کا تختہ الٹ کر ان میں فوج کی مدد سے اپنی من مرضی کی حکومتیں قائم کرنے اور ریموٹ کنٹرول سے انہیں چلانے کے جو جتن کررہےہیں اور ان غیر فطری حکومتوں کو قائم رکھنے کے لئے انصاف کے ایوانوں کو اپنے مقاصد کے لئے جس طرح استعمال کررہےہیںمصر کی اضطراب انگیز صورتحال اس کی بدترین مثال ہے لیکن اس طریقے سے کیا وہاں حقیقی جمہوریت کا پرچم لہرا سکے گا اس کا جواب نفی میں ہی آگے گا۔

لاپتہ افراد کا مسئلہ
کسی بھی انسانی معاشرے میںجرائم کا ارتکاب کوئی انہونی بات نہیں۔ ایسا ہونے پر قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے ملزموں کی تلاش، مشتبہ افراد کی گرفتاری ،ان کا تفتیشی عمل سے گزارا جانا اور جرم کے شواہد ملنے پر قانون کے مطابق مقدمات کا قائم کرکے عدالتوں میں پیش کیا جانا بھی معمول کی بات ہے ۔ نفاذ قانون کا یہ نظام موجود نہ ہو تو معاشرے میں مجرمانہ رجحانات بے لگام ہوجائیں اور عام لوگوں کے زندگی عذاب بن جائے۔ لیکن اس کے برعکس اگرنفاذ قانون کے ذمہ دار ادارے لوگوں کو جرم کے شبہ میں قانون کے مطابق گرفتار کرنے کے بجائے غیرقانونی طریقے سے اغواء کرکے غائب کردیں، ان کے لواحقین کو کسی طور پتہ نہ چلنے دیں کہ ان کے پیارے کہاں اور کس حال میں ہیں نیزمسلسل عدالتی تنبیہات کے باوجود اپنی روش میں کسی تبدیلی پر تیار نہ ہوں، تو یہ صورت حال کسی بھی مہذب معاشرے میں برداشت نہیں کی جاسکتی۔ یہ حقیقت نہایت افسوس ناک ہے کہ پاکستان کو برسوں سے اسی صورت حال کا سامنا ہے۔عدلیہ کی جانب سے خفیہ ایجنسیوں سے مسلسل باز پرس کے نتیجے میں ایسے افرادکی خاصی تعداد بازیاب ہوئی ہے لیکن اب بھی بہت سے لوگ اسی پراسرار انداز میں لاپتہ ہیں۔ اسلام آباد ہائی کورٹ نے ایک لاپتہ شہری کے کیس میں ملک کی ایک معروف خفیہ ایجنسی کے سربراہ کو آئندہ ہفتے ذاتی طور پر عدالت کے روبرو پیش ہونے کا حکم دیا ہے۔فاضل جج کے یہ ریمارکس اس ایجنسی کے لئے قابل غور ہیں کہ لاپتہ افراد کا الزام اسی پر کیوں لگتا ہے؟ کیا اس ملک میں کوئی آئین اور قانون نہیں ہے؟ اگر کسی نے کوئی جرم کیا ہے تواسے غائب کرنے کے بجائے عدالت میں پیش کیا جائے۔ حکومت اور پارلیمنٹ نے تحفظ پاکستان آرڈیننس کی شکل میں ایجنسیوں کو خصوصی اختیارات بھی دیدیے ہیں، اس کے بعد بھی اگرقانون میں کوئی کمی ہے تواس کی نشان دہی کرکے قانونی سقم دور کرایا جاسکتا ہے لیکن آئین اور قانون سے بالاتر رہنے کی اب اس ملک میں کسی کے لئے کوئی گنجائش نہیں ۔
تازہ ترین