• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
جارج ولیم فریڈرک کے نام سے برطانیہ کا ایک بادشاہ گذرا ہے ، جو ’’جارج سوئم ‘‘ کے طور پر مشہور تھا ۔ اس نے سلطنت برطانیہ پر طویل حکمرانی کی۔ 25 اکتوبر 1760ء سے 29 جنوری 1820ء تک یعنی 59 سال 96 دن تاج و تخت برطانیہ اس کے حوالے رہا ۔ ایک مرتبہ اس نے اعلان کیا کہ ’’ امریکا میں رہنے والے ہر مرد ریڈ انڈین کی کھوپڑی لانے والے کو 40 پاؤنڈز اور ہر ریڈ انڈین عورت اور 12 سال سے کم عمر بچے کی کھوپڑی لانے والے کو 20 پاؤنڈزبطور انعام دیا جائے گا ۔ ‘‘ اس اعلان کے بعد بعض انگریزوں کے لیے ’’ روزگار ‘‘ کے مواقع پیدا ہو گئے اور انہوں نے ریڈ انڈین باشندوں کے کٹے ہوئے سروں کا کاروبار شروع کردیا ۔ کہتے ہیں کہ اس زمانے میں تاج برطانیہ نے کھوپڑیاں لانے والوں کو لاکھوں پاؤنڈز ادا کئے ۔ اس وقت یہ بات مشہور تھی کہ برطانوی باشندوں کو رقم کی یہ ادائیگی تاج برطانیہ کا ایک ’’ تحفہ ‘‘ ہے ۔ جارج سوئم اپنی آخری عمر میں ایک عجیب و غریب بیماری کا شکار ہو گیا ۔ آج تک یہ پتہ نہیں چل سکا کہ اسے بیماری کیا تھی ۔ اس کی بینائی جاتی رہی تھی اور اسے جوڑوں کا شدید درد ہوتا تھا ۔ اس کی سب سے پیاری بیٹی شہزادی امیلیا کا انتقال ہوا تو وہ ذہنی توازن بھی کھو بیٹھا ۔ شہزادی کی نرس بتاتی ہے کہ بادشاہ روزانہ ناقابل بیان بے چینی کا شکار ہوتا تھا اور چیخ و پکارکرتا رہتا تھا ۔ وہ 11 سال تک ’’ ونڈسر کیسل ‘‘ میں بند رہا ۔ اسے یہ بھی پتا نہ چل سکا کہ اس کی بیوی اور بیٹا بھی مر گئے ہیں یا اسے ’’ ہین اوور ‘‘ کا بادشاہ بھی بنا دیا گیا ہے ۔ 1819 ء میں کرسمس کے موقع پر وہ مسلسل 58گھنٹے تک بے تکا بولتا رہا اور کسی کو یہ پتہ نہ چلا کہ وہ کہنا کیا چاہتا ہے ۔ اس کی بیماری اور پاگل پن کے دوران بھی اس کے فرمان پر عمل ہوتا رہا اور انسانی سر لانے والوں کو رقم ادا کی جاتی رہی ۔ جارج سوئم کے بعد اگرچہ کسی بھی سامراجی ملک کے حکمرانوں نے سرکاری طورپر اس طرح کا کوئی باقاعدہ اور واضح اعلان نہیں کیا لیکن یہ حقیقت ہے کہ سامراجی عزائم کے لیے جارج سوئم سے پہلے بھی اور جارج سوئم کے بعد بھی دنیا میں ہر اس جگہ بے گناہ انسانوں کا قتل عام کرایا گیا ، جہاں سامراجیت کے خلاف تھوڑی بہت مزاحمت تھی یا پیدا ہونے کا امکان تھا لیکن جارج سوئم کا اعلان تاریخ میں ایک باقاعدہ ثبوت کے طور پر موجود ہے کہ انسانوں کے قتل جیسے بھیانک جرم کو معاشی مفاد سے جوڑ دیا گیا اوراسے باقاعدہ ایک ’’ بزنس ‘‘ تسلیم کیا گیا ۔ مزاحمت کو کچلنے یا ختم کرنے کے لیے نسل کشی بھی کی گئی اور خونریزی کے ذریعہ نہ صرف آبادی کا تناسب بھی تبدیل کیا گیا بلکہ لوگوں کا تاریخی ، تہذیبی ، ثقافتی اور سیاسی کردار بھی تبدیل کر دیا گیا ۔ سامراجی عزائم کے لیے خون بہانا تاریخ میں ایک پرانا کھیل ہے اور اس کے لیے ’’ خفیہ آپریشنز ‘‘ کے نام پر آج بہت بڑا بجٹ مختص کیا جاتا ہے ۔اب اس بجٹ کااعلان بادشاہ نہیں کرتا بلکہ اس کی منظوری منتخب ایوانوں سے لی جاتی ہے ۔ اب یہ ضروری نہیں رہا کہ صرف اور صرف سامراجی ملکوں کے باشندے ہی قتل عام کریں ۔ اب یہ کام غریب اور جدید نو آبادیاتی نظام میں جکڑے ہوئے ممالک کے مقامی لوگوں سے بھی لیا جا رہا ہے ۔ مذہبی ، نسلی ، لسانی اور رنگ کی بنیاد پر یہ قتل عام کیا جاتا ہے لیکن یہ بھی ضروری نہیں رہا کہ خونریزی اور قتل عام کا کوئی واضح سبب ہو ۔ یہ پابندی بھی ختم ہو گئی ہے کہ کھوپڑیاں دے کر ہی پیسے وصول کئے جائیں ۔ اب صرف اتنا ہی کافی ہے کہ ٹی وی چینلز اور اخبارات میں یہ خبریں نشر یا شائع ہوں کہ فلاں شہر میں اتنے لوگ مارے گئے ۔ پیسے دینے والوں کے لیے یہ خبریں کافی ہیں ۔ بدامنی اور خونریزی کا ایک خود کار نظام وجود میں آ گیا ہے ، جسے ڈالرز ، پاؤنڈز ، فرانکس ، یورو ، درہم ، ریال ، روپے اور دیگر کرنسیوں کا ایندھن فراہم کیا جاتا ہے ۔ بدامنی اور خونریزی کرنے والے افراد اور گروہوں پر یہ پابندی بھی ختم کر دی گئی ہے کہ وہ کسی ایک علاقے تک اپنے آپ کو محدود رکھیں ۔ قتل عام کرنے والے دہشت گردوں کو نہ صرف سامراجی ممالک کے خفیہ آپریشنز کے بجٹ سے ادائیگی ہوتی ہے بلکہ انہیں اپنے زیر اثر علاقوں میں بھی پیسہ کمانے کی ہر ممکن آزادی ہوتی ہے ۔ دہشت گردی اور انتہا پسندی ’’ بلین ڈالرز بزنس ‘‘ بن گئی ہے ، جو پوری دنیا میں صرف اور صرف سامراجی عزائم کی تکمیل کرتی ہے ۔ اس بزنس میں مقابلے کی بھی فضا پیدا ہو گئی ہے اور حاصل ہونے والا منافع تقسیم بھی کرنا پڑتا ہے تاکہ اس کاروبار کو ’’ تحفظ ‘‘ حاصل ہو سکے ۔ منافع کے حصہ داروں میں اہل حکومت ، اہل سیاست اور اہل دانش سب شامل ہیں اور کبھی کبھی تو وہ بڑے حصہ دار ہوتے ہیں ۔ مسابقت اس قدر زیادہ ہے کہ بدامنی اور خونریزی کرنے والوں کو روزانہ کی بنیاد پر اپنی کارکردگی دکھانا ہوتی ہے اور مقابلہ کرنے والے دیگر گروہوں پر اپنی برتری ظاہر کرنا پڑتی ہے ۔ یہ پیچیدہ نظام ہے ، جسے سمجھنے کے لیے پاکستان دنیا کا بہترین ملک ہے ۔ یہاں روزانہ انسانوں کو ایسی بے بسی کی موت دی جاتی ہے ، جس سے ہزاروں سال پہلے ہندوستان کی مشہور رزمیہ داستان کے ہیرو گل باندہ نے ’’ شمس دیوتا ‘‘ سے پناہ مانگی تھی اور کہا تھا کہ ’’ اے شمس دیوتا ! تو سب کو ایسی موت سے بچا ، جہاں باپ بیٹا ساتھ نہ ہوں ، ماں سر پر نہ ہو ، جہاں رشتہ دار اور عزیز و اقارب بھی نہ ہوں ، جہاں ماؤں کے بین ہوں اور نہ چیخیں ہوں ، جہاں بہن کی گریہ و زاری نہ ہو اور جہاں خویش قبیلہ بھی ساتھ نہ ہو ۔ ایسی موت سے شمس دیوتا ! تو سب کو بچا ۔ ‘‘ پاکستان میں بے گناہ انسانوں کو قتل کرنے والے لوگ تو ’’ نا معلوم ‘‘ ہی ہیں لیکن پاکستان بھی بے شناخت لاشوں کا قبرستان بن گیا ہے ۔ 18 ویں اور 19 ویں صدی میں جارج سوئم کی طرف سے لاکھوں پاؤنڈز کی صورت میں دیا گیا تحفہ اس لیے یاد آ رہا ہے کہ اب ایک اور تحفے کا ذکر ہو رہا ہے ، جو ڈیڑھ ارب ڈالرز ہے ۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ یہ تحفہ 15 ارب ڈالر تک ہو سکتا ہے ۔ ڈیڑھ ارب ڈالر ملنے کے بعد حکومت پاکستان اور طالبان کے درمیان براہ راست مذاکرات کے ذریعہ جنگ بندی میں توسیع اور ’’ غیر عسکری ‘‘ قیدیوں کی رہائی کا فیصلہ بھی ہوگیا ہے ۔ یہ محض اتفاق ہو سکتا ہے کہ اس سے پہلے بعض عرب ممالک میں بھی القاعدہ اور دیگر عسکری تنظیموں کے قیدی رہا ہو چکے ہیں ۔ایک طرف طالبان اور حکومت کے درمیان مذاکرات کی کامیابی کا عندیہ دیا جا رہا ہے اور دوسری طرف سندھ سمیت پورے پاکستان میں سیاسی مفاہمت اور ہم آہنگی کو فروغ حاصل ہو رہا ہے ۔ کس کو کس کی مخالفت کرنی ہے اور کس کو کس کی حمایت کرنی ہے ، سب افہام وتفہیم سے طے ہو رہا ہے ۔ 24 گھنٹے ٹی وی ٹاک شوز اور اخبارات میں روزانہ ہزاروں تبصروں اور تجزیوں کی اشاعت کے باوجود یہ ’’ بزنس ‘‘ جاری ہے ، جو زمینوں سے قتل و خونریزی کی فصلیں اگا رہا ہے ، بیوائیں اور یتیم پیدا کر رہا ہے اور ہر چیز کو الٹ پلٹ کر رہا ہے ۔ پاکستان سمیت عالم اسلام اور دنیا کے دیگر غریب ممالک میں بدامنی ، انتشار ، تصادم اور خونریزی میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے ۔ اس صورت حال میں جارج سوئم تو محض تاریخ کا ایک استعارہ بن گیا ہے۔
تازہ ترین