• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ہم نے کبھی اپنی مولویت سے انکار کیا ہے اور نہ اسے چھپانے کی کاوش کیونکہ ہماری زندگی بھر کی تربیت اس سوچ کے زیر اثر ہوئی ہے کہ اسلام دین فطرت اور دین رحمت ہے اسلام ضابطہ حیات ہے یا نہیں، دین کامل ضرور ہے یہ ہمارے تمام دکھوں کی دوا اور تمام بیماریوں کا علاج ہے ۔ قیامت تک آنے والی تمام نسلوں کے تمام مسائل کا حل صرف اور صرف اسلام کے پاس ہے اور وہ یہ حل چودہ صدیاں قبل پیش کرکے ابدی طور پر سرخرو ہو چکا ہے ۔ اسلام نے خدا اور کائنات کا جو تصور پیش فرمایا ہے اس کے مطابق خدا کی رحمت و ربوبیت ازل سے ابد تک بلا توقف کل کائنات پر حاوی ہے وہ قادر مطلق محض کن کہتا ہے اور فیکون آن واحد میں ہو جاتا ہے وہ اگرچہ جبار و قہار بھی ہے لیکن اس کی صفت رحمن و رحیم دیگر تمام صفات پر حاوی ہے یہی وجہ ہے کہ اسلام کے مطابق وہ ستر مائوں سے بڑھ کر اپنے بندوں اور بندیوں سے پیار کرتا ہے اسی جذبہ رحمت کے تحت اس نے انسانوں کی ہدایت و رہنمائی کیلئے ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر بھیجے جن کا اختتام اس پیغمبر آخر الزماں ؐپر ہوا جنہوں نے دکھی و مظلوم انسانوں کی محبت میں رحمت اللعالمین ؐ کا ابدی و لازوال لقب پایا جو انسانوں کی کیا جانوروں کی تکلیف بھی نہ سہہ پاتے تھے ۔ جو دوستوں کیا دشمنوں کیلئے بھی سراپا رحمت تھے جس سے یہودیوں کی بچی کا دکھ بھی نہ دیکھا گیا جن پر درود و سلام بھیجتے ہوئے ہم ہمیشہ یہ کہتے ہیں کہ سلام اس پر جس نے خون کے پیاسوں کو عبائیں دیں سلام اس پر جس نے گالیاں سن کر دعائیں دیں سلام اس پر جس نے گنہگاروں کو یہ فرمایا کہ یہ میرے ہیں۔ یہ اسلام کی وہ بنیادی و متفق علیہ باتیں ہیں جن کا ورد ہم بچپن سے کرتے پڑھتے اور سنتے آ رہے ہیں ۔
ہم اس دعوے پر فخر کرتے نہیں تھکتے کہ اسلام دنیا بھر کے مظلوم کمزور اور بے سہارا انسانوں کا ملجا و ماویٰ ہے پیغمبر اسلام ؐ نے اپنے سینے پر دایاں ہاتھ رکھتے ہوئے فرمایا کہ ’’جس کا کوئی نہیں اس کا میں ہوں ‘‘ آنجناب ؐ کا یہ عہد نامہ سربراہ ریاست و حکومت کی حیثیت سے تھا ۔
بحیثیت مسلمان ہمارا یہ بھی دعویٰ ہے کہ اسلام نے سوسائٹی کے کمزور و ناتواں طبقات بالخصوص خواتین اور اقلیتوں کو 14سو سال پہلے جو حقوق دے دیئے قیامت تک کیلئے کوئی ترقی یافتہ سے ترقی یافتہ قوم بھی اس کی گرد یا قدموں کو نہیں پہنچ سکتی ۔یہ تمام تر دعوے سر آنکھوں پر ہیں لیکن کیا ہم مسلمانوں بالخصوص علمائے اسلام کا طرز عمل و تشریحات مندرجہ بالا دعوئوں کی مطابقت میں ہے۔ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارے علماء اور راسخ العقیدہ مسلمانی کانزلہ جب بھی گرتا ہے تو سوسائٹی کے کمزور و مظلوم طبقات بالخصوص خواتین اور اقلیتوں پر اس کا تازہ شاہکار اسلامی نظریاتی کونسل کے دو فیصلے یا سفارشات ہیں ۔ ایک فیصلے میں مردوں کو یہ لائسنس دیا گیا ہے کہ وہ جب چاہیں دوسری، تیسری یا چوتھی شادی کر سکتے ہیں اس سلسلے میں انہیں اپنی پہلی بیوی یا بیویوں سے رسمی اجازت لینے کی بھی کوئی ضرورت نہیں ہے دوسرے حقوق مرداں یہ بیان فرمائے گئے ہیں کہ انہیں نکاح کی شتابی کیلئے خود بالغ ہونے یا لڑکی کو بالغہ ہونے دینے کی بھی ضرورت نہیں ہے کمسنی یا نابالغہ کی شادی پر پابندی جیسے عائلی قانون کو بھی ختم کر دیا گیا ہے۔
کیا سوسائٹی کے کمزور طبقات کی اسلام کے مقدس نام پر یہ خدمت کی جا رہی ہے ؟جیسے پاکستان میں دوسری ،تیسری یا چوتھی شادی کے علاوہ کوئی مسئلہ ہی نہیں ہے اگر کوئی اور مسئلہ ہے تو وہ یہ کہ نابالغہ کی شادی پر پابندی کیوں ؟ ’’ولی ‘‘ کا مسئلہ بھی چھیڑاجا رہا ہے۔یہ قدغن بھی لگانا چاہتے ہیں کہ وہ خیار البلوغ کا حق بھی ولی کی منشاء کے بغیر استعمال کرنے سے قاصر ہے اس لئے کہ وہ ناقص العقل ہے کہ اس کی شہادت مرد سے آ دھی ہے ۔سچ تو یہ ہے کہ وہ نصیبوں جلی انسان ہی آدھی ہے اور قیامت تک کیلئے مرد کے بالمقابل ادھوری ہی رہے گی کیونکہ نکاح اگر کنٹریکٹ ہے اور اگر وہ برابر کی پارٹنر ہوتی تو اسے فتح یا باطل کرنے کا اختیار بھی برابری کی بنیاد پر ہوتا ۔وہ چاہے جتنی بھی پڑھی لکھی اور قابل کیوں نہ ہو جائے اس کے خاوند صاحب چاہے جتنے بڑے جاہل مطلق ہوں طلاق کا حق تو بہرحال مرد صاحب کو حاصل رہے گا اگر اس دکھیاری نے ظلم کے کسی بندھن سے خلاصی پانی ہے تو اسے ایسا کوئی حق نہیں وہ عدالتوں میں جائے وکیل کرے منشیوں کی خدمت کرے دھکے کھائے پھر خلاصی پائے اور وہ بھی عدالت سرکار کی صوابدید پر ہے عدالت حضور کو مطمئن بھی کر پاتی ہے یا نہیں ۔یہ درست علاج ہے کیا اس مقدس سوسائٹی میں عورت ہونا کوئی چھوٹا جرم ہے اگر اس کے نصیب اچھے ہوتے تو کیا یہ مرد پیدا نہ ہو جاتی ۔سو اب بھگتے اس سزا کو یہ تو مرد کا ضمیمہ ہے حوا بھی تو آدم ؑ کی پسلی سے پیدا کی گئی تھی قصہ آدم میں ہمیشہ آدم ؑ کی پیدائش کا ذکر پیہم کیا جاتا ہے نقطہ دان غور فرمائیں کہ آخر حوا کی تخلیق کا وہ اسلوب کہیں کیوں بیان نہیں کیا گیا۔ کیا یہ ثبوت نہیں ہے کہ وہ ادھوری اور مرد کی مرہون منت ہے لہٰذا دوسری شادی کیلئے مرد کی مردانگی کو کیوں ایسی آزمائش،الجھائو یا مشکل میں کیوں ڈالا جائے کہ وہ پہلی بیوی یا بیویوں کی خوشنودی حاصل کرتا پھرے۔
یقیناً اس حوالے سے میرے ہم قبیلہ مولوی صاحبان ہمیں بہت سے حوالے دے کر خاموش کرا دینگے۔ان صاحبان کی قوت و طاقت کے سامنے کوئی صاحب ایمان مرد ہو یا عورت آنکھ نہیں اٹھا سکتے ایسے تمام علماء و فضلاء اور اسلامی سکالرز کے سامنے ہمارا دست بستہ یہ سوال ہے کہ اس مسئلے میں اسوہ پیغمبری کیا ہے ! ہمیں حکم دیا گیا ہے کہ اپنے پیغمبر ؐ کے اسوہ کو اپنائو جب آنجناب ؐ کی بیٹی پر آپ ؐ کے داماد مولاعلی ؓ جیسی ہستی نے سوتن لانا چاہی تو چہرہ انور غصے سے سرخ کیوں ہو گیا ؟فرمایا فاطمہ ؓ میرے دل کا ٹکرا ہے جس نے اسے ایزا دی اس نے مجھے ایزا دی اے مسلمانو غور فرمائو اپنے مردوں کو دوسری شادیوں کے اوپن لائسنس جاری کرتے ہوئے جن بچیوں پر سوتنیں لانا چاہتے ہو کیا وہ کسی کے دل کا ٹکڑا نہیں ہیں۔ اے مولانا شیرانی خدا سے ڈرو یہ کروڑوں مسلمان بچیاں کیا کسی کے دل کا ٹکڑا نہیں ہیں جن سے آپ اجازت نامے کا معمولی اختیار بھی چھین لینا چاہتے ہو ۔ مسئلہ فدک کی رمز کو سمجھو یہ بھی اپنے اسی آقا ؐ کی بچیاں ہیں خدا اور رسول ؐ کے نام پر انہیں ایزا مت پہنچائو ۔ بوجوہ یہ بیچاری دکھوں کی ماری پہلے ہی بڑی مظلوم ہیں روز تمہاری غیرت کے نام پر قتل ہوتی ہیں خدارا ان پر ترس کھائو انہیں ان کا ابدی گناہ معاف کر دو بصورت دیگر انسانی شعور ہم جیسے مولوی صاحبان کا تیا پانچہ کر دےگا۔
تازہ ترین