• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
یوکرائن کا داخلی بحران اب عالمی بحران کی صورت اختیار کر گیا ہے اور کریمیا پر روسی قبضے کے بعد اس تنازع کی شدت میں مزید اضافہ ہوگیا ہے جس کے نتیجے میں امریکہ، یورپی یونین اور روس کے درمیان محاذ آرائی روز بروز بڑھتی جارہی ہے اور خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ یہ محاذ آرائی عالمی طاقتوں کے درمیان جنگ کی صورت اختیار نہ کرجائے۔ واضح ہو کہ سرد جنگ کے دوران یوکرائن 1991ء تک سوویت یونین کا حصہ رہا تاہم سوویت یونین کی تقسیم کے بعد یوکرائن ایک آزاد ملک کی حیثیت سے دنیا کے نقشے پر نمودار ہوا۔ یوکرائن میں حالیہ بحران کا آغاز اُس وقت ہوا جب روس نواز یوکرائنی صدر وکٹر یونوکوشا نے یورپی یونین کے ساتھ تجارت کے لئے سرحدیں کھولنے کے ایک معاہدے پر دستخط کرنے سے انکار کردیا تھا۔ یہ معاہدہ یوکرائن کا یورپی یونین میں رکن ملک بننے کی جانب ایک پیشرفت تصور کیا جارہا تھا اور یوکرائنی عوام کی اکثریت بھی اس کے حق میں تھی کیونکہ اُن کا خیال تھا کہ اگر یوکرائن، یورپی یونین کا حصہ بنتا ہے تو اس سے اُن کا ملک معاشی طور پر مضبوط اور خوشحال ہوگا۔ یورپی یونین کے خلاف صدر وکٹر یونوکوشا کے اس اقدام کو یوکرائن کے عوام نے ناپسندیدگی کی نظر سے دیکھا کیونکہ یوکرائن اُس وقت شدید مالی بحران کا شکار تھا جس سے نمٹنے کے لئے اسے فوری طور پر مالی امداد کی ضرورت تھی۔ ایسے میں روس نے یوکرائن کو یورپی یونین کا حصہ نہ بننے اور مالی بحران سے نمٹنے کے لئے 15 بلین ڈالر کی امداد اور یوکرائن کو سپلائی کی جانے والی گیس کی قیمت میں کمی کا وعدہ کیا مگر یوکرائنی عوام روسی امداد کے خلاف تھے۔یورپی یونین سے معاہدہ نہ کرنے کے باعث اپوزیشن نے دارالحکومت کیف میں بھرپور مظاہروں کا سلسلہ شروع کردیا جو ملک کے دوسرے حصوں میں بھی پھیل گیا تاہم یوکرائنی صدر نے مظاہروں کی پروا کئے بغیر روس سے 15 بلین ڈالر امداد حاصل کرنے کا معاہدہ کرلیا جس نے نہ صرف جلتی پر تیل کا کام کیا بلکہ عوام بھی مزید مشتعل ہوگئے۔ مظاہرین سے نمٹنے کے لئے صدر وکٹر یونوکوشا نے اُن کے خلاف طاقت کا بے دریغ استعمال کیا جس میں تقریباً 100افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہوگئے تاہم مظاہرین نے احتجاج کا سلسلہ جاری رکھا اور صدر سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کرتے رہے۔ بگڑتی صورتحال کے پیش نظر یوکرائنی صدر نے دارالحکومت کیف سے فرار ہوکر روسی زبان بولنے والوں کے اکثریتی علاقے خورکیف میں پناہ لینے میں عافیت جانی۔وکٹر یونوکوشا کے فرار کے بعد یوکرائن میں عبوری حکومت کا قیام عمل میں آیا مگر کشیدگی اُس وقت مزید بڑھ گئی جب معزول صدر کی درخواست پر روس نے یوکرائن کے علاقے کریمیا میں اپنی فوج بھیجی۔ مذکورہ روسی اقدام کو یوکرائن کے عبوری صدر نے غیر ملکی فوجی مداخلت قرار دیتے ہوئے اپنی افواج کو تیار رہنے کا حکم دے دیا جبکہ امریکہ اور برطانیہ سے بھی مدد کی درخواست کر دی۔ موجودہ صورتحال پر برسلز میں نیٹو کا ہائی کمان اجلاس منعقد کیا گیا جس میں نیٹو نے روسی اقدام کو یورپ کی سلامتی کے لئے خطرہ قرار دیتے ہوئے روس کو متنبہ کیا کہ وہ کریمیا میں فوجی مداخلت سے باز رہے۔ اس دوران کریمیا کی حکومت کی جانب سے کرائے گئے ریفرنڈم میں 90 فیصد سے زائد مقامی لوگوں نے روس سے الحاق کے حق میں ووٹ دیا اور روسی پارلیمنٹ کی منظوری کے بعد روسی صدر ولادی میر پیوٹن نے کریمیا کو روس میں شامل کرنے کے معاہدے پر دستخط کردیئے، اس طرح صرف ایک ہفتے میں کریمیا، روس کا حصہ بن گیا۔ یوکرائن کی موجودہ صورتحال پر امریکی صدر بارک اوباما کا یہ موقف ہے کہ روس نے کریمیا میں اپنی افواج بھیج کر یوکرائن کی خود مختاری کو روندا ہے، روس کو چاہئے کہ وہ اپنی افواج کو کریمیا سے واپس بلائے جبکہ روسی صدر ولادی میر پیوٹن نے کریمیا کے ریفرنڈم کو جمہوری اور بین الاقوامی روایات کے مطابق قرار دیتے ہوئے مغرب کو خبردار کیا ہے کہ وہ سرد جنگ کا راگ الاپنا بند کرے اور روسی مفادات کا احترام کرے۔ اُن کے بقول یوکرائن میں روسی زبان بولنے والوں کی زندگی کو خطرات لاحق ہیں اور ماسکو ان کی حفاظت کا حق رکھتا ہے۔ پیوٹن کا یہ بھی کہنا ہے کہ نیٹو کا روسی سرحد کے قریب آنا روس کے مفاد میں نہیں۔
یوکرائن کے معاملے پر امریکہ، یورپی یونین اور روس محاذ آرائی میں مصروف ہیں۔ دونوں کی خواہش ہے کہ مشرقی یورپ کا یہ ملک اُن کے بلاک میں شامل ہوجائے۔ سوویت یونین کے خاتمے کے بعد سرد جنگ کا خاتمہ ہوگیا تھا لیکن موجودہ صورتحال میں امریکہ اور روس کے درمیان اختلافات پہلی بار کھل کر سامنے آگئے ہیں اور دونوں ممالک ایک دوسرے کے خلاف صف آراء دکھائی دیتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ روس ایک گولی چلائے بغیر ہی کریمیا پر قابض ہوچکا ہے جبکہ اس کے یوکرائن کے دیگر حصوں پر قابض ہونے کے امکان کو بھی رد نہیں کیا جاسکتا کیونکہ روسی صدر ولادی میر پیوٹن سوویت یونین کی بکھری ہوئی ریاستوں کو دوبارہ اکٹھا کرنے کے خواہشمند نظر آتے ہیں۔ کریمیا پر روسی قبضے کے بعد یوکرائن کے صدر نے بھی یہ خدشہ ظاہر کیا ہے کہ روس کسی بھی وقت یوکرائن پر حملہ آور ہوکر ملک کے دیگر حصوں پر قابض ہوسکتا ہے۔ موجودہ حالات میں امریکہ اور یورپی یونین کی کوشش ہے کہ وہ روس کو یوکرائن کے مزید حصوں پر قابض ہونے سے باز رکھیں۔ اس سلسلے میں امریکہ اور اس کے اتحادی G-8 گروپ میں روس کی رکنیت معطل کرنے کا اعلان کرچکے ہیں۔ اس کے علاوہ امریکہ نے 20 اور یورپی یونین نے 12 روسی اعلیٰ سیاسی و فوجی شخصیات پر پابندیاں عائد کردی ہیں جن میں یوکرائن کے معزول صدر اور روس کے صدر ولادی میر پیوٹن کے چیف آف اسٹاف سمیت اعلیٰ عہدیداران بھی شامل ہیں۔ پابندیوں کی زد میں آنے والے افراد کے اثاثے منجمد کردیئے جائیں گے جبکہ ان کے امریکہ اور یورپی یونین میں داخلے پر بھی پابندی ہوگی۔
یہ حقیقت ہے کہ دنیا کی عالمی طاقتیں من مانیاں کررہی ہیں، وہ جس ملک کو چاہتی ہیں، اپنے مفاد میں اسے تقسیم کردیتی ہیں جس کی حالیہ مثالیں سوڈان، انڈونیشیا کا علاقہ مشرقی تیمور اور اب یوکرائن ہے۔ بڑی طاقتوں کے اس دہرے معیار نے دنیا کو بدامنی کی ہوا دی ہے۔ سوویت یونین کی تقسیم کے بعد یوکرائن کے پاس ایٹمی ہتھیاروں کا ایک بڑا ذخیرہ موجود تھا جسے یوکرائن نے امریکہ اور دیگر عالمی طاقتوں کے دبائو میں آکر تلف کردیا تھا جبکہ اس سے حاصل ہونے والا یورینیم انہی عالمی طاقتوں نے خریدلیا تھا جس پر یوکرائن کو آج پچھتاوے کا سامنا ہے۔ یوکرائن کا کہنا ہے کہ اگر آج وہ ایٹمی طاقت ہوتا تو روس، یوکرائن کے علاقے کریمیا پر قابض ہونے سے باز رہتا۔یوکرائن کی صورتحال میں پاکستان کے لئے بھی پیغام پوشیدہ ہے کیونکہ ماضی میں پاکستان پر بھی عالمی طاقتوں اور IAEA کا یہ دبائو رہا تھا کہ پاکستان اپنا ایٹمی پروگرام رول بیک کرکے ایٹمی ہتھیار اِن کی نگرانی میں دے۔ اگر خدانخواستہ عالمی دبائو میں آکر ہم ماضی میں ایسا کوئی فیصلہ کرلیتے تو آج ہمیں بھی یوکرائن جیسی صورتحال کا سامنا کرنا پڑسکتا تھا۔
تازہ ترین